سوشل میڈیا پر وائرل ہوتی ’افغان سُپر کار‘ کے بارے میں ہم اب تک کیا جانتے ہیں؟

image
 
’کابل بگرام ایئر بیس پر جب امریکی اور اتحادی افواج موجود تھے تو وہاں رات کو زبردست روشنیاں ہوتی تھیں اور میرا یہ خواب تھا کہ کسی دن اس ایئر بیس پر میں اپنی گاڑی لے جا کر چلاؤں۔
 
’یہ مجھے ایک خواب کی طرح لگتا تھا اور اس کی تکمیل بہت مشکل نظر آتی تھی لیکن اب ایسا ہوگیا ہے۔ افغانستان میں طالبان حکومت نے بگرام ایئر بیس پر میری گاڑی کی نمائش کی اور اس کے لیے ویسے ہی مکمل روشنیاں کی گئیں جو میرا خواب تھا۔‘
 
یہ خواب کابل سے تعلق رکھنے والے ایک ایسے انجینیئر محمد رضا احمدی کا تھا جنھوں نے اس جنگ زدہ ملک میں افغانستان کی پہلی ’سُپر کار‘ تیار کی ہے۔
 
اینٹاپ نامی مقامی ڈیزائن سٹوڈیو کے سوشل میڈیا پیجز پر ان کا یہ ویڈیو پیغام موجود ہے۔ یہ کار افغانستان کے ٹیکنکل اور ووکیشنل ادارے کے تعاون سے اینٹاپ کار ڈیزائن سٹوڈیو میں تیار کی گئی ہے۔
 
محمد رضا احمدی سے ٹیلیفون پر رابطے کی کوشش کی لیکن ان کے سیکرٹری نے کہا کہ وہ جواب بعد میں دیں گے لیکن اب تک ان کی جانب سے کوئی رابطہ نہیں کیا گیا۔ ہم ان سے یہ جاننا چاہتے تھے کہ انھیں یہ سُپر کار تیار کرنے کا خیال کیسے آیا اور اس کے لیے ٹیکنالوجی اور پرزے وہ کہاں سے لائے کیونکہ افغانستان میں اب تک گاڑیاں تیار کرنے والی کوئی انڈسٹری نہیں ہے۔
 
 محمد رضا احمدی کے سیکرٹری نے ٹیلیفون پر بتایا کہ اس گاڑی کی تیاری کے لیے دس سے بارہ افراد کا ایک گروپ کام کرتا رہا ہے۔ یہ ایک پروٹوٹائپ سپورٹس کار ہے اور اس میں اطلاعات کے مطابق ٹویوٹا کا انجن استعمال کیا گیا ہے۔
 
’اب تک 40000 سے 50000 ڈالر تک خرچہ آیا ہے‘
افغانستان میں تعلیم اور ٹیکینکل ایجوکیشن کے سربراہ مولوی غلام حیدر شہامت نے بی بی سی کو افغانستان سے ٹیلیفون پر بتایا کہ اس گاڑی پر کام پانچ سال سے جاری تھا یعنی سابق دور حکومت میں اس پر کام شروع کیا گیا تھا لیکن یہ کام مکمل نہیں ہوا تھا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ یہ کار طالبان کے دورِ حکومت میں مکمل ہوئی ہے۔
 
انھوں نے کہا کہ اس سے پہلے اس پر صرف 50 فیصد کام ہوا تھا اور جب افغانستان میں امارت اسلامی کی حکومت قائم ہوئی تو کوئی اٹھ ماہ پہلے محمد رضا احمدی نے ان کے ادارے سے رابطہ کیا اور پھر اس پر مل کر کام شروع کیا گیا اور اب اس پر کافی کام مکمل ہے لیکن گاڑی کا اندورنی کام اب بھی باقی ہے یعنی انٹیریئر اب بھی مکمل نہیں ہے۔
 
انھوں نے کہا کہ اس گاڑی پر ’اب تک 40000 سے 50000 ڈالر تک خرچہ ہوچکا ہے‘ اور اس کی اندرونی ڈیزائنگ اور تکمیل پر بھی خرچہ آئے گا۔
 
ان کا کہنا تھا کہ ان کی کوشش ہوگی کہ یہ گاڑی مکمل ہو اور اس کو عالمی سطح پر نمائش کے لیے پیش کیا جائے اور یہ گاڑی افغانستان کی ترقی اور روشن مستقبل کی ضامن ہو سکے۔
 
ایسی اطلاعات ہیں کہ افغانستان میں حکام کی یہ کوشش بھی ہے کہ قطر میں اس سال ہونے والی گاڑیوں کی نمائش میں اس گاڑی کو بھی متعارف کرایا جا سکے۔
 
گاڑی کی رونمائی
اگرچہ اس گاڑی کی تصاویر اور کچھ ویڈیوز سوشل میڈیا پر گزشتہ سال نومبر میں منظر عام پر آئی تھیں لیکن افغانستان میں اس کی باقاعدہ رونمائی چند روز قبل کی گئی۔
 
امارات اسلامی افغانستان کے اقوام متحدہ میں نمائندہ کے لیے نامزد سہیل شاہین نے تین روز قبل ’افغان انجینیئر کی جانب سے بنائی گئی گاڑی کی تقریب رونمائی‘ سے متعلق ٹویٹ کے ساتھ ایک ویڈیو شیئر کی اور کہا کہ تمام اہل افغان نوجوان افغانستان کی تعمیر نو اور بحالی کے لیے اپنی تمام صلاحیتیں بروئے کار لائیں۔
 
 
افغانستان کے اطلاعات کے شعبے کے سربراہ ذبیح اللہ مجاہد نے اس کام کو سراہا ہے۔
 
 سوشل میڈیا پر بیشتر لوگوں نے اس کاوش کو سراہا ہے اور کہا ہے کہ ایسے ملک میں جہاں 40 برسوں سے جنگ جاری ہے وہاں ایسے ہنر مند موجود ہیں جو اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کر سکتے ہیں۔
 
دوسری جانب بعض ناقدین کا کہنا ہے کہ بنیادی طور پر اس گاڑی میں پرزے اور دیگر سامان مختلف گاڑیوں کی کمپنیوں کا استعمال کیا گیا ہے یا ان میں ترامیم کی گئی ہیں اور افغانستان کو کوشش کرنی چاہیے کہ وہ پرزے اور دیگر سامان بھی اپنے ملک میں تیار کرے۔
 
دوسری جانب محمد رضا محمدی اور ان کے ساتھ کمپنی اینٹاپ کے سوشل میڈیا پر گاڑی کے تیاری کے مراحل کی ویڈیوز بھی پوسٹ کی گئی ہیں کہ کیسے پرزے اور اس کی باڈی کو بنایا جا رہا ہے کیسے اس کو خوبصورت بنایا جا سکتا ہے ۔
 
Partner Content: BBC Urdu
YOU MAY ALSO LIKE: