رب الکائنات کی پہلی تخلیق

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں کو میرا آداب
قران مجید فرقان حمید کی سورہ الانعام کی آیت نمبر 162 ،163 میں اللہ تبارک وتعالی نے ارشاد فرمایا کہ ترجمہ کنزالایمان " فرمادیجیئے کہ بیشک میری نماز حج اور قربانی (سمیت سب بندگی ) اور میری زندگی اور میری موت سب اللہ کے لیئے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں (جمیع مخلوقات میں ) سب سے پہلا مسلمان ہوں "اس آیت مبارکہ کے اخری کلمات ( وانا اول المسلمین ) قابل غور ہے کہ اللہ تبارک وتعالی اپنے حبیب کریم صلی اللہ علیہ والیہ وسلم کی اپنی زبانی خود کہلوا رہا ہے کہ جس خدا نے یہ کائنات پیدا کی ہے اور جو اس کارخانئہ قدرت کا کارساز ہے اسی نے مجھے یہ مقام بھی عطا فرمایا ہے کہ اس ساری کائنات میں اس کے حضور سر کو جھکانے والا بھی سب سے پہلےمیں ہی ہوں جب میں نے بارگاہ خداوندی میں سر کو جھکایا اور اللہ تبارک وتعالی پر ایمان لایا اس وقت کائنات میں اور کوئی وجود نہ تھا جو سر جھکاتا یا اس کی ربویت کو تسلیم کرتا اس سے یہ ثابت ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ والیہ وسلم اللہ تبارک وتعالی کی پہلی تخلیق ہیں .

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں میں نے عرض کیا کہ " یارسول صلی اللہ علیہ والیہ وسلم میرے ماں باپ آپ پر قربان ! مجھے یہ بتائیں کہ اللہ تبارک وتعالی نے سب سے پہلے کیا چیز پیدا فرمائی؟ حضور صلی اللہ علیہ والیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اے جابر ! بیشک اللہ تبارک وتعالی نے تمام مخلوق میں سب سے پہلے تیرے نبی کا نور اپنے نور سے پیدا فرمایا پھر وہ نور اللہ تبارک وتعلی کی مرضی کے مطابق جہاں چاہتا سیر کرتا رہتا ۔اس وقت نہ لوح تھی نہ قلم نہ جنت تھی نہ دوزخ نہ فرشتہ تھا نہ زمین نہ آسمان نہ سورج نہ چاند نہ جن تھا نہ کوئی انسان جب اللہ تبارک وتعالی نے ارادہ فرمایا کہ مخلوقات پیدا کرے تو اس نور کو چار حصوں میں تقسیم کردیا پہلے حصے سے قلم بنایا اور دوسرے حصے سے لوح تیسرے حصے سے عرش بنایا جبکہ چوتھے حصے کو چار حصوں میں تقسیم کردیا پہلے حصے سے عرش اٹھانے والے فرشتے اور دوسرے سے کرسی تیسرے سے باقی فرشتے اور چوتھےحصے کو چار حصوں میں تقسیم کردیا پہلے حصے سے آسمان دوسرے سے زمین تیسرے سے جنت اور دوزخ بنائی "۔اس حدیث کو آج تک کتنے کثیر ائمہ و محدثین نے ذکر کیا ہے کہ یہ قبول عام درجہ حاصل کرچکی ہے ۔( عجلونی نے کشف الخفا (311:1،رقم:811 ) میں مذکورہ حدیث کو نقل کرتے ہوئی کہا ہے کہ امام عبد الرزاق نے اسے اپنی سند کے ساتھ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے "المصنف"میں روایت کیا ہے )۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں حضور صلی اللہ علیہ والیہ وسلم کے کائنات میں سب سے پہلے تخلیق کئیے جانے اور حضرت آدم علیہ السلام سے پہلے شرف نبوت سے بہرہ یاب کئے جانے کے تذکرے بہت سی احادیث میں آئے ہیں جنہیں مختلف الفاظوں میں مختلف انداز کے ساتھ ہمارے مئوخر ین نے لکھا ہے
محترم پڑھنے والوں حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ والیہ وسلم نے ایک دفعہ حضرت جبرئیل امین علیہ السلام سے دریافت فرمایا : کہ اے جبرئیل! یہ تو بتائو کہ تمہاری عمر کتنی ہے ؟ حضرت جبرئیل : نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ والیہ وسلم عمر کا تو مجھے صحیح انداہ نہیں لیکن اتنا یاد ہے ( ساری کائنات کے پیدا ہونے سے پہلے اللہ تبارک وتعالی کے حجابات عظمت میں سے ) چوتھے پردہ عظمت میں سے ایک (نورانی )ستارہ چمکا کرتا تھا اور وہ ستارہ 70 ہزار سال کے بعد ایک مرتبہ چمکتا تھا اور میں نے اپنی زندگی میں وہ نورانی ستارہ 72 ہزار مرتبہ دیکھا ہے حضور صلی اللہ علیہ والیہ وسلم نے فرمایا جبرئیل! مجھے میرے رب ذول الجلال کے عزت کی قسم ! وہ چمکنے والا ستارہ میں ہی ہوں ۔
حوالہ:( حلبی ، السیرہ الحلبیہ،1: 30 )

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ والیہ وسلم کی تخلیق اللہ تبارک وتعالی کی پہلی تخلیق ہونے کے جو شواہد قران مجید فرقان حمید میں مختلف جگہوں پر رب الکائنات کے ارشادات اور بیشمار احادیث سے ملتے ہیں اس پر ہمارا عقیدہ مطبوط اور پختہ ہونا چاہیئے کہ اللہ تبارک وتعالی کے یہاں حضور صلی اللہ علیہ والیہ وسلم نہ صرف اللہ تبارک وتعالی کی پہلی تخلیق ہیں بلکہ وجہہ تخلیق کائنات بھی ہیں ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں حضور صلی اللہ علیہ والیہ وسلم کے اللہ تبارک وتعالی کے پہلی تخلیق ہونے کا ایک واضح ثبوت حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ بھی ہے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سرکار صلی اللہ علیہ والیہ وسلم نے فرمایا : جب حضرت آدم علیہ السلام خطاء کے مرتکب ہوئے تو انہوں نے ( اللہ تبارک وتعالی کی بارگاہ میں ) عرض کیا : اے پروردگار ! میں تجھ سے محمد صلی اللہ علیہ والیہ وسلم کے وسیلے سے سوال کرتا ہوں کہ میری مغفرت فرما تو اس پر اللہ رب العزت نے فرمایا : اے آدم (علیہ السلام ) تم نے محمد کو کیسے پہچانا ابھی تو میں نے انہیں تخلیق بھی نہی کیا ؟اس پر حضرت آدم علیہ السلام نے عرض کیا : مولا ! جب تو نے مجھے اپنے دست قدرت سے تخلیق کیا اور اپنی روح میرے اندر پھونکی ، میں نے اپنا سر اوپر اٹھا کر دیکھا عرش کے ہر ستون پر لا الہ الااللہ محمد الرسول اللہ لکھا ہوا دیکھا تو میں نے جان لیا کہ تیرے نام کے ساتھ صرف اسی کا نام ہوسکتا ہے جو تجھے تمام مخلوق میں سب سے زیادہ محبوب ہو اللہ تبارک وتعالی نے فرمایا کہ : اے آدم ! تم نے سچ کہا مجھے اپنی مخلوق میں سب سے زیادہ محبوب وہی ہیں اب جبکہ تم نے اس وسیلے سے مجھ سے دعا کی ہے تو میں نے تجھے معاف کیا اور اگر حضور صلی اللہ علیہ والیہ وسلم نہ ہوتے تو میں تجھے بھی تخلیق نہ کرتا
حوالہ:: المستدرک ، 615:2 ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں جب اللہ تبارک وتعالی نے حضرت ادم علیہ السلام کی دعا قبول کی تو حضرت آدم علیہ السلام نے اپنی تمام ذریت (اولاد ) کو یہ تعلیم دے دی کہ جب بھی اللہ تبارک وتعالی کی نافرمانی اور معصیت کے مرتکب ہوجائو اور تمہارا دامن گناہوں سے لت پت ہوجائے تو مایوس ہونے کی قطعا ضرورت نہیں ، بارگاہ رب العزت میں سچی توبہ کا ارادہ کرکے اس کے حبیب کریم صلی اللہ علیہ والیہ وسلم کے وسیلے سے دعا مانگو ، تمہارے گناہوں کو اس طرح معاف کردیا جائے گا جس طرح میری خطاء کو قران مجید فرقان حمید نے اس بات پرمہر تصدیق ثبت کرتے ہوئے فرمایا : اور ( اے حبیب ) صلی اللہ علیہ والیہ وسلم اگر وہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھتے تھے آپ صلی اللہ علیہ والیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوجاتے اور اللہ تبارک وتعالی سے معافی مانگتے اور حضور صلی اللہ علیہ والیہ وسلم بھی ان کے لیئے مغفرت طلب کرتے تو وہ ( اس وسیلہ اور شفاعت کے سبب ) اللہ تبارک وتعالی کو ضرور معاف فرمانے والا پاتے ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں اس کا مطلب یہ ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ والیہ وسلم کے وسیلہ سے دعا مانگنا جائز بھی ہے اور یہ حضرت آدم علیہ السلام کی سنت بھی ہے مولانا اشرف علی تھانوی نے "نشر الطیب" کی دوسری فصل (ص:20 ) کا آغاز انہی احادیث سے کیا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا علیہما السلام کے رشتے میں منسلک ہونے پر بھی صلی اللہ علیہ والیہ وسلم پر درود پاک پڑھنے کا حکم ہوا تھا اور اسی درود پاک کو اس عقد میں وسیلہ بنایا گیا اور اس کا حکم صرف اس لیئے صادر ہوا کہ حضرت آدم علیہ السلام کو یہ بات آشکار ہوجائے کہ محمد صلی اللہ علیہ والیہ وسلم کا مرتبہ اور مقام کیا ہے اوراگر وہ نہ ہوتے تو نہ انہیں زوجیت ملتی نہ نبوت ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں اس موضوع پر لکھنے کو تو بہت کچھ ہے اور ہمارے مفسرین نے پوری پوری کتابیں لکھ ڈالی ہیں قران ہو یا حدیث یا ہمارے علماء و مشائخ کی تصانیف ہر جگہ یہ بات ثابت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ والیہ وسلم اللہ تبارک وتعالی کی پہلی تخلیق بھی ہیں اور وجہہ تخلیق کائنات بھی شاعر مشرق حضرت علامہ ڈاکٹر محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے اس بات کو اپنے انداز میں اس طرح فرمایا کہ :
نگاہ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر
وہی قران وہی فرقان وہی یاسین وہی طہ

بیشک اہل ایمان ہونے اور اس کی حفاظت کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہمارے اندر عشق مصطفی کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہو اور سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ والیہ وسلم کا وہ فرمان کہ " تمہارا ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک میں تمہیں اپنے والدین اولاد یہاں تک کے دنیا کی ہر چیز سے سب سے زیادہ محبوب نہ ہوجائوں "۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں اللہ تعالی سے اپنی اس تحریر کے اخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمیں اپنے عقیدے پر ثابت قدم رہنے اور سچی پکی باتوں پر عمل کرنے کی مجھے اور ہم سب کو توفیق عطا فرمائے ۔
آمین آمین ثمہ آمین بجاہ النبی الکریم
صلی اللہ علیہ والیہ وسلم
 

محمد یوسف راہی
About the Author: محمد یوسف راہی Read More Articles by محمد یوسف راہی: 166 Articles with 133793 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.