میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں کو میرا آداب
آج ایک بار پھر ایک سچی حکایت لیکر حاضر خدمت ہوا ہوں یہ حکایت بھی بہت
مشہور و معروف حکایت ہے جن لوگوں نے سنی یا پڑھی ہوئی ہے ان کے لئے ایمان
کی تازگی کا سبب بنے گی اور جن لوگوں نے نہیں سنی یا پڑھی ان کے لئے ایک
اچھی اور سچی حکایت پڑھنے کی سعادت حاصل ہوگی کتاب المستظرف ، حجتہ اللہ
علی العلمین اور تاریخ ابن عساکر میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ والیہ وسلم
کی آمد کے ایک ہزار سال پہلے یمن کا ایک بادشاہ تھا جس کا نام تبع اول
حمیری تھا ایک دفعہ وہ سلطنت کے دورہ پر نکلا بارہ ہزار عالم و حکیم ، ایک
لاکھ بتیس ہزار سوار اور ایک لاکھ تیرہ ہزار پیادے اپنے ہمراہ لیئے ایک
شاہی شان و شوکت کے ساتھ اس طرح نکلا کہ جہاں بھی پہنچتا اس کی شاہی سواری
دیکھکر لوگ گھروں سے باہر نکل آتے اور اس نظارے کو دیکھنے کی غرض سے جمع
ہوجاتے یہ قافلہ دورہ کرتے ہوئے جب مکہ معظمہ پہنچا تو اہل مکہ میں سے کوئی
اسے دیکھنے یا اس کا استقبال کرنے نہیں آیا بادشاہ بڑا حیران ہوا اور اپنے
وزیر اعظم سے اس کی وجہ پوچھی تو اس نے عرض کیا کہ عالی جاہ اس شہر میں ایک
گھر ہے جسے لوگ بیت اللہ یعنی اللہ کا گھر کہتے ہیں اس گھر اور اس کے
خادموں کی یہاں کے رہنے والے باشندے بہت عزت اور احترام کرتے ہیں جتنا آپ
کا لشکر ہے اس سے بھی زیادہ لوگ دور دراز سے اس کی زیارت کے لیئے آتے ہیں
اور یہاں کی زیارت کے ساتھ ان خدام کی خدمت کرکے واپس چلے جاتے ہیں لہذہ ان
کے خیال میں تمہارا یہ لشکر کیوں کر آئے گا ۔
میرے محترم پڑھنے والوں یہ سن کر اس بادشاہ کو بہت غصہ آیا اور اس نے کہا
کہ میں قسم کھاتا ہوں کہ میں اس گھر کو کھدوا دو گا اور یہاں کے باشندوں کو
قتل کروادوں گا یہ کہنا تھا کہ بادشاہ کے منہ ، ناک اور آنکھوں سے خون بہنا
شروع ہوگیا اور اتنا بدبودار معدہ نکلنے لگا کہ کسی کو اس کے پاس بیٹھنے کی
طاقت نہ رہی اس مزض کا علاج بھی کیا گیا لیکن کوئی خاطر خواہ افاقہ نہ ہوا
شام کے وقت بادشاہ کے ہمراہی علماء میں سے ایک عالم ربانی تشریف لائے اور
نبض دیکھکر فرمایا کہ مرض آسمانی ہے اور علاج زمین کا ہورہا ہے اے بادشاہ
اگر کسی معاملے میں کوئی بری نیت کی ہے تو توبہ کرلیجیئے بادشاہ نے بیت
اللہ شریف اور خدام کعبہ کے بارے میں جو کچھ کہا تھا اس سے توبہ کرلی توبہ
کرتے ہی وہ خون بہنا بند ہوگیا پھر اس نے صحت کی خوشی میں بیت اللہ شریف کو
ریشمی غلاف چڑھایا اور ہر باشندے کو سات سات اشرفی اور ریشمی جوڑے نذر کیئے
۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں پھر وہ جب یہاں سے ہوتا ہوا مدینہ منورہ
پہنچا تو ہمراہی علماء نے وہاں کی مٹی کو سونگھا اور کنکریوں کو دیکھا اور
نبی آخر الزماں کے ہجرت گاہ کی جو علامتیں انہوں نے پڑھی تھیں اس کے مطابق
اس سرزمین کو پایا اور یہ عہد کیا کہ اب ہم یہیں رہیں گے یہیں مرجائیں گے
لیکن یہ سرزمین اب نہیں چھوڑیں گے اگر قسمت نے یاوری کی اور حضور صلی اللہ
ولیہ والیہ وسلم ہماری موجودگی میں تشریف لے آئے تو ہمیں بھی زیارت کا شرف
حاصل ہوجائے گا ورنہ ہماری قبروں پر تو ضرور کبھی نہ کبھی ان کی جوتیوں کی
خاک اڑکر پڑجائے گی جو ہماری نجات کے لئے کافی ہے۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں ان عالموں کی بات سن کر بادشاہ نے ان کے
لئے چارسو مکانات تعمیر کروائے اور سب سے بڑے علم ربانی کے گھر کے پاس ایک
دو منزلہ عمدہ مکان تیار کروایا اور وصیت کی کہ جب بھی حضور صلی اللہ علیہ
والیہ وسلم یہاں تشریف لائیں گے یہ مکان ان کی آرام گاہ ہوگی ان چار سو
علماء کی مالی امداد بھی کی اور کہا کہ آپ سب لوگ یہیں رہیں اور اس بڑے
عالم ربانی کو ایک خط لکھکر دیا اور کہا کہ یہ خط حضور صلی اللہ علیہ والیہ
وسلم تک پہنچنا چاہیئے اگر آپ کو یہ شرف حاصل نہ ہو تو آپ یہ خط اپنی آگے
والی نسل کو منتقل کردینا اور کہنا کہ اسے محفوظ رکھے یوں ہوتے ہوتے یہ خط
سرکار صلی اللہ علیہ والیہ وسلم تک پہنچنا چاہیئے یہ کہکر بادشاہ وہاں سے
چلا گیا وہ خط ایک ہزار سال کے بعد سرکار صلی اللہ علیہ والیہ وسلم کو ملا
کیسے اور اس خط کا مضمون کیا تھا ۔
ترجمہ! " کمترین مخلوق تبع اول حمیری کی طرف سے سید المزنبین سید المرسلین
صلی اللہ علیہ والیہ وسلم اے اللہ تبارک وتعالی کے حبیب میں آپ صلی اللہ
علیہ والیہ وسلم پر ایمان لاتا ہوں اور جو کتاب آپ صلی اللہ علیہ والیہ
وسلم پر نازل ہوگی اس پر بھی ایمان لاتا ہوں اور میں آپ صلی اللہ علیہ
والیہ وسلم کے دین پر ہوں پس اگر مجھے آپ صلی اللہ علیہ والیہ وسلم کی
زیارت کا شرف حاصل ہوسکا تو بہت اچھا وغنیمت اور اگر میں زیارت نہ کرسکا گو
میری شفاعت فرمایئے گا اور بروز قیامت فراموش نہ کیجیئے گا میں آپ صلی اللہ
علیہ والیہ وسلم کی پہلی امت میں سے ہوں اور آپ صلی اللہ علیہ والیہ وسلم
کی آمد سے پہلے ہی بیعت کرتا ہوں میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تبارک وتعالی
ایک ہے اور آپ صلی اللہ علیہ والیہ وسلم اس کے سچے اور آخری نبی ہیں "
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں شاہ یمن کا یہ خط ان چارسو علماء کی نسل
در نسل منتقل ہوتا گیا اور بڑی حفاظت کے ساتھ اسے محفوظ رکھا ایک ہزار سال
میں ان علماء کی نسل بڑھتی گئی یہاں تک کہ مدینہ منورہ کی آبادی میں کئی
گناہ اضافہ ہوگیا یہ خط دست بدست مع وصیت بڑے عالم ربانی کی اولاد میں سے
حضرت ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا اور آپ رضی اللہ عنہ نے اسے
اپنے غلام خاص ابو لیلی کی تحویل میں رکھا اور جب آپ صلی اللہ علیہ والیہ
وسلم مکہ معظمہ سے حجرت کرکے مدینہ شریف تشریف لائے اور مدینہ منورہ کی
الوداعی گھاٹی ثنیات کی گھاٹیوں سے آپ صلی اللہ علیہ والیہ وسلم کی اونٹنی
نمودار ہوئی اور مدینہ کے خوش نصیب لوگ محبوب خدا کا استقبال کرنے کے لئے
جوق درجوق آرہے تھے کوئی اپنے مکان کو سجا رہا تھا کوئی گلیوں اور سڑکوں کو
صاف کررہا تھا تو کوئی دعوت کا انتظام کررہا تھا سب کی خواہش یہ تھی کہ
حضور صلی اللہ علیہ والیہ وسلم میرے یہاں تشریف لائیں جب حضور صلی اللہ
علیہ والیہ وسلم نے یہ منظر دیکھا تو فرمایا کہ میری اونٹنی کی نکیل چھوڑ
دو یہ جس گھر کے پاس ٹھرے گی اور بیٹھ جائے گی میرا قیام وہیں ہوگا اب جو
دو منزلہ مکان بادشاہ یمن نے حضور صلی اللہ علیہ والیہ وسلم کے لئے بنوایا
تھا وہ اس وقت حضرت ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی تحویل میں تھا حضور صلی
اللہ علیہ والیہ وسلم کی اونٹنی وہیں جاکر رک گئی لوگوں نے ابولیلی کو
بھیجا کہ جائو حضور صلی اللہ علیہ والیہ وسلم کو شاہ یمن کا خط دے دو جب وہ
آیا تو آپ صلی اللہ علیہ والیہ وسلم نے فرمایا کہ تم ابولیلی ہو ؟تو وہ
حیران ہوگیا آپ صلی اللہ علیہ والیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے پاس جو شاہ
یمن کا خط ہے وہ مجھے دو چنانچہ اس نے وہ خط آپ صلی اللہ علیہ والیہ وسلم
کو دے دیا آپ صلی اللہ علیہ والیہ وسلم نے خط پڑھا اور فرمایا تبع کو افرین
اور شاباش ۔ (میزان الادیان 171 )
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں اس سچی حکایت سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ
حضور صلی اللہ علیہ والیہ وسلم کا ہر زمانے میں چرچا رہا اور خوش قسمت
لوگوں نے ہر دور میں ان سے فیض پایا وہ تمام اگلی پچھلی باتوں کو جانتے ہیں
اور یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ حضور کی آمد کی خوشی پر گھروں کو سجانا گلیوں کو
صاف کرنا اور حضور زلی اللہ علیہ والیہ وسلم کی آمد پر خوشیاں منانا صحابہ
کرام کی سنت ہے اور وہ جگہیں اور وہ لوگ جو اللہ تبارک وتعالی اور اس کے
حبیب صلی اللہ علیہ والیہ وسلم کے محبوب
ہیں ان کے بارے میں گستاخی کرنے اور غلط بات کرنے سے اللہ تبارک وتعالی کا
ان پر عذاب مسلط ہوجاتا ہے ۔
اللہ تبارک وتعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنے مقدس مقامات کی تعظیم کرنے
اور اپنے حبیب کریم صلی اللہ علیہ والیہ وسلم آمد پر خوشیاں منانے کی خوب
خوب توفیق عطا فرمائے مجھے حق بات لکھنے اوت ہم سب کو اس پر عمل کرنے کی
توفیق عطا فرمائے ۔
آمین امین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم۔
|