میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں کو میرا آداب
ہماری زندگی جو ہم گزار رہے ہیں اس کے متعلق آج بڑی اہم اور ضروری بات آپ
تک پہنچانا چاہوں گا جس کے بعد آپ کو بخوبی اندازہ ہوگا کہ زندگی اصل میں
کیا ہےہم جو زندگی گزارہے ہیں دراصل اس کے چار حصے ہیں یعنی ایک وہ حصہ جو
ہم دنیا میں گزارتے ہیں پچاس سال ، ساٹھ سال ، یا پھر اسی یا نوے سال بحر
حال جس انسان کا جتنا وقت لکھا ہوا ہے وہ دنیاوی وقت گزار کر وہ اپنی دوسری
زندگی کی طرف چلا جاتا ہے یہ وقت اس زندگی کا پہلا حصہ ہے دوسرا حصہ ہمارا
قبر کی زندگی کا ہے جب تک قیامت برپا نہیں ہوتی تب تک ہمیں قبر میں رہنا
ہوگا اب یہ اللہ تبارک وتعالی کو معلوم ہے کہ کمیں کتنا عرصہ قبر میں رہنا
ہوگا لیکن دنیاوی زندگی سے قبر کی زندگی زیادہ طویل ہوگی ہماری اس زندگی کا
تیسرا حصہ وہ ہے جو ہمیں اپنے گناہوں کے سبب دوزخ میں گزارنا ہوگا یہ بات
تو حدیثوں سے ثابت ہے کہ اللہ تبارک وتعالی نے جنت اہل ایمان مسلمانوں کے
لئے اور دوزخ مشرک و کفار کے لئے بنائی ہے اور یہ بھی کہ ہر اہل ایمان کا
آخری سفر جنت ہے لیکن جو گناہ دنیا میں ہم جانے انجانے میں کرتے ہیں اور جب
بروز قیامت ان کا حساب ہوگا تو ان گناہوں کے سبب ہمیں کچھ وقت عذاب میں
رہنا ہوگا اب یہ اس رب الکائنات کو معلوم ہے کہ اس کی مدت کتنی ہے لیکن
اتنا مفسرین نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے کہ وہ دنیاوی زندگی اور قبر کی
زندگی سے طویل وقت ہوگا ہماری زندگی کا آخری حصہ جنت کا ٹھکانہ ہوگا جو
کبھی نہ ختم ہونے والا وقت اور کبھی نہ ختم ہونے والی زندگی کا ہوگا جس کے
بارے میں آج تک کہیں بھی کسی نے بھی کسی جگہ یہ نہیں بتایا یا لکھا کہ وہ
زندگی کتنی طویل ہوگی بس ہمارے مفسرین نے یہ لکھا ہے کہ وہ زندگی ہمیشہ
رہنے والی زندگی ہوگی ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں اب غور کریں کہ ہماری زندگی کے یہ چار جو
حصہ ہیں اس میں ہم ابھی اپنی زندگی کا پہلا حصہ گزاررہے ہیں اور ہمیں یہ
بھی معلوم ہوگیا کہ یہ حصہ سب سے مختصر اور کم وقت والا حصہ ہے اب اس حصے
سے ہمیں قبر کی زندگی اور دوزخ کی زندگی کی تیاری کرنی ہوگی اور اگر ہم نے
اس تیاری میں کوتاہی کی سستی کی تو سوچیں ہمارا کیا ہوگا کیا ہم اپنی زندگی
کے چوتھے حصے تک پہنچنے میں کامیاب ہوں گے ؟ اور حیرت کی بات یہ کہ ہماری
زندگی کے سب سے کم مدت والی زندگی کو ہم نے سب کچھ سمجھ لیا ہے اور یہاں
اپنی زندگی کو اس طرح گزارتے ہیں جیسے ہمیں مستقل یا طویل مدت کے لئے یہیں
رہنا ہے ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں ہماری سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ ہم اپنے
رب العزت پر یقین تو رکھتے ہیں لیکن بھروسہ نہیں کرتے جبکہ ہم میں سے ہر
باشعور انسان یہ جانتا ہے کہ وہ رب ذولجلال 70 مائوں سے بھی زیادہ ہمیں
پیار کرتا ہے وہ کبھی بھی نہیں چاہتا کہ اس کا بندہ محشر میں اپنے گناہوں
کے سبب شرمسار ہو بلکہ وہ خالق حقیقی تو بہانہ تلاش کرے گا اپنے بندے کو
جہنم کی بجائے جنت میں بھیجنے کا جیسے بروز محشر ایک ایسے شخص کو لایا جائے
گا جس کے اعمال جب تولے جائیں گے تو اس میں نیکی کا پلڑا خالی ہوگا اور
گناہوں کی وجہ سے اس کے گناہ کا پلڑا بھرا ہوا ہوگا تو اللہ رب العزت اس سے
پوچھے گا کہ کیا تو نے ںدگی میں کوئی نیکی نہیں کی تو وہ کہے گا نہیں اللہ
رب العزت کہے گا سوچ لے شاید کوئی نیکی کی ہو تو سر ندامت سے جھکا لے گا تب
وہ فرشتوں کو حکم دے گا کہ اسے جہنم کی طرف لےجائو لیکن فرشتے ابھی تھوڑی
دور گئے ہوں گے کہ ایک بلی کی آواز آئے گی رک جائو تو فرشتے رک جائیں گے
اللہ تبارک وتعالی بلی کی طرف دیکھکر پوچھے گا کہ کیا بات ہے تو بلی کہے گی
کہ ایک دفعہ میں شدید پیاسی تھی اور پانی کی تلاش میں گھوم رہی تھی تو یہ
شخص اپنے گھر کے باہر کھڑا ہوا پانی پی رہا تھا میں اس کے قریب جاکر کھڑی
ہوئی اور اس کی طرف دیکھنے لگی تو یہ سمجھ گیا اور اس نے مجھے پانی پلایا
اور میں پانی پی کر خوب سیراب ہوگئی بس اللہ تبارک وتعالی بلی کی یہ بات سن
کر فرشتوں کو حکم دے گا کہ اس کو جنت میں لیجائو اس نےمیرے مخلوق کا خیال
کیا ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں اللہ تبارک وتعالی پر مکمل یقین کے ساتھ
بھروسہ کرنا سیکھیں پھر دیکھیں وہ آپ کو کس طرح اور کس جگہ سے دے گا آپ کو
علم بھی نہیں ہوگا آپ انبیاء کرام علیہم السلام کی زندگیوں کا مطالعہ کریں
تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ان کو کتنی مشکلوں اور تکلیفوں سے گزرنا پڑا اللہ
تبارک وتعالی کے دین کو لوگوں تک پہنچانے میں لیکن ان تکلیفوں کے باوجود
انہیں اپنے رب العزت پر پورا یقین اور بھروسہ تھا کئی ایسے واقعات ہمیں
قران میں بھی ملتے ہیں جس میں اللہ تبارک وتعالی کے حکم پر انبیاء کرام
علیہم السلام نے وہ کام کئے جو اس دور میں ہمیں ممکن نظر نہیں آتے کیوں کہ
انبیاء کرام علیہم السلام کو اپنے رب ذولجلال پر یقین بھی تھا اور بھروسہ
بھی جیسے جب حضرت موسی علی نبینا علیہ السلام فرعون کے دربار میں موجود ہیں
چاروں طرف دشمن ہی دشمن اور جادوگر آگئے انہوں نے سانپ چھوردئیے آپ علیہ
السلام پریشان ہوگئے اللہ تبارک وتعالی کو پکارا تو آواز آئی اے موسی علیہ
السلام اپنا عصاء ان پر ڈالدو حضرت موسی علیہ السلام نے یہ نہیں سوچا کہ
اتنے بیشمار سانپ اور یہ لکڑی کا ٹکڑا یہ کر لے گا انہیں تو اپنے رب
الکائنات پر بھروسہ تھا اور اپنے اللہ رب العزت کے حکم سے انہوں نے اپنا
عصاء پہینکا تو اللہ تبارک وتعالی نے اسے ایک ازدھےکی شکل دے دی اور اس نے
وہ سارے سانپ نگل لئے ۔
میرے محترم پڑھنے والوں اللہ تبارک وتعالی پر یقین اور بھروسہ شرط ہے اگر
ہم دعا کےلئے ہاتھ اٹھائیں اور پکے یقین اور بھروسہ کےساتھ اس خالق حقیقی
سے مانگیں تو وہ ہمارے بھروسہ کی بڑی لاج رکھتا ہے اگر ہم حضرت موسی علیہ
السلام کی پیدائش کو دیکھییں کہ جب فرعون کے حکم پر ہر پیدا ہونے والا وہ
بچہ جو لڑکا ہو اسے ماردیا جاتا تھا اور انہی دنوں حضرت موسی علیہ السلام
کی پیدائش ہوگئی اب ان کی ماں بہت پریشان تھی تب اللہ رب العزت نے ان کے دل
میں یہ بات ڈالی کہ بچے کو ایک صندوق میں بند کرکے دریا میں ڈال دو اب آج
کے دور میں کوئی یہ بات کہے تو ہم کہیں ھے یا اللہ رب العزت کسی کے دل میں
ایسی کوئی بات ڈال دے تو کیا وہ عمل کرے گا لیکن حضرت موسی علیہ السلام کی
والدہ نے بغیر کچھ سوچے اور سمجھے صرف اللہ تبارک وتعالی کے حکم پر ایک
یقین اور بھروسہ کے ساتھ حضرت موسی علیہ السلام کو ایک صندوق میں بند کرکے
دریا میں بہا دیا اور اسی رب الکائنات نے حضرت موسی علیہ السلام کی پرورش
فرعون کے گھر میں کروائی ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں ایسی بیشمار مثالیں ہمیں قران مجید فرقان
حمید میں ملتی ہیں جہاں اپنے رب ذولجلال پر یقین اور بھروسہ کے ساتھ کئے
گئے کام میں کتنی فیوض وبرکات ہمیں ملتے ہیں ہمیں بھی کسی نہ کسی طرح وہ رب
العزت کئی باتوں کا حکم صادر فرماتا ہے لیکن نہ ہمارے پاس ایمان کی مظبوطی
ہے نہ اپنے رب الکائنات پر پختہ یقین اور نہ ہی بھروسہ اگر یہ سب کچھ ہوتا
تو ہر وقت ہم اپنی پریشانی یا تکلیف کارونا لوگوں کے سامنے نہیں کرتے بلکہ
اپنے خالق حقیقی کا ہر حال میں شکر ادا کرتے اور اس کے ذکر میں ہی اپنا
زیادہ تر وقت گزارتے ۔حضرت ایوب علیہ السلام کی عمر مبارک جب 60 سال ہوئی
تو آپ بیمار ہوگئے پریشانی اور تکلیفوں میں وقت گزارا لیکن آپ علیہ السلام
نے اپنی زبان سے کبھی گلہ شکوہ نہیں کیا لوگوں نے آپ علیہ السلام کو گائوں
سے نکال دیا تھا اور آپ علیہ السلام اپنی باوفا پیوی جن کا نام تھا "رحمت
بنت افرائیم" کے ساتھ رہتے تھے آپکی تکلیفوں اور پریشانیوں سے آپ کی زوجہ
بہت دکھی ہوتی تھی ایک دن عرض کیا کہ آپ اللہ تبارک وتعالی سے صحتیابی کی
دعا کیوں نہیں مانگتے ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں حضرت ایوب علیہ السلام نے فرمایا کہ اے
زوجہ یہ بتائو کہ صحتمندی میں ہم نے کتنا وقت گزارا تو فرمایا کہ 60 سال تو
جب بیماری میں بھی 60 سال گزر جائیں گے تو اللہ تبارک و تعالی سے عرض کریں
گے بس آپ علیہ السلام کی یہ بات اللہ تبارک و تعالی کو اتنی پسند آئی کہ
اللہ نے آپ علیہ السلام کو نہ صرف صحت دی بلکہ اور زیادہ خوبصورت بنادیا
اور دوبارہ مال و ملال بھی عطا کردیا جب آپ علیہ السلام بلکل صحتمند ہوگئے
تو آپ علیہ السلام کی بیوی نے پوچھا کہ یہ بتائیں کہ بیماری والے دن اچھے
تھے یا صحت مندی والے تو آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ بیماری والے دن تو آپ
علیہ السلام کی زوجہ نے پوچھا وہ کیوں تو فرمایا کہ میں جب بیمار تھا تو
چوبیس گھنٹے میں ایک بار میرا اللہ (تبارک وتعالی ) مجھ سے میرا حال پوچھتا
تھا اور میں باقی اٹھارہ گھنٹے اسی انتظار میں گزارتا تھا کہ میرا رب کب
میرا حال پوچھنے آئے گا اب چونکہ میں مکمل صحتیاب ہوگیا ہوں تو میرا حال اب
میرا اللہ (تبارک وتعالی ) کیوں پوچھنے لگا ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں اللہ تبارک وتعالی فرماتا ہے نماز پرھو ہم
کہتے ہیں ابھی عمر پڑی ہے پڑھ لیں گے وہ رب العزت فرماتا ہے ایک دفعہ دعا
کے لئے ہاتھ تو اٹھا دیکھ تجھے کیسے نوازتا ہوں ہم کہتے ہیں کہ ابھی وقت
نہیں ہے میرا رب کریم فرماتا ہے کہ چہرے پر میرے محبوب کی سنت سجا لے دیکھ
تجھے بھی میں اپنا محبوب بندہ بنالوں گا تو کہتے ہیں کہ ابھی تو جوانی ہے
بڑھاپہ آئے گا تو رکھ لیں گے یہ ہماری بدقسمتی نہیں تو کیا ہمارے پیغمبروں
نے اللہ تبارک وتعالی کے حکم پر کن کن احکامات پر عمل کیا اور پھر رب العزت
نے انہیں کیسے کیسے معجزے عطا کئے کیوں کہ ان کا اپنے رب العزت پر پختہ
یقین تھا اور بھروسہ تھا کہ وہ خالق ہم پر بڑا مہربان ہے اپنے رب العزت کے
احکامات پر عمل پیرا ہوکر اور عشق مصطفی صلی اللہ علیہ والیہ وسلم میں ڈوب
کر پختہ یقین اور بھروسہ کے ساتھ ہم کوئی بھی کام کریں گے تو ہمیں مایوسی
کبھی بھی نہیں ہوگی ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ والیہ وسلم نے
فرمایا کہ جب بھی نماز میں دعا کے لئے ہاتھ اٹھائو تو اپنے رب الکائنات سے
دو چیزیں ضرور مانگا کریں " ایمان کی پختگی اور یقین کامل اور دوسرا درگزر
کرنا " کیوں کہ جب کسی انسان کو یقین کامل کی دولت مل جاتی ہے تو پھر اس کا
دل نماز میں خودبخود لگ جاتا ہے اگر نماز نکل جائے تو اسے افسوس ہوتا ہے
حضور صلی اللہ علیہ والیہ وسلم سے خود بخود عشق ہوجاتا ہے جب اور جہاں میرے
آقا صلی اللہ علیہ والیہ وسلم کا ذکر ہورہا ہوگا اس کا دل خود بخود اس طرف
جائے گا کیوں کہ اسے بھروسہ ہے اپنے رب العزت کی ذات پر اور پختہ یقین ہے
کہ اگر وہ اللہ تبارک وتعالی کے احکامات پر عمل کرے گا تو اسے وہ اپنے وعدہ
کے مطابق جنت میں داخلہ عطا کرے گا اور بیشک میرا رب العزت اپنے وعدے کے
خلاف نہیں کرتا ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں ہمیں جس مقصد کے لئے ہمارے خدا رب العزت
نے اس دنیا میں بھیجا ہے اس مقصد کے تحت زندگی گزارنی ہوگی اگر ہم اپنی اگے
آنے والی زندگیوں میں کامیابی سے داخل ہونا چاہتے ہیں ہمیں اپنی دنیا اور
آخرت میں کامیابی کے لئے صرف اور صرف اللہ تبارک وتعالی کی ذات پر پختہ
یقین اور بھروسہ کرنا ہوگا پھر انشاءاللہ دنیا بھی ہماری ہوگی اور آخرت بھی
اللہ تبارک وتعالی سے دعا ہے کہ اللہ تبارک وتعالی ہمیں بھی اپنے خاص بندوں
کی طرح پختہ اور کامل یقین عطا فرمائے اور ہم صرف اور صرف اس پر بھروسہ
کرکے اپنی زندگی گزاریں آمین آمین بجاہ النبی الامین
صلی اللہ علیہ والیہ وسلم
|