دین محمدی اور عورتوں کے حقوق

تحریر مسز پیرآف اوگالی شریف

دین محمدی نے عورت کو حق عصمت عطا کیا اور مردوں کو بھی پابند کیا کہ وہ اس کے حق عصمت کی حفاظت کریں معاشرے میں عورت کی عزت و احترام کو یقینی بنانے کے لیے اس کے حق عصمت کا تحفظ ضروری ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
؛ قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ذَلِكَ أَزْكَى لَهُمْ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَO( سورت نور 24 : 30)
ترجمہ از عرفان القرآن : اے رسول مکرم!) مومنوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔ یہ ان کے لیے پاکیزگی کا موجب ہے۔ اللہ اس سے واقف ہے، جو کچھ وہ کرتے ہیںo

اس کے بعد خواتین کو حکم ہوتا ہے : وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَاO(سورت نور 24 : 31)
ترجمہ از عرفان القرآن: ’اور (اے رسول مکرم!) مومنہ عورتوں سے کہہ دو کہ (مردوں کے سامنے آنے پر) وہ اپنی نظریں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی زینت و آرائش کی نمائش نہ کریں سوائے جسم کے اس حصہ کو جو اس میں کھلا ہی رہتا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِيَسْتَأْذِنكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ وَالَّذِينَ لَمْ يَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنكُمْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ مِن قَبْلِ صَلَاةِ الْفَجْرِ وَحِينَ تَضَعُونَ ثِيَابَكُم مِّنَ الظَّهِيرَةِ وَمِن بَعْدِ صَلَاةِ الْعِشَاءِ ثَلَاثُ عَوْرَاتٍ لَّكُمْ لَيْسَ عَلَيْكُمْ وَلَا عَلَيْهِمْ جُنَاحٌ بَعْدَهُنَّ طَوَّافُونَ عَلَيْكُم بَعْضُكُمْ عَلَى بَعْضٍ كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآيَاتِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌO(سورت نور 24 : 58)
ترجمہ از عرفان القرآن :’اے ایمان والو! چاہیے کہ تمہارے زیردست (غلام اور باندیاں) اور تمہارے ہی وہ بچے جو (ابھی) جوان نہیں ہوئے (تمہارے پاس آنے کے لئے) تین مواقع پر تم سے اجازت لیا کریں : (ایک) نمازِ فجر سے پہلے، اور (دوسرے) دوپہر کے وقت جب تم (آرام کے لئے) کپڑے اتارتے ہو اور (تیسرے) نمازِ عشاء کے بعد (جب تم خواب گاہوں میں چلے جاتے ہو)، (یہ) تین (وقت) تمہارے پردے کے ہیں، ان (اوقات) کے علاوہ نہ تم پر کوئی گناہ ہے اور نہ ان پر (کیونکہ بقیہ اوقات میں وہ) تمہارے ہاں کثرت کے ساتھ ایک دوسرے کے پاس آتے جاتے رہتے ہیں، اِسی طرح اللہ تمہارے لئے آیتیں واضح فرماتا ہے، اور اللہ خوب جاننے والا حکمت والا ہےo

دین محمدی میں عفت کو یقینی بنایا گیا ہے ایک بار دور صدیقی میں ایک شخص حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں آیا اور عرض کیا کہ میرے ایک مہمان نے میری ہمشیرہ کی آبروریزی کی ہے اور اسے اس پر مجبور کیا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس شخص سے پوچھا اس نے جرم کا اعتراف کرلیا۔ اس پر آپ نے حد زنا جاری کرکے اسے ایک سال کے لئے فدک کی طرف جلا وطن کردیا۔ لیکن اس عورت کو نہ تو کوڑے لگائے اور نہ ہی جلا وطن کیا کیونکہ اسے اس فعل پر مجبور کیا گیا تھا۔ بعد میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس خاتون کی شادی اسی مرد سے کردی۔(کنز العمال، 5 : 411)

اسی طرح کا دور فاروقی کا بھی ہے ایک شخص نے ہذیل کے کچھ لوگوں کی دعوت کی اور اپنی باندی کو لکڑیاں کاٹنے کے لیے بھیجا۔ مہمانوں میں سے ایک مہمان کو وہ پسند آگئی اور وہ اس کے پیچھے چل پڑا اور اس کی عصمت لوٹنے کا طلب گار ہوا لیکن اس باندی نے انکار کردیا۔ تھوڑی دیر ان دونوں میں کشمکش ہوتی رہی۔ پھر وہ اپنے آپ کو چھڑانے میں کامیاب ہوگئی اور ایک پتھر اٹھا کر اس شخص کے پیٹ پر مار دیا جس سے اس کا جگر پھٹ گیا اور وہ مرگیا۔ پھر وہ اپنے گھروالوں کے پاس پہنچی اور انہیں واقعہ سنایا۔ اس کے گھر والے اسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس لے کر گئے اور آپ سے سارا واقعہ بیان کیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے معاملہ کی تحقیق کے لیے کچھ لوگوں کو بھیجا اور انہوں نے موقع پر ایسے آثار دیکھے، جس سے دونوں میں کشمکش کا ثبوت ملتا تھا۔ تب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اللہ نے جسے مارا ہے اس کی دیت کبھی نہیں دی جاسکتی( السنن الکبريٰ، 8 : 337)
پیرآف اوگالی شریف
About the Author: پیرآف اوگالی شریف Read More Articles by پیرآف اوگالی شریف: 832 Articles with 1381412 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.