شان مولا علی علیہ السلام بزبان نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

حمد وثناء اللہ کی ذات سے مخصوص ہے ہم اس پر ایمان رکھتے ہیں ، اسی پر توکل کرتے ہیں اور اسی سے مدد چاہتے ہیں ۔ہم برائی اور اپنے برے کاموں سے بچنے کے لئے اس کی پناہ چاہتے ہیں۔ وہ اللہ جس کے علاوہ کوئی دوسرا ہادی و راہنما نہیں ہے ۔اور جس نے بھی گمراہی کی طرف ہدایت کی وہ اس کے لئے نہیں تھی ۔میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے ،اور محمد اس کا بندہ اور رسول ہے۔

ہاں اے لوگو! وہ وقت قریب ہے کہ میں دعوت حق کو لبیک کہوں اور تمھارے درمیان سے چلا جاؤں تم بھی جواب دہ ہو اور میں بھی جواب دہ ہوں ۔

اس کے بعد فرمایا کہ : میرے بارے میں تمھارا کیا خیال ہے ؟کیا میں نے تم سے متعلق اپنی ذمہ داری کو پورا کر دیا ہے ؟یہ سن کر پورے مجمع نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمات کی تصدیق کی اور کہا کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے بہت کوششیں کیںاوراپنی ذمہ داری کو پوراکیا اللہ آپ کو اس کا اچھا اجر دے ۔

نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:” کیا تم گواہی دیتے ہو کہ اس پوری دنیا کامعبود ایک ہے اور محمد اس کا بندہ اور رسول ہے اور جنت وجہنم وآخرت کی جاویدانی زندگی میں کوئی شک نہیں ہے ؟ سب نے کہا کہ صحیح ہے ہم گواہی دیتے ہیں۔

اس کے بعد نبی پاک صاحب لولاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے لوگو!میں تمھارے درمیان دو اہم چیزیں چھوڑ رہا ہوں ،میں دیکھوں گا کہ تم میرے بعد میری ان دونوں یادگاروں کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہو ۔
اس وقت ایک شخص کھڑا ہوا اور بلند آواز میں سوال کیا کہ ان دو اہم چیزوں سے کیا مراد ہے؟

تو آقائے کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ: ایک اللہ کی کتاب ہے جس کا ایک سرا اللہ کی قدرت میں ہے اور دوسرا تمھارے ہاتھوں میں ،اور دوسرے میری عترت اور اہلبیت ہیں،اللہ نے مجھے خبر دی ہے کہ یہ ہرگز ایک دوسرے جدا نہ ہوں گے ۔

ہاں اے لوگوں! قرآن اور میری عترت پر سبقت نہ کرنا ،اور دونوں کے حکم کی تعمیل میں کوتاہی نہ کرنا ،ورنہ ہلاک ہو جاؤ گے ۔

اس وقت حضرت علی علیہ السلام کا ہاتھ پکڑ کر اتنا اونچا اٹھایا کہ دونوں کی بغلوں کی سفیدی سب کو نظر آنے لگی،علی(ع) سے سب لوگوں کو متعارف کرایا ۔اس کے بعد فرمایا: ” مومنین پر خود ان سے زیادہ سزوار کون ہے ۔سب نے کہا کہ اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں۔تب محبوب رب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :للہ میرا مولیٰ ہے اور میں مومنین کا مولا ہوں اور میں ان کے نفسوں پر ان سے زیادہ حق تصرف رکھتا ہوں۔ہاں اے لوگو!من کنت مولاہ فہٰذا علی مولاہ اللہم وال من والاہ،وعاد من عاداہ واحب من احبہ وابغض من ابغضہ وانصر من نصرہ وخذل من خذلہ وادر ا لحق معہ حیث دار۔جس جس کا میں مولیٰ ہوں اس اس کے یہ علی مولا ہیں ، اے اللہ اسکو دوست رکھ جو علی کو دوست رکھے اوراس کودشمن رکھ جو علی کو دشمن رکھے ،اس سے محبت کر جو علی سے محبت کرے اور اس پر غضبناک ہو جو علی پر غضبناک ہو ،اس کی مدد کرجو علی کی مدد کرے اور اس کو رسوا کر جو علی کو رسوا کر ے اور حق کو ادھر موڑ دے جدھر جدھرعلی مڑیں اوپر لکھے خطبہ کو اگر انصاف کے ساتھ دیکھا جائے تو اس میں جگہ جگہ پر حضرت علی علیہ السلام کی امامت کی دلیلیںموجو د ہیں حدیث پاک کی جاودانی:

اللہ کا یہ حکیمانہ اردہ ہے کہ غدیر کا تاریخی واقعہ ایک زندہ حقیقت کی صورت میں ہر زمانہ میں باقی رہے اور لوگوں کے دلوں کو اپنی طرف جذب کرتا رہے ،اسلامی قلمکار ہر زمانے میں تفسیر ،حدیث،کلام اور تاریخ کی کتابوںمیں اسکے بارے میں لکھتے رہیں اور مذہبی خطیب اس کو واعظ و نصیحت کی مجالس میں حضرت علی علیہ السلام کے ناقابل انکار فضائل کی صورت میں بیان کر تے رہیں۔اس حدیث کے جاودانی ہونے کی ایک علت یہ ہے کہ اس واقعہ سے متعلق دو آیتیں قرآن کریم میں موجود ہیں لہٰذا جب تک قرآن باقی رہے گا یہ تاریخی واقعہ بھی زندہ رہے گا ۔ تاریخ کے مطالعہ سے ایک بڑی دلچسپ بات سامنے آتی ہے اور وہ یہ کہ اٹھارویں ذی الحجة الحرام مسلمانوں کے درمیان روز عید غدیر کے نام سے مشہور تھی یہاں تک کہ ابن خلکان ، المستعلی بن المستنصرکے بارے میں کہتا ہے کہ ۴۸۷ ئھ میں عید غدیر خم کے دن جو کہ اٹھارہ ذی الحجة الحرام ہے لوگوں نے اس کی بیعت کی اور المستنصر باللہ کے بارے میںلکھتا ہے کہ ۴۸۷ ئھ میں جب ذی الحجہ ماہ کی آخری بارہ راتیں باقی رہ گئیںتو وہ اس دنیا سے گیا اور جس رات میں وہ دنیا سے گیا ماہ ذی الحجہ کی اٹھارویں شب تھی جو کہ شب عید غدیر ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ابوریحان بیرونی نے اپنی کتاب ا لآثار الباقیہ میں عید غدیر کو ان عیدوں میں شما رکیا ہے جن کا تمام مسلمان اہتمام کرتے تھے اور خوشیاں مناتے تھے -

صرف ابن خلقان اور ابوریحان بیرونی نے ہی اس دن کو عید کا دن نہیں کہا ہے بلکہ اہل سنت کے مشہور ومعروف عالم ثعلبی نے بھی شب غدیر کو امت مسلمہ کے درمیان مشہور شبوں میں شمار کیا ہے ۔اس اسلامی عید کی بنیاد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں ہی پڑگئی تھی کیونکہ آپ نے اس دن تمام مہاجر ،انصار اور اپنی ازواج کو حکم دیا کہ علی علیہ السلام کے پاس جاؤاور امامت و ولایت کے سلسلہ میں ان کو مبارکباد دو ۔

زید ابن ارقم کہتے ہیں کہ : ابوبکر ،عمر،عثمان،طلحہ وزبیر مہاجرین میں سے وہ افراد تھے جنھوں نے سب سے پہلے حضرت علی علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کی اور مبارکباد پیش کی۔بیعت اور مبارکبادی کیا یہ سلسلہ مغرب تک چلتا رہا-

اس حدیث پاک کوایک سو دس راویوں نے بیان کیا ہے :
اس تاریخی واقعہ کی اہمیت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ اس کو پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک سو دس اصحاب نے نقل کیا ہے۔

البتہ اس جملہ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ صحابہ کے اتنے بڑے گروہ میں سے صرف انھیں اصحاب نے اس واقعہ کو بیان کیا ہے، بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ اہل سنت کے علماء نے جو کتابیں لکھی ہیں ان میں صرف انھیں ایک سو دس افراد کا ذکر ملتا ہے ۔

دوسر صدی میں کہ جس کو تابعان کا دور کہا گیا ہے ان میں سے ۸۹ افراد نے اس حدیث کو نقل کیا ہے ۔

بعد کی صدیوںمیں بھی اہل سنت کے تین سو ساٹھ علماء نے اس حدیث کو اپنی کتابوں میں بیان کیا ہے اور علماء کی ایک بڑی تعداد نے اس حدیث کی سند اور صحت کو صحیح تسلیم کیا ہے ۔اس گروہ نے نہ صرف یہ کہ اس حدیث کو بیان کیاا بلکہ اس حدیث کی سند اور افادیت کے بارے میں مستقل طور کتابیں بھی لکھی ہیں۔عجیب بات یہ ہے کہ عالم اسلام کے سب سے بڑپ مورخ طبری نے ” الولایت فی طرقِ حدیث الغدیر“ نامی کتاب لکھی اور اس حدیث کو ۷۵ طریقوں سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کیا ۔

ابوبکر محمد بن عمر بغدادی جو کہ جمعانی کے نام سے مشہور ہے ا نھوں نے اس حدیث کو ۲۵ طریقوں سے بیان کیا ہے ۔

حدیث اورمشہورعلما ء اہل سنت :
احمد بن حنبل شیبانی،ابن حجر عسقلانی،جزری شافعی،ابوسعید سجستانی،امیر محمد یمنی،نسائی،ابو الاعلاء ہمدانی،ابو العرفان حبان نے اس حدیث کو بہت سی سندوں کے ساتھ نقل کیا ہے ۔بہرحال نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امیر المومنین علی علیہ السلام کو اپناجانشین بنانے کے بعد فرمایا:” اے لوگو! ابھی ابھی جبرئیل امین یہ آیت لے کر نازل ہوئے <الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دیناً> آج میں نے تمھارے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمتوں کوبھی تمام کیا اور تمھارے لئے دین اسلام کو پسند کیا ۔

اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تکبیر کہی اور فرمایا :” اللہ کاشکرادا کرتا ہوں کہ اس نے اپنے آئین اور نعمتوں کو پورا کیا اور میرے بعد علی علیہ السلام کی وصایت و جانشینی سے خوشنود ہوا ۔ اس کے بعد خاتم النبین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بلندی سے نیچے تشریف لائے اور حضرت علی علیہ السلام سے فرمایاکہ:جاؤ خیمے میں جاکر بیٹھو، تاکہ اسلام کی بزرگ شخصیتیں اور سردار آپ کی بیعت کر کے مبارکباد پیش کریں۔سب سے پہلے شیخین (ابوبکر و عمر) نے علی علیہ السلام کو مبارکباد پیش کی اور ان کو اپنا مولا تسلیم کیا ۔حضرت حسان بن ثابت نے موقع سے فائدہ اٹھایا اور آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اجازت سے ایک قصیدہ کہہ کر اس کوپڑھا ،یہاں پر اس قصیدے کے صرف دواہم اشعا ر بیان کررہے ہیں :
فقال لہ قم یا علی فاننی
فانی رضیتک من بعدی اماما ً وہادیاً
فمن کنت مولاہ فہٰذا ولیہ
فکونو لہ اتباع صدق موالیا
یعنی علی علیہ السلام سے فرمایا :” اٹھو میں نے آپ کو اپنی جانشینی اور اپنے بعد لوگوں کی امامت و راہنمائی کے لئے منتخب کرلیا ۔“
جس جس کا میں مولا ہوں اس اس کے علی مولا ہیں۔
تم ،کہ ان کو دل سے دوست رکھتے ہو ،بس ان کی پیروی کرو۔

یہ حدیث علی علیہ السلام کی تمام صحابہ پرفضیلت اور برتری کے لئے سب سے بڑی دلیل ہے ۔

ہاں تک کہ امیر المومنین علیہ السلام نے مجلس شورائے خلافت میں (جو کہ دوسرے خلیفہ کے مرنے کے بعد منعقد ہوئی) اور عثمان کی خلافت کے زمانہ میں اور اپنی خلافت کے دوران بھی اس پر احتجاج کیا ۔

اس کے علاوہ حضرت زہراء سلام اللہ علیہا جیسی عظیم شخصیتوں نے حضرت علی علیہ السلام کی والا مقامی سے انکار کرنے والوں کے سامنے اسی حدیث سے استدلال کیا۔
پیرآف اوگالی شریف
About the Author: پیرآف اوگالی شریف Read More Articles by پیرآف اوگالی شریف: 832 Articles with 1381752 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.