سی سیکشن طبی ضرورت یا ’کمائی‘ کا ذریعہ: ڈاکٹر سی سیکشن سے بچنے کا کیا طریقہ بتاتے ہیں؟

image
 
’ڈاکٹر نے مجھے کہا کہ اب تو آپ کو آپریٹ ہی کروانا پڑے گا۔ مگر ناصرف میرا بلکہ میرے شوہر کا بھی یہی خیال تھا کہ ہمیں تھوڑا انتظار اور کرنا چاہیے۔ ڈاکٹر کی تجویز کے مخالف جاتے ہوئے ہم نے انتظار کا فیصلہ کیا اور اسی روز میری نارمل ڈیلیوری ہو گئی۔‘
 
اسلام آباد کی رہائشی سائرہ حفیظ مزید بتاتی ہیں ناصرف پہلے بچے کی پیدائش بلکہ ان کی دوسری زچگی کے دوران بھی یہی کچھ ہوا۔ ’میں ہسپتال گئی اور داخل ہو گئی مگر نارمل ڈیلیوری نہیں ہو رہی تھی۔ اگلے روز ڈاکٹر میرے پاس آئیں اور بتایا کہ ہم آپ کو لیبر روم لے کر جا رہے ہیں اور آپ کی ڈیلیوری کروا دیں جو کہ نارمل ہونے کے چانس نہیں ہیں۔ مجھے دوبارہ وہاں پر سٹینڈ لینا پڑا کہ مجھے نارمل ڈیلیوری کروانی ہے۔‘
 
’میں نے ڈاکٹر کی تجویز کی مخالفت اس لیے کی تھی کیونکہ میں نے اس پر ریسرچ کر رکھی تھی۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر آپ نارمل ڈیلوری کی طرف جاتے ہیں تو خرچہ ایک لاکھ تک ہوتا ہے مگر اگر سی سیکشن کی طرف جاتے ہیں تو خرچہ بڑھ کر ڈھائی سے چار لاکھ تک ہو سکتا ہے۔ میرا تجربہ یہ ہے کہ پریگنینسی کے دوران ہی ڈاکٹر لڑکیوں کے دماغ میں یہ بات بٹھا دیتے ہیں کہ سی سیکشن بچہ پیدا کرنے کا آسان طریقہ ہے۔‘
 
دنیا میں صدیوں تک بچوں کی پیدائش اکثر گھروں میں ہوا کرتی تھی۔ میڈیکل سائنس کی ترقی اور سی سیکشن سے جہاں ایک طرف ہر سال لاکھوں خواتین اور اُن کے بچوں کی جانیں بچائی جاتی ہیں وہیں اس کے غیر ضروری استعمال میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
 
image
 
انڈیا اور پاکستان دونوں ملکوں میں سی سیکشن سے پیدا ہونے والے بچوں کی تعداد میں مسلسل اور بہت زیادہ اضافہ ہو رہا ہے اور خاص طور پر پرائویٹ ہسپتالوں میں اس کی شرح زیادہ ہے۔
 
انڈیا سے تعلق رکھنے والی نبیلہ بتاتی ہیں کہ ’وہ میری پہلی دفعہ تھی اور بہت سی نئی ماؤں کی طرح مجھے معلوم نہیں تھا کہ کیا چل رہا ہے۔ جب ڈاکٹر نے مجھے کچھ پیچیدگیوں کے بارے میں بتایا تو میں نے اُن کو گوگل بھی کیا اور لوگوں سے بھی بات کی، مگر چونکہ جیسا ہوتا ہے عین وقت پر کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔‘
 
’ذہن میں ایک ڈر تھا کہ کچھ غلط ہو گیا تو کیا ہو گا۔ جب آپ نو ماہ کا سفر کر کے آ رہے ہوتے ہیں تو دماغ میں یہی ہوتا ہے کہ کوئی چانس نہیں لینا۔ ڈاکٹر بھی آپ کو تجویز کر رہے ہوتے ہیں کہ سی سیکشن کی صورت میں ڈیلیوری کے لیے آپ اپنی پسند کا ٹائم سلیکٹ کر سکتی ہیں، دن سلیکٹ کر سکتی ہیں وغیرہ۔‘
 
نبیلہ کا پہلا بچہ بھی سی سیکشن سے ہوا۔
 
image
 
تاہم ڈاکٹرز کے حوالے سے ہر خاتون کا تجربہ ایک سا نہیں ہوتا مثلاً دہلی میں ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں کام کرنے والے تین سالہ بچے کی ماں، جنہوں نے اپنا نام ظاہر نہیں کیا، بتاتی ہیں کہ وہ سیزیریئن سیکشن سرجری کے لیے پوری طرح سے تیار تھیں لیکن ان کے ڈاکٹر نے انھیں نارمل ڈیلیوری کا مشورہ دیا۔
 
وہ بتاتی ہیں کہ ’ایک پروفیشنل عورت کے طور پر میں نے سوچا تھا کہ میں ڈیلیوری کے دوران درد اور دیگر پیچیدگیوں سے بچنے کے لیے سی سیکشن سرجری کو ترجیح دوں گی۔ لیکن میرے ڈاکٹر نے مجھے سمجھایا کہ اگر طبی طور پر ضرورت نہ ہو تو سی سیکشن درحقیقت مجھے یا میرے بچے کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔‘
 
انھوں نے دوستوں سے سنا تھا کہ ڈاکٹر سیزیریئن سیکشن سرجری کو ترجیح دیتے ہیں لیکن جب ان کے ڈاکٹر نے نارمل ڈلیوری کے فوائد اور نقصانات کی وضاحت کی تو نارمل ڈیلیوری کے لیے ان کی حوصلہ افزائی ہوئی۔
 
سی سیکشن کے ذریعے بچے کی پیدائش کے رجحان میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟
 
image
 
سی سیکشن کے ذریعے بچہ پیدا کرنے کے واقعات میں دنیا بھر میں اضافہ ہو رہا ہے، خاص طور پر پاکستان اور انڈیا میں۔
 
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق دنیا بھر میں سی سیکشن سرجری کی شرح سنہ 1990 میں تقریباً سات فیصد تھی جو 2021 میں بڑھ کر 21 فیصد ہو گئی ہے اور اس رجحان میں اضافہ جاری ہے۔
 
پاکستان اور انڈیا میں سرکاری صحت کے اداروں کے مقابلے نجی اداروں میں سی سیکشن کرنے کی شرح زیادہ ہے۔
 
پاکستان میں انسٹیٹیوٹ آف ڈیویلپمنٹ اکنامکس کے اعداد و شمار کے مطابق ملک بھر میں سی سیکشن کے ذریعے بچوں کے پیدائش کی شرح لگ بھگ 22 فیصد ہے یعنی ہر 100 میں سے 22 بچے آپریشن کے ذریعے پیدا ہو رہے ہیں۔ جبکہ پرائیوٹ ہسپتالوں میں سی سیکشن کے ذریعے پیدائش کی شرح 28 فیصد تک ہے۔ یاد رہے کہ 2013 میں یہ شرح صرف 14 فیصد تھی۔
 
اگر انڈیا کے اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو وہاں 21.5 فیصد بچے سی سیکشن کے ذریعے پیدا ہو رہے ہیں۔ 2016 میں انڈیا میں یہی شرح 17.2 فیصد تھی۔ جبکہ انڈیا کے پرائیوٹ ہسپتالوں میں سی سیکشن کی شرح لگ بھگ 48 فیصد ہے۔
 
عالمی ادارہ صحت کے مطابق سی سیکشن کے ذریعے بچے کی پیدائش کی قابل قبول شرح 10 فیصد تک ہونی چاہیے۔
 
دنیا بھر میں ’نارمل ڈیلیوری‘ کو ماں اور بچے دونوں کی صحت اور زندگی کے لیے بہتر سمجھا جاتا ہے اور ماہرین مشورہ دیتے ہیں کہ سی سیکشن سرجری صرف طبی وجوہات کی بنا پر کی جانی چاہیے خاص طور پر جب ’نارمل ڈیلیوری‘ سے ماں اور بچے کے لیے خطرات لاحق ہوں۔
 
image
 
انڈیا میں نارمل ڈیلیوری کی حامی ڈاکٹر نوتن پنڈت کہتی ہیں کہ آج کل ’ہر کوئی ڈیلیوری کی متوقع تاریخ کو پیدائش کی تاریخ کے طور پر لے رہا ہے۔ جبکہ یہ ایک متوقع تاریخ ہے اور اسی لیے اسے پیدائش کی متوقع تاریخ کہا جاتا ہے۔‘
 
وہ کہتی ہیں کہ ’لیکن جب بچہ اس دن، یا اس دن سے پہلے نہیں پیدا ہوتا ہے تب لوگ ’اینڈیوسڈ لیبر‘ یعنی غیر قدرتی طریقے سے لیبر کروا دیتے ہیں۔ بچے کو اپنے آپ پیدا ہونے دینا چاہیے۔‘
 
انڈیا کے ایک ہستال میں گائناکالوجی کی سینیئر کنسلٹنٹ ڈاکٹر رینو جین سیزیریئن سیکشن کے ذریعے ڈیلیوری میں اضافے کے تین اہم وجوہات کی نشاندہی کرتی ہیں: ماں کو نارمل ڈیلیوری میں درد کا خوف، ماں کی دوسری ڈیلیوری میں سیزیریئن سیکشن کے زیادہ امکانات کیونکہ پہلی ڈیلیوری سیزیریئن سیکشن تھی، تیسرا اور طرز زندگی میں تبدیلیاں جیسے کہ عام عمل و حرکت میں کمی یا غیر صحت بخش کھانے کے عادات۔
 
وہ کہتی ہیں کہ ’کھانے کی بُری عادات سے حمل میں وزن بڑھنے کے زیادہ امکانات ہوتے ہیں۔ ایسی خواتین کا خود سے ’لیبر‘ میں جانے کے امکان کم ہوتے ہیں جسکی وجہ سے ان میں طبی طور پر ’لیبر‘ کرانا پڑتا ہے۔‘
 
وہ کہتی ہیں ’اور سائنسی اعداد و شمار کے مطابق اس طرح کے لیبر میں نارمل لیبر کے مقابلے میں سیزیریئن سیکشن کے واقعے زیادہ ہوتے ہیں‘۔
 
وہ ایشیائی ممالک میں ایک اور عام وجہ کی نشاندہی کرتی ہیں اور کہتی ہیں کہ ’حمل کے دوران ہوئی ذیابیطس بچے کے جسامت کو بڑھاتی ہے جس سے نارمل ڈیلیوری کے امکانات کم ہوتے ہیں اور اس سے سیزیریئن سیکشن سرجری کی شرح میں اضافہ ہوتا ہے۔‘
 
حال میں پیشہ ورانہ وجوہات کی بنا پر بھی حمل میں تاخیر کرنے والی خواتین بچے کی پیدائش کے دوران ہونے والی پیچیدگیوں سے بچنے کے لیے سیزیریئن سیکشن سرجری کو ترجیح دیتی ہیں۔
 
ڈاکٹر نوتن کہتی ہیں کہ نارمل حالات میں ’بہت جلدی ہسپتال جانا بھی سیزیریئن کا باعث بن سکتا ہے۔ جب آپ لیبر کی پوری طرح سے شروعات کا انتظار نہیں کرتے ہیں تو پھر سیزریئن کا مواقع بڑھ جاتے ہیں۔ ہسپتال کا پروٹوکول یہ ہے کہ ہسپتال آنے کے 24 گھنٹوں کے اندر عورت کی ڈیلیوری کرا دی جائے‘۔
 
انھوں نے کہا کہ ’جب لیبر کنٹریکشن میں 5، 10 منٹ کا فاصلہ ہو تب ماں کو ہسپتال جانا چاہیے۔‘
 
سییزریئن سیکشن سرجری کو کیسے کم کیا جائے؟
 
image
 
انگلینڈ میں مقیم ڈاکٹر سعدیہ خان کہتی ہیں کہ ’ڈاکٹر جانتے ہیں کہ اس میں کم وقت لگے گا۔ اس میں ان کا ذاتی مالی فائدہ بھی ہوتا ہے۔‘
 
وہ کہتی ہیں ’جو ہماری بیسٹ پریکٹس ہے وہ یہ ہے کہ ہم جہاں کوشش ہو نارمل ڈیلیوری کی طرف رجحان بڑھائیں۔ اور خواتین کو اس کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات فراہم کریں کہ کیوں سی سیکشن سے بہتر طریقہ نارمل ڈیلیوری ہے۔‘
 
وہ مزید کہتی ہیں ’مریض کو یہ معلوم نہیں ہوتا ہے کہ انھیں سیزیریئن کی ضرورت ہے یا نارمل ڈیلیوری سے بھی بچے کی پیدائش ہو سکتی ہے۔ انکو یہ بتانا بہت ضروری ہے کہ سیزیرئین کے چند اہم نشانیاں ہیں۔ ہر معاملے میں سیزیریئن نہیں کیا جاتا، یہ نارمل پریکٹیس نہیں ہے‘۔
 
ترقی یافتہ ممالک میں سیزیریئن سیکشن سرجری کی شرح کو کم کرنے کی کوششیں بہت حد تک ناکام رہی ہیں لیکن چند اقدامات ایسے ہیں جس سے آہستہ آہستہ اس رجحان میں کمی لائی جا سکتی ہے۔
 
ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ مثال کے طور پر ماں کی بہتر ’کاونسیلینگ‘ کافی مددگار ہو سکتی ہے۔
 
ڈاکٹر جین کہتی ہیں کہ ’میں عام طور پر دیکھتی ہوں کہ میرے پاس جب جوڑے آتے ہیں تو ماں ڈری ہوتی ہے کہ اس سے نارمل ڈیلیوری نہیں ہو پائیگی۔ ان میں خود اعتماد کی کمی نظر آتی ہے۔‘
 
image
 
ڈاکٹر رینو جین کہتی ہیں ’سیزیریئن سیکشن سرجری میں اضافہ ہونے کے کچھ وجوہات کو ہم روک سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر خاتون کو پر اعتمادی فراہم کرنا۔ ڈیلیوری اور لیبر پر ماں کی پہلے ہی کونسیلنگ کریں، انھیں سمجھائیں کہ لیبر کا عمل کیا اور کیسے ہوتا ہے، وہ اس کے دوران وہ کیا توقع کر سکتی ہیں، لیبر میں ہونے والے درد سے نجات کے لیے ہم کیا کر سکتے ہیں‘۔
 
وہ کہتی ہیں، ’میرے تجربے میں اگر 100 عورتیں سیزیریئن سیکشن سرجری کے لیے آتی ہیں تو مناسب کاؤنسیلینگ کے بعد ان میں سے 60-70 فیصد نارمل لیبر میں جانے کے لیے تیار ہو جاتی ہیں‘۔
 
عام طور پر ہنر مند ڈاکٹر سیزیریئن سیکشن سرجری کی تجویز اس وقت کرتے ہیں جب نارمل ڈیلیوری میں طبی طور پر ماں یا بچے کو خطرے کے امکانات ہوتے ہیں۔ لیکن جب طبی وجوہات کی بناء پر اس کی ضرورت نہ ہو تب، ڈبلیو ایچ او کے مطابق، اگر ڈاکٹر اور حاملہ خواتین کچھ بنیادی باتوں کو ذہن میں رکھیں تو سیزیریئن سیکشن سرجری کے غیر ضروری واقعات کو کم کیا جا سکتا ہے۔
 
ڈبلیو ایچ او کا یہ بھی کہنا ہے کہ سیزیریئن سیکشن کو کم کرنے کے لیے چند ممالک نے کچھ اقدامات اٹھائیں ہیں لیکن اس کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
 
Partner Content: BBC Urdu

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

YOU MAY ALSO LIKE: