میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں کو میرا آداب
اللہ تبارک وتعالی نے اپنے تمام انبیاء کرام کو معجزات سے نوازا اور انبیاء
کرام اللہ تبارک وتعالی کی عطا سے ملنے والے ان معجزات کو اس وقت استعمال
میں لاتے ہیں جب انہیں رب ذوالجلال کا حکم ہوتا اور یہ حکم اس وقت ہوتا جب
کوئی سرکش کافر اللہ کے ہونے کا انکار کرتے ہوئے اللہ تبارک وتعالی کے
پیاروں سے الجھ جائے یا اللہ تبارک و تعالی کی موجودگی کا ثبوت ان سے مانگے
جیسے حضور صلی اللہ علیہ والیہ وسلم کا چاند کے دو ٹکڑے کرنا آپ صلی اللہ
علیہ والیہ وسلم کے ہاتھ میں پتھر کا بولنا اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ
السلام کا آگ میں جانا اور آگ کا نہ جلانا حضرت موسی علیہ السلام کو عصاء
عطا کرنا جو آپ علیہ السلام کے لئے فرعون کے ساحروں سے مقابلہ کے وقت ایک
ازدھا بن کر فرعو ن کے ساحروں کے لئے خطرہ بن گیا تھا اور ایسے بے شمار
معجزات ہیں جو اللہ تبارک و تعالی نے اپنے انبیاء کرام کو عطا کئیے اس کے
بعد صحابہ کرام کو بھی یہ طاقت عطا کی گئی اور یہ سلسلہ اولیاء کرام اور
بزرگان دین تک پہنچا فرق اتنا ہے کہ جو اولیاء کرام اور بزرگان دین کو عطا
ہوئی اسے معجزہ نہیں بلکہ کرامت کہتے ہیں اللہ جسے اپنا قرب اور اپنے حبیب
کا عشق عطا کردیتا ہے اور وہ پھر اس عشق میں اپنے آپ کو فناء کردیتے ہیں تو
اللہ تبارک وتعالی ان سے کرامتیں صادر فرماتا ہے کسی نے ایک بزرگ سے پوچھا
کہ یہ کرامت کیا عام انسان کو حاصل ہوسکتی ہے تو بزرگ مسکرائے اور فرمایا
کیوں نہیں اگر کوئی انسان دنیا و مافیہا سے دور کسی ایسی جگہ پر جہاں
دنیاوی زندگی کا کوئی وجود تک نہ ہو یعنی جنگل میں صرف اور صرف اللہ تبارک
و تعالی کی عبادت میں وہاں جاکر 40 روز گزارے اور صرف اور صرف یہ روز اللہ
تبارک وتعالی کے ذکر میں صرف کرے تو اس کے بعد اللہ تبارک و تعالی کی وطا
سے اس کے پاس سے کرامات کا ظہور شروع ہوجاتا ہے جبکہ اولیاء کرام اور
بزرگان دین جیسے لوگوں نے تو اپنی زندگی کے کئی سال مجاہدات میں صرف کئے
اور تب انہیں ایک مقام ملا اور یہ ہی وجہ ہے آج داتا گنج بخش حجویری رحمتہ
اللہ علیہ کا مزار مبارک ہو یا عبداللہ شاہ غازی علیہ رحمتہ کا خوجہ معین
الدین چشتی علیہ رحمتہ کا ہو یا بہائودالدین زکریا ملتانی علیہ رحمتہ کا
چوبیس گھنٹے وہاں پر رونق لگی رہتی ہے لوگ آتے ہیں اور فیض پاتے ہیں ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں اگر ہم انبیاء کرام کی بات کرتے ہیں تو
قران مجید فرقان حمید کو اگر ہم ترجمہ کنزالایمان بمعہ تفصیل پڑھلیں تو اس
میں بےشمار نشانیاں اور وقعات مجود ہیں جس میں ان معجزات کا ذکر ہے جیسے
سورہ بنی اسرایئل میں حضرت موسی علیہ السلام کا مکمل واقعہ بیان کیا گیا ہے
اس کے علاوہ سورہ العمران میں بی بی حضرت مریم رضی اللہ عنھا کا بھی ذکر
اور ان پر ہونے والے موجزہ کا ذکر کیا گیا ہے حضرت سلیمان علیہ السلام کا
جانوروں اور ہرندوں سے باتیں کرنا اور اس کے علاوہ بھی کئی واقعات موجود
ہیں جن میں انبیاء کرام سے صادر ہونے والے معجزوں کا ذکر کیا گیا ہے اس
سلسلے میں آپ کو میں سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ والیہ وسلم کی طرف سے اللہ
تبارک و تعالی کی عطا سے ہونے والے ایک معجزے کے بارے میں بتاتا ہوں یہ
واقعہ جناب حافظ محمد عمر حفظ اللہ تعالی کی کتاب صحیح معجزات رسول صلی
اللہ علیہ والیہ وسلم سے لیا گیا ہے آپ لکھتے ہیں کہ حضرت سیدنا انس بن
مالک رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ والیہ
وسلم کو اس حالت میں دیکھا کہ عصر کا وقت تھا لوگوں نے وضو کے لئے پانی
تلاش کیا مگر پانی نہ ملا اتنے میں کسی برتن میں تھوڑا سا پانی صلی اللہ
علیہ والیہ وسلم کے پاس لایا گیا آپ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے اپنا ہاتھ
اس برتن (پانی والے ) میں ڈالا اور حکم دیا کہ سب لوگ وضو کرلیں سیدنا انس
رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ والیہ
وسلم کی انگلیوں کے نیچے سے پانی بہ رہا تھا (چشمے کی طرح ) تمام لوگوں نے
وضو کیا یہاں تک کہ اس ادمی نے بھی وضو کیا جو سب سے آخری تھا رسول صلی
اللہ علیہ والیہ وسلم کے اس معجزے کو صحابہ کرام اور ثقہ راویوں کی کثیر
تعداد نے بیان کیا ہے ایک وہ معجزہ جس میں جب پتھر سے پانی جاری ہوا تھا تو
یہ معجزہ اس سے بھی بڑا تھا امام مزنی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضور
صلی اللہ علیہ والیہ وسلم کو اس سے بڑی کوئی نشانی نہیں دی گئی کہ جب حضرت
موسی علیہ السلام نے اللہ تبارک و تعالی کی عطا سے پتھر پر پر اپنا عصاء
مارا تو پانی کے بارہ چشمے جاری ہوگئے کیوں کہ پتھر سے پانی جاری ہونا تو
معروف ہے لیکن انگلیوں سے پانی جاری ہونا غیر معروف ہے اور یہ معجزہ صلی
اللہ علیہ والیہ وسلم کے سوا کسی اور پر ثابت بھی نہیں ہے قاضی عیاض رحمتہ
اللہ علیہ فرماتے ہیں اس واقعہ کو بے شمار قابل اعتماد لوگوں نے بیان کیا
ہے اور ہمیشہ مسلمانوں کے اجتماعات ، مجالس اور محافل میں یہ واقعہ بیان
ہوتا رہا ہے اور ہوتا رہے گا ۔
میرے معزز اور محترم پڑھنے والوں حضور صلی اللہ علیہ والیہ وسلم کی زندگی
میں ظاہر ہونے والے معجزات کی تعداد ان گنت بتائی گئی ہیں میں کوشش کروں گا
کہ وقت کے ساتھ ساتھ ایک ایک کرکے آپ تک پہنچائوں اب ہم صاحبئہ کرام کے
کرامات کی بات کرتے ہیں اگے بڑھنے سے قبل یہ بات واضح کرتا چلوں کہ صاحبئہ
کرام ،اولیاء کرام اور بزرگان دین سے جو بھی کرامت صادر ہوتی ہے وہ سرکار
مدینہ صلی اللہ علیہ والیہ وسلم کے معجزہ کا تسلسل ہے کیوں کہ انہیں یہ
مقام صلی اللہ علیہ والیہ وسلم کی اقتدا اور پیروی کے باعث ملا ہے لہذہ
یہاں یہ بات بھی ثابت ہوگئی کہ جو کرامت اولیاء کا منکر ہے وہ معجزئہ رسول
صلی اللہ علیہ والیہ وسلم کا بھی منکر ہے اب ایک واقعہ صاحبئہ کرام کے
کرامت کا بھی پیش خدمت ہے گویا ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا
بیان کرتی ہیں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے غابہ نامی وادی میں
چند کھجور کے درخت ہمیں ہبہ کئیے تھے یعنی تحفہ میں دیئے تھے جن کی آمدن
بیس وسق کھجوریں تھیں اس زمانے میں نانپنے کا جو پیمانہ تھا اسے وسق کہتے
تھے یعنی ایک وسق کھجور کی قیمت چالیس درہم ہوتی تھی اس لئیے بیس وسق کھجور
کی قیمت ایک ہزار درہم تھی جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی وفات
کا وقت قریب آیا تو فرمایا اے میری پیاری بیٹی میں نے تمہیں چند کھجور کے
درخت دیئے تھے اگر تم ان پر قابض ہوجاتے تو تمہاری ملکیت ہوتے لیکن اب وہ
میراث کا مال ہے تمہارے دو بھائی اور دوبہنیں یعنی تمہارے سمیت تم پانچ بہن
بھائی ہو لہذہ تم اس کو اللہ تبارک وتعالی کی کتاب کے حکم کے مطابق تقسیم
کرلینا ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے عرض
کیا ابا جان میری تو ایک ہی بہن ہے آسماء دوسری کون ہیں تو حضرت ابوبکر
صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا وہ( میری زوجہ ) بنت خارجہ کے پیٹ میں
ہے اور میں دیکھ رہا ہوں کہ وہ لڑکی ہے ابن سعد سے روایت میں اضافہ ہے کہ
بعد میں ام کلثوم پیدا ہوئیں ۔
میرے معزز اور محترم پڑھنے والوں امام سبکی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
اس واقعہ میں دوکرامتیں موجود ہیں ایک تو یہ کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ
تعالی عنہ نے اپنے کشف سے یہ پہچان لیا کہ زوجہ کے پیٹ میں بچہ ہے اور وہ
بھی لڑکی اس لئیے بڑے وثوق کے ساتھ فرمایا کہ اے عائشہ رضی اللہ تعالی عنھا
تمہاری دو بہنیں اور دو بھائی ہیں اور تمہارے سمیت پانچ ہیں اللہ کے احکام
کے مطابق مال وراثت تقسیم کرنا۔
دوسری کرامت یہ ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے اس بیماری سے اپنی
وفات کی خبر دے دی آدمی کئی بار بیمار ہوتا ہے پھر شفایاب ہوجاتا ہے لیکن
آپ رضی اللہ تعالی عنہ کا یہ فرمان کہ اب یہ مال میراث کا ہے میرا نہیں ہے
یعنی وارثوں کا ہے میراث کا ذکر کرکے یہ بات واضح کردی کہ میں اس مرض سے
صحتیاب نہیں ہوپائوں گا اور اب میری وفات کا وقت آگیا ہے حضرت ابوبکر صدیق
رضی اللہ تعالی عنہ سے صادر ہونے والے اور بھی کئی معجزات ہیں لیکن یہاں ان
دو کرامات ذکر میں نے آپ تک پہنچایا ہے ۔
میرے محترم اورمعزز پرھنے والوں آپ نے ایک واقعہ صلی اللہ علیہ والیہ وسلم
کے معجزے کا پڑھا اور ایک واقعہ صاحابئہ کرام حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی
عنہ کی کرامات کا پڑھا اب میں آپ کو اولیاء کرام یعنی بزرگان دین کی کرامت
کا ایک واقعہ تحریر کررہا ہوں ویسے تو پوری دنیا میں موجود اولیاء کرام کے
کرامتوں سے کتابیں کثیر تعداد میں موجود ہیں کہ جو اللہ تبارک وتعالی کی
عطا اور حضور صلی اللہ علیہ والیہ وسلم کے معجزات کے تسلسل کو جاری رکھتے
ہوئے وقت کے مطابق اپنی کرامت صادر فرماتے ہیں خود سردار اولیاء غوث
الثقلین محبوب سبحانی شیخ عبد القادر جیلانی حضور غوث پاک رحمتہ اللہ تعالی
علیہ سےصادر ہونے والی کثیر کرامتوں کا ذکر کئی کتابوں میں موجود ہے آپ
رحمتہ اللہ تعالی علیہ کی اس سے بڑی کرامت کیا ہوگی کہ آپ رحمتہ اللہ تعالی
علیہ کے والد حضرت ابو صالح سید موسی جنگی دوست رحمتہ اللہ تعالی علیہ نے
حضور غوث پاک رحمتہ اللہ تعا لی کے ولادت والی رات یہ مشاہدہ فرمایا کہ
سرور کائنات ، فخر مجودات، منبع کمالات ، وجئہ تخلیق کائنات محمد مصطفی صلی
اللہ علیہ والیہ وسلم بمعہ صاحابئہ کرام ، ائمتہ الہدی اوراولیاء عظام رضی
اللہ تعالی عنہم اجمعین کے گھر جلوا افروز ہیں اور ان الفاط مبارکہ کے ساتھ
ان کو خطاب فرماکر بشارت سے نوازا کہ اے ابو صالح رحمتہ اللہ علیہ اللہ
عزوجل نے تمہیں ایک ایسا فرزند عطا کیا ہے جو پیدائشی ولی ہے اور میرا اور
میرے اللہ تبارک و تعالی کا محبوب ہے اور اس کا مقام تمام اولیاء اور اقطاب
میں ایسا ہوگا جیسے میرا مقام تمام انبیاء و مرسلین میں تمام اولیاء تمہارے
فرزند ارجمند کے مطیع ہوں گے اور ان کی گردنوں پر اس کے قدم مبارک ہوں گے۔
( سیرت غوث الثقلین صفہ55بحوالہ تفریح الخاطر )
یہ حضور غوث پاک کی ایک کرامت تھی جو پیدائش سے بھی پہلے کی تھی جبکہ دوسری
کرامت آپ علیہ السلام کی پیدائش ہے یعنی آپ علیہ السلام یکم رمضان المبارک
صبح صادق کے وقت میں پیدا ہوئے اور سحری سے لیکر افطاری تک آپ علیہ السلام
اپنی ماں کے دودھ کو منہ تک نہ لگاتے اور افطاری کے بعد آپ علیہ السلام
اپنی ماں کا دودھ سیر ہوکر پیتے یعنی اس عمر میں بھی روزہ کی حالت میں رہتے
اور جب آخری روزہ آیا اور لوگوں کو عید کے چاند کاانتظار کا انتظار تھا
لیکن خراب موسم کی وجہ سے چاند کے ظاہر ہونے کے آثار کم تھے تو لوگ آپ علیہ
السلام کی والدہ ماجدہ سے پوچھنے آگئیے کہ آج آپ کے بچے نے دودھ پیا ہے تو
آپ علیہ السلام کی والدہ ماجدہ نے فرمایا کہ نہیں تو معلوم ہوا کہ کل کا
بھی روزہ ہے اور یوں شہر میں مشہور ہوگیا کہ سیدوں کے یہاں ایک بچہ پیدا
ہوا ہے جو سحری سے افطاری تک ماں کا دودھ نہیں پیتا تو یہ بھی حضور غوث پاک
رحمتہ اللہ علیہ کی ایک کرامت تھی حضور غوث پاک کے کرامات کی تعداد بھی ان
گنت ہےجب بھی مجھے موقع ملا حضور غوث پاک رحمتہ اللہ علیہ کے بارے میں ایک
مکمل اور جامع مضمون میں اپ لوگوں کی خدمت میں انشاء اللہ پیش کروں گا ۔
میرے معزز اور محترم یاروں آج کی تحریر میں میں نے کوشش کی ہے کہ آپ تک صلی
اللہ علیہ والیہ وسلم سے اللہ تبارک وتعالی کی عطا سے صادر ہونے والے معجزے
اور صاحبئہ کرام اور اولیاء کرام سے صادر ہونے والی کرامتوں کا ذکر کروں
اور آگے بھی دوسرے معجزوں اور کرامتوں کے بارے میں معلومات انشاء اللہ اپنی
تحریروں کے زریعے آپ تک پہنچاتا رہوں گا اللہ تبارک وتعالی سے دعا ہے کہ
مجھے ہمیشہ اپنی تحریروں میں حق بات لکھنے اور ہم سب کو پڑھکر اس پر عمل
کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔
|