|
|
یوکرین میں فوجی ڈاکٹرز نے ایک غیر معمولی آپریشن کے
دوران ایک فوجی کے جسم سے ایسا گرینیڈ نکال لیا جو پھٹا نہیں تھا۔ |
|
اس کامیاب آپریشن کے دوران زخمی فوجی کی چھاتی کے اندر
تک گھس جانے والا چھوٹا ’وی او جی‘ گرینیڈ نکالا گیا۔ اس سرجری کے عمل کی
اطلاع یوکرین کی نائب وزیر دفاع ہانا مالیار نے دی جنھوں نے اسے ’خوشی کا
جھٹکا‘ قرار دیا۔ |
|
ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں انھوں نے لکھا کہ ’دل کے قریب
لگنے والا ہر زخم جان لیوا نہیں ہوتا۔‘ |
|
انھوں نے بتایا کہ یہ گرینیڈ فوج کے دو ایسے افسران کی معاونت سے نکالا گیا
جو دھماکہ خیز مواد میں مہارت رکھتے ہیں۔ |
|
ان افسران نے اس بات کو یقینی بنایا کہ میڈیکل سٹاف بھی سرجری کے دوران
محفوظ رہے اور انھوں نے اس گرینیڈ کو سرجری کے دوران پھٹنے سے بچانے کے لیے
ضروری ہدایات فراہم کیں۔ |
|
ہانا مالیار کے مطابق یہ آپریشن ایک فوجی سرجن اندرے وربا نے کیا۔ 57 سالہ
سرجن کو یوکرین کی فوج کا سب سے ماہر اور تجربہ کار سرجن سمجھا جاتا ہے۔ |
|
|
|
اس آپریشن کی غیر معمولی نوعیت اور میڈیکل سٹاف کی حفاظت
کے پیش نظر کچھ تبدیلیاں کی گئیں جن میں سب سے اہم یہ تھی کہ
الیکٹروکواگلیشن کا عمل، جو دل کی سرجری کے دوران خون بہنے سے روکتا ہے،
استعمال نہیں کیا گیا۔ |
|
اس کی وجہ یہ تھی کہ اس بات کا خدشہ موجود تھا کہ
الیکٹرک کرنٹ سے گرینیڈ پھٹ سکتا ہے۔ |
|
واضح رہے کہ روسی ساختہ وی او جی نامی گرینیڈ، جو یوکرین
کے فوجی کے جسم میں موجود تھا، کا قطر تقریبا چار سینٹی میٹر اور وزن 275
گرام تھا۔ |
|
یہ گرینیڈ 1960 میں تیار کیے گئے تھے اور ان کو مختلف
گرینیڈ لانچرز کے ذریعے داغا جاتا ہے جو 400 میٹر تک مار کر سکتے ہیں۔ |
|
|
|
یوکرین کی فوج کے مطابق یہ اسلحہ 2014 میں مشرقی یوکرین
میں تنازعے کے آغاز سے ہی ان کے خلاف استعمال کیا جاتا رہا ہے اور اکثر اسے
ڈرون کے ذریعے بھی پھینکا جاتا ہے۔ |
|
یاد رہے کہ یہ گرینیڈ عام طور پر لانچ ہونے کے 20 سیکنڈ
بعد پھٹ جاتا ہے۔ |
|
یوکرین کے عسکری تجزیہ کار اس بات پر حیران تھے کہ یہ
گرینیڈ کیوں نہیں پھٹا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ سرجری کے بعد بھی یہ گرینیڈ اس
وقت تک دھماکہ خیز اور خطرناک تھا جب تک اسے ماہرین نے ناکارہ نہیں بنا دیا۔ |
|
یوکرین کے حکام نے زخمی فوجی کا نام ظاہر نہیں کیا لیکن
خیال کیا جاتا ہے کہ اس کی عمر تقریبا 28 برس ہے۔ |
|
یوکرین کے ایک مشیر انٹون گیراسچینکو نے عسکری حکام کا
حوالہ دیتے ہوئے سوشل میڈیا پر لکھا کہ ’اس مریض کے بارے میں اتنا ہی بتایا
جا سکتا ہے کہ وہ 1994 میں پیدا ہوا اور اب اس کی حالت خطرے سے باہر ہے۔‘ |
|
انھوں نے لکھا کہ ’میرے خیال میں یہ کیس میڈیکل کی
کتابوں میں پڑھایا جائے گا۔‘ |
|
Partner Content: BBC Urdu |