تحریر مسز پیرآف اوگالی شریف
مصطفی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری سے قبل عورت کو کسی چیز
کی مالک بننے کا حق حاصل نہ تھا۔ عورتوں کو کوئی وارثت نہ ملتی تھی، صرف
مردوں کو وارث بننے کا حق حاصل تھا، اس پر اُن کی دلیل یہ تھی کہ وہ ہتھیار
اُٹھاتے ہیں، قبیلوں کا دفاع کرتے ہیں اور اس معاشرے میں عورتوں کو محض
میراث سے محروم کرنے پر اکتفاء نہ کیا گیا، بلکہ وہ عورت کو بھی وراثت میں
سامان کی طرح بانٹ دیتے تھے۔
حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ جب عورت کا شوہر مر جاتا تو شوہر
کے ورثاء اس عورت کے حقدار ہوتے، اگر وہ چاہتے تو ان میں سے کوئی اس سے
شادی کر لیتا تھا یا جس سے چاہتے اُسی سے اس کی شادی کرا دیتے اور چاہتے تو
نہ کراتے۔ اس طرح عورت کے سسرالی اُس کے میکے والوں سے زیادہ اس پر حق
رکھتے تھے۔
:: بخاری شریف،کتاب تفسير القرآن، باب لا يحل لکم، 4 : 1670، رقم : 4303،
کتاب الاکراه، باب من الاکراه، 6 : 2548، رقم : 6549،ابوداؤدشریف، کتاب
النکاح، باب قوله تعالي، 2 : 230، رقم : 2089،
اس پر رب مصطفی نے قرآن مجید میں آیت کریمہ نازل فرماتے ہوئے اعلان کردیا
کہ:يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ يَحِلُّ لَكُمْ أَن تَرِثُواْ
النِّسَاءَ كَرْهًا وَلاَ تَعْضُلُوهُنَّ لِتَذْهَبُواْ بِبَعْضِ مَا
آتَيْتُمُوهُنَّ.(سورت نساء، 4 : 91)
ترجمہ:اے ایمان والو! تم کو یہ بات حلال نہیں کہ عورتوں کے (مال یا جان کے)
جبراً مالک ہو جاؤ اور اس نیت سے کہ جو کچھ تم نے ان کو دیا ہے اس میں سے
کچھ لے لو، اُنہیں مت روک رکھنا۔
حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ جب کوئی شخص مر جاتا اور اُس کی
باندی ہوتی تو اس کا کوئی دوست اس باندی پر کپڑا ڈال دیتا، اب کوئی دوسرا
شخص اس باندی پر دعویٰ نہیں کر سکتا تھا یہ شخص اگر وہ باندی خوبصورت ہوتی
تو اس سے شادی کر لیتا اور اگر بد ہئیت ہوتی تو اسے اپنے پاس تاحیات روکے
رکھتا۔ایک اور روایت میں ہے کہ جب کوئی شخص مر جاتا تو اُس کے دوستوں میں
سے کوئی اُس کی عورت پر کپڑا ڈال دیتا اور اُس کے نکاح کا وارث بن جاتا، اس
کے علاوہ کوئی اس سے شادی نہ کر سکتا تھا وہ عورت اسی کے پاس محبوس رہتی
تاوقتیکہ فدیہ دے کر اپنی جان چھڑا نہ لے۔
:: تفسیر ابن کثیر،1 : 465،1 : 466،جامع البيان فی تفسير القرآن، 4 :
307،علامہ طبری،فتح الباری، 8 : 247،علامہ عسقلانی، |