ہمارے محلے کے عقب سے ایک ماسی آیا کرتی ہے. چند روز قبل
اس نے اپنے تین سالہ بھانجے کے بارے میں بتایا کہ اس پر گرم چائے گر گئی جس
سے بچہ بری طرح جل گیا.میرے پوچھنے پر بتایا کہ علاقے میں گیس تو آتی نہیں
لہذا ہم نے سلنڈر رکھے ہوئے ہیں جن کے اوپر چولھا بنا ہوتا ہے.بچے کی ماں
چائے بناتے ہوئے دوسرے کمرے میں گئ تو اس بچے نے وہ پتیلی اپنے اوپر گرا
لی.
مجھے یہ سن کے بہت دکھ ہوا اور یہ احساس بھی کہ چھوٹے بچوں والے گھر میں
ایسے چولھے نہیں ہونے چاہئیں اورکم از کم بچوں کو تو ایسے کمرے میں بالکل
نہیں ہونا چاہئیے. بہرحال میں نے اس وقت تو یہ بات اس سے نہیں کی کیوں کہ
وہ پہلے ہی دکھ کی حالت میں تھی. اسے تسلی دے کر رخصت کردیا.دس بارہ روز کے
بعد دوبارہ بچے کے بارے میں پوچھا تو اس نے بتایا کہ پہلے اسے ایک ہسپتال
لے کر گئے .وہاں سے پٹی کروا کے دوسرے ہسپتال میں لے گئے اور انھوں نےتیسرے
ہسپتال بھیج دیا جہاں کچھ دنوں بعد بچہ فوت ہوگیا. مجھے کچھ حیرت بھی ہوئی
.دریافت کرنے پر مذید بتایا کہ سینہ جل گیا تھا تو بغیر قمیص کے ہسپتالوں
میں لئے پھرتے رہے.
میں نے کہا ماسی کہیں وہ ٹھنڈ لگنے سے تو نہیں فوت ہوگیا ؟
کہنے لگی کہ شاید ایسا ہی ہو کیوں کہ آخری دن اسے سانس ٹھیک نہیں آرہا تھا.
میں نے کہا کہ آپ لوگوں نے بچے کو کچھ تو پہنانا یا لپیٹنا تھا!
جی چاہا کہ کہیں اکیلے بیٹھ کر روؤں .
اب ان مدرسے کے طالب علموں کی وڈیو دیکھ کر پھر ویسا ہی تاسف اور ملال
ہورہا ہے کہ جنھیں ڈیم کی سیر کے لئے کشتی میں بٹھایا گیا. ایک تو گنجائش
سے ذیادہ بچے اس میں بٹھاۓ گئے ہیں.دوسرے ان کو کوئی لائف جیکٹ وغیرہ بھی
نہیں دی گئی.اصولی طور پر ایسی جگہ سیر کے لئے جانا ہی نہیں چاہئیے جہاں
جان کا خطرہ ہو. جانا بھی ہوتو کچھ پیشگی معلومات اور تیاری تو ہونی چاہئے.
حکومت کو بھی حفاظتی انتظامات کو یقینی بنانا چاہئیے .وہاں کوئ بورڈ براۓ
احتیاطی تدابیر لکھا ہو .ایسی آبی تفریح گاہوں پر ریسکیو کے لئے حفاظتی
عملہ بھی موجود ہونا چاہئے. کشتی کا معیار بھی کسی ذمہ دار کو چیک کرنا
چاہیے ۔
میں نے کئ پارکوں میں بچوں کو ایسے خطرناک جھولوں پر دیکھا ہے جن کی مدت
_کارکردگی کی کوئ گارنٹی نہیں ہوتی. چند سال قبل کراچی میں ایسا ہی ایک
جھولا ٹوٹ کے گرا تھا.
بات احساس _ذمہ داری کی ہے.جس نے ایک انسان کی جان بچائی ،اس نے گویا ساری
انسانیت کو بچالیا۔ یہاں ساری بات تقدیر پہ ڈال کے لوگ خود بری الزمہ
ہوجاتے ہیں۔ حالانکہ جیسے سفر پہ جانے سے پہلے زاد راہ کا انتظام ضروری ہے
اسی طرح انسانی زندگیوں کے معاملہ میں رسک کے بارے میں سوچنا
چاہیئے.انفرادی اور اجتماعی احساس _ذمہ داری خطرات سے بچاتا ہے۔ انسان کی
قدر وقیمت بڑھ جاتی ہے ذمہ دار ہونے پر لیکن شاید بحیثیت قوم ،ہم خطرات کے
بارے میں سوچنا نہیں چاہتے بالکل اس کبوتر کی طرح جو اپنی آنکھیں بند کرکے
سمجھتا ہے کہ بلی بھی اسے نہیں دیکھ رہی ! |