ارشادِ ربانی ہے :’’وہی ہے جس نے سُورج کو اجیالا بنایا
اور چاند کو چمک دی اور چاند کے گھٹنے بڑھنے کی منزلیں ٹھیک ٹھیک مقرر کر
دیں تاکہ تم اُس سے برسوں اور تاریخوں کے حساب معلوم کرو ‘‘۔ قرآن حکیم
میں سورج اور چاند کی تخلیق و گردش میں کئی نشانیوں کا ذکر ملتا ہے۔ ان میں
سے ایک ماہ و سال کا حساب کتاب بھی ہے ۔ نئے سال کے موقع پر لوگ باگ اپنے
اپنے ظرف کے مطابق ماضی قریب کا جائزہ تو لیتےہیں لیکن ان سے عبرت نہیں
پکڑتے کیونکہ ان کی نظر کیا ہوا ؟ پر زیادہ اور کیوں ہوا؟؟ پر کم ہوتی ہے۔
واقعات کے ظاہری اسباب و علل پر تو خوب غورو خوض ہوتاہے لیکن ان کے حقیقی
مقاصد تک رسائی نہیں ہوپاتی ۔آگےارشادِ قرآنی ہے :’’اللہ نے یہ سب کچھ با
مقصد ہی بنایا ہے وہ اپنی نشانیوں کو کھول کھول کر پیش کر رہا ہے اُن لوگوں
کے لیے جو علم رکھتے ہیں۔ یقیناً رات اور دن کے الٹ پھیر میں اور ہر اُس
چیز میں جو اللہ نے زمین اور آسمانوں میں پیدا کی ہے، نشانیاں ہیں اُن
لوگوں کے لیے جو (غلط بینی و غلط روی سے) بچنا چاہتے ہیں ‘‘۔ یعنی ان
نشانیوں سے استفادے کی خاطر علم کی دولت اور تقویٰ کی صفت لازم ہے۔
فرمانِ ربانی ہے :’’دیکھو، ہم نے رات اور دن کو دو نشانیاں بنایا ہے رات کی
نشانی کو ہم نے بے نور بنایا، اور دن کی نشانی کو روشن کر دیا تاکہ تم اپنے
رب کا فضل تلاش کر سکو اور ماہ و سال کا حساب معلوم کر سکو اِسی طرح ہم نے
ہر چیز کو الگ الگ ممیز کر کے رکھا ہے‘‘۔سالِ نو کی آمد انسانوں کو مستقبل
کی منصوبہ بندی پر بھی آمادہ کرتی ہے ۔ علم نجوم میں یقین رکھنے والے لوگ
آنے والے دنوں میں اپنے لیے اچھے اور برے شگون کا تعین کرنے کی کوشش کرتے
ہیں تاکہ دنیا میں ان سے فائدہ اٹھا سکیں یا نقصان سے بچ سکیں لیکن وہ اس
فرمانِ قرآنی کو بھول جاتے ہیں کہ:’’ ہر انسان کا شگون(نامۂ اعمال) ہم نے
اُس کے اپنے گلے میں لٹکا رکھا ہے‘‘۔مستقبل کی ابدی کامیابی و ناکامی کا
دارومدار ان حالات پر نہیں ہے کہ جن سے سابقہ پیش آئے گا۔ اس کا تعلق تو
ان افعال سے ہےکہ جن کا ارتکاب کیا جائے گا اور وہ فرد کے اپنے ہاتھوں کی
کمائی ہوگی ۔ ارشادِ خداوندی ہے: قیامت کے روز ہم ایک نوشتہ اُس کے لیے
نکالیں گے جسے وہ کھلی کتاب کی طرح پائے گا ‘‘(حکم ہوگا) پڑھ اپنا نامہ
اعمال، آج اپنا حساب لگانے کے لیے تو خود ہی کافی ہے‘‘۔
کتابِ حق میں روز محشر کا یہ چشم کشا منظر ملاحظہ فرمائیں کہ:’’ جو کوئی
راہ راست اختیار کرے اس کی راست روی اس کے اپنے ہی لیے مفید ہے، اور جو
گمراہ ہو اس کی گمراہی کا وبا ل اُسی پر ہے کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا
بوجھ نہ اٹھائے گا اور ہم عذاب دینے والے نہیں ہیں جب تک کہ (لوگوں کو حق و
باطل کا فرق سمجھانے کے لیے) ایک پیغام بر نہ بھیج دیں‘‘۔ یوم آخرت کی جزا
و سزا سے غافل سالِ نو کا جشن منانے والوں کی بابت اللہ کی کتاب کہتی ہے:’’
(آج یہ دُنیا کی زندگی میں مست ہیں) اور جس روز اللہ اِن کو اکٹھا کرے گا
تو (یہی دُنیا کی زندگی اِنہیں ایسی محسُوس ہوگی) گویا یہ محض ایک گھڑی بھر
آپس میں جان پہچان کرنے کو ٹھیرے تھے (اس وقت تحقیق ہو جائے گا کہ) فی
الواقع سخت گھاٹے میں رہے وہ لوگ جنہوں نے اللہ کی ملاقات کو جھٹلایا اور
ہرگز وہ راہِ راست پر نہ تھے ، اور ہم نے جن باتوں کا ان سے وعدہ کیا ہے
انہیں آپ کو دکھادیں یا آپ کو پہلے ہی دنیا سے اٹھالیں انہیں تو بہرحال پلٹ
کر ہماری ہی بارگاہ میں آنا ہے اس کے بعد خدا خود ان کے اعمال کا گواہ ہے
‘‘۔
نبیٔ کریم ﷺ فرماتے ہیں:’’ مجھ سے کہا گیا تیری آنکھیں سو جائیں، تیرا دل
جاگتا رہے اور تیرے کان سنتے رہیں چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ پھر فرمایا گیا ایک
سردار نے ایک گھر بنایا۔ وہاں دعوت کا انتظام کیا۔ ایک بلانے والے کو
بھیجا۔ پس جس نے اس کی دعوت قبول کی۔ گھر میں داخل ہوا اور دسترخوان سے
کھانا کھایا ، جس نے نہ قبول کی نہ اسے اپنے گھر میں آٹا ملا نہ دعوت کا
کھانا میسر ہوا نہ سردار اس سے خوش ہوا۔ پس اللہ سردار ہے اور گھر اسلام ہے
اور دستر خوان جنت ہے اور بلانے والے حضرت محمد (ﷺ) ہیں‘‘۔ قرآنِ حکیم کے
اندر دنیائے فانی کے فریب میں مبتلا عالمِ انسانیت کو :’’اللہ دار السلام
کی طرف دعوت دے رہا ہے (ہدایت اُس کے اختیار میں ہے) جس کو وہ چاہتا ہے
سیدھا راستہ دکھا دیتا ہے‘‘۔ نئے سال کی حقیقی مبارکباد کے مستحق وہی
پاکیزہ نفوس ہیں جنہوں نے رب ذوالجلال کی دعوت پر لبیک کہہ کر اپنا مقدر
سنوار لیا ورنہ بقول اقبال ساجد؎
کسی کو سال نو کی کیا مبارک باد دی جائے
کلینڈر کے بدلنے سے مقدر کب بدلتا ہے
|