ریاکاری کا عذاب

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں کو آداب
دکھاوہ یا ریاکاری اس عنوان پر آپ لوگوں نے کئی مضامین پڑھیں ہوں گے ، سنے ہوں گے اور ہوسکتا ہے کہ دیکھے بھی ہوں ہم اس کو نمود و نمائش کا نام بھی دے سکتے ہیں ریاکاری یا دکھاوے کا اصل مطلب کیا ہے کہ اگر ہم کوئی دنیاوی کام کررہے ہوں تو اس کا اظہار لوگوں کے سامنے اس طرح کریں جیسے ہم انہیں کچھ جتلانا چاہتے ہوں اسی طرح اگر ہم کوئی نیکی کا کام کریں تو تو وہ لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کے لئے کہ وہ کہیں دیکھو کتنا نیکوکار اور پرہیزگار ہے اسے ریاکاری یا دکھلاوہ کہتے ہیں یعنی ظاہر کچھ اور باطن کچھ اور یہ ہی اللہ تبارک وتعالی اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ والیہ وسلم کے نذدیک پسندیدہ عمل نہیں ہے اللہ تبارک وتعالی نے قران مجید فرقان حمید میں ریاکاری کا ذکر کئی جگہ ارشاد فرمایا جیسے ( پ 3 سورہ بقرہ آیت 264 ) ارشاد ہوا
" ترجمہ کنزالایمان " "اے ایمان والوں اپنے صدقے باطل نہ کردو احسان رکھکر اور ایذا دے کر ، اس طرح کے جو اپنا مال لوگوں کے دکھاوے کے لئے خرچ کرے "

دنیاوی اعتبار سے ہو یا دینداری کے اعتبار سے ہمیں ہر صورت میں دکھلاوے یعنی ریاکاری سے بچنا چاہئے کہ اللہ تبارک وتعالی اور اس کے حبیب کریم صلی اللہ علیہ والیہ وسلم نے اس کے بارے میں بڑی سخت وعید فرمائی ہے اگر اللہ رب العزت نے ہمیں دنیا میں بیشمار مال و دولت سے نوازا ہوا ہے تو ہمیں اس بات پر اس کا شکر ادا کرنا چا ہئے نہ کے ہم دنیا والوں کے سامنے اس مال و دولت کی نمائش کریں اور اس کا دکھلاوہ کرکے اپنے لئے عذاب کا سامان مہیا کریں ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں ریاکاری کی تباہی اور بربادی کا اندازہ آپ اس حدیث سے لگاسکتے ہیں جس میں حضور صلی اللہ علیہ والیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ " قیامت کے دن کچھ لوگوں کو جنت میں لیجانے کا حکم ہوگا یہاں تک کہ جب وہ جنت کے قریب پہنچ کر اس کی خوشبو سونگھیں گے ، محلات کو دیکھیں گے اور اہل جنت کے لئے تیار کی گئی اللہ تبارک وتعالی کی نعمتوں کو دیکھ لیں گے تو ندا دی جائے گی کہ انہیں لوٹا دو ان کا جنت میں کوئی حصہ نہیں " تو وہ ایسی حسرت لیکر لوٹیں گے جو پہلے کبھی نہ کی ہوگی پھر وہ لوگ عرض کریں گے یا رب ذولجلال جنت کی نعمتیں دکھانے سے پہلے ہی اگر تو ہمیں جہنم میں ڈال دیتا تو ہمارے لئے یہ آسان ہوتا تو رب العزت فرمائے گا کہ اے بدبختو میں نے ارادے سے یہ کیا کہ جب تم دنیا کی تنہائی میں ہوتے تو میرے خلاف اعلان جنگ کرتے اور جب لوگوں کے درمیان ہوتے تو دوغلے پن سے میرے سامنے حاضر ہوتے اور لوگوں کو دکھانے کی غرض سے نیک عمل کرتے جبکہ تمہارے دلوں میں میری خاطر اس کے برعکس ہوتا لوگوں کے سامنے نیک اور پرہیزگار کا ڈھونگ رچاتے جبکہ دل میں میرے لئے وہ بات نہ ہوتی جو ہونی چاہئے لوگوں کے لئے غلط کام کرنے میں دیر نہیں کرتے تھے اور میرے لئے نیکی کرنے میں بخل سے کام لیتے اب یہاں میں تمہیں تمہاری کی ہوئی نیکیوں کے ثواب سے بھی محروم کردوں گا اور تمہیں اپنے عذاب کا بھی مزا چکھائوں گا ۔
( المعجم الاوسط ، الحدیث :5478 ،ج4، ص 135 ملخصا )
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں ہمیں ریاکاری کی سخت مذمت کی گئی ہے چاہے ہم کوئی دنیاوی کام کریں یا نیکی کا کوئی عمل جیسا کہ حضور صلی اللہ علیہ والیہ والیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو کوئی شہرت کے لئے کوئی عمل کرے گا تو اللہ تبارک وتعالی اسے رسوا کردے گا اور جو کوئی لوگوں کے دکھلاوے کے لئے کوئی عمل کرے گا تو اللہ رب العزت اسے عذاب دے گا ۔
آج بنتا ہوں معزز جو کھلے حشر میں عیب
ہائے رسوائی کی آفت میں پھنسوں گا یارب

مطلب یہ کہ دنیا میں ملنے والے مال و دولت اور شہرت کی وجہ سے ہم بڑے معزز بن کر پھرتے ہیں لیکن جب یہ ریاکاری عیب کی صورت میں محشر میں سامنے آئے گی تو رسوائی ہمارا مقدر ہوگی اور ہم اس آفت کا شکار ہوں گے اس میں پھنس جائیں گے ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں ریاکاری کے موزوع پر قران اور احادیث کے بعد میں یہاں ایک معلوماتی اور سبق آموز واقعہ تحریر کرنا چاہوں گا کہ" ایک دفعہ حضور صلی اللہ علیہ والیہ وسلم کے پاس ایک شخص حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یارسول صلی اللہ علیہ والیہ وسلم میرے ماں باپ آپ پر قربان میں جاننا چاہتا ہوں کہ اللہ تبارک وتعالی نے جو جنت اور دوزخ بنائی ہے اس میں جانے والے لوگ کون ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ والیہ وسلم نے فرمایا تم ایسا کرو کہ صبح فجر کی نماز سے قبل اپنے علاقے کی مسجد سے تھوڑی دور جاکر بیٹھ جانا اور دیکھنا جو شخص سب سے پہلے مسجد میں داخل ہو گا وہ جنتی ہوگا وہ شخص صبح ہی صبح فجر کی نماز سے قبل جاکر بیٹھ گیا اب اس نے دیکھا کہ ایک بوڑھا شخص آیا اس نے مسجد کا دروزہ کھولا مسجد کی صفائی کی جھاڑو لگائی دریاں بچھائی آذان دی اور یوں مقررہ وقت پر فجر کی نماز ادا کرکے واپس چلا گیا اب وہ شخص حضور صلی اللہ علیہ والیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور سارا واقعہ بتانے کے بعد اس نے پوچھا کہ اب یہ بتائیں کہ دوزخی کون ہوگا تو آپ صلی اللہ علیہ والیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اب تم نے کل صبح بھی اسی طرح کرناہے کل جو سب سے پہلے مسجد میں آئے گا وہ دوزخی ہوگا گویا اس شخص نے اگلی صبح پھر اسی طرح جاکر بیٹھ گیا لیکن اس وقت اسکی حیرت کی انتہا نہ رہی جب اس نے اسی بوڑھے شخص کو آتے ہوئے دیکھا اور اس بوڑھے شخص نے سب کچھ وہی عمل دہرایا جو اس نے پچھلے دن کیا تھا حیرت اور پریشانی کے عالم میں وہ شخص سرکار صلی اللہ علیہ والیہ وسلم کے پاس پہنچا سارا ماجرہ سنانے کے بعد عرض کیا کہ یہ کیسے ممکن ہوا کہ جنتی بھی وہی اور دوزخی بھی وہی تو آپ صلی اللہ علیہ والیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ دراصل پہلے دن اس کا سارا عمل صرف اللہ تبارک وتعالی کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے کے لئے تھا جبکہ دوسرے دن اسے یہ گمان ہوگیا تھا کہ اسے کوئی شخص دیکھ رہا ہے لہذہ اس کی توجہ رب العزت کی ذات سے ہٹ کر اس شخص پر پڑگئی اور اس نے جو کچھ کیا وہ دوسرے کو دکھانے کے لئے کیا جس پر اللہ تبارک وتعالی نے اس کے سارے پچھلے نیک اعمال جو اس نے کئے وہ تباہ کرکے اسے جہنم کا حقدار قرار دے دیا اور اس کے کئے ہوئے سارے نیک اعمال برباد ہوگئے

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں آپ اندازا لگائیں کہ اگر آپ کتنے ہی نیکوکار اور پرہیزگار ہوں لیکن عاجزی اور انکساری کا دامن اپنے ہاتھ سے نہ چھوڑیں کیوں کہ جب انسان اللہ تبارک وتعالی کی طرف رجوع کرتا ہے تو شیطان پھر اس پر اپنا خطرناک وار کرتا ہے اور اسے سنبھلنے کا موقع ہی نہیں دیتا اسی لئے کہا جاتا ہے کہ بروز محشر حافظ قران اور علماء دین کا حساب بڑا سخت ہوگا کیوں کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ تبارک وتعالی نے اپنے قران اور احادیث کا علم دیا تو اس میں انہوں نے خیانت تو نہیں کی غرور ، تکبر ، دکھاوے یا ریاکاری جیسے گناہوں میں تو مبتلہ نہیں ہوئے کہ شیطان ان پر زیادہ طاقت سے اپنا وار کرتا ہے ایک دفعہ حضرت موسی علیہ السلام نے شیطان مردود سے پوچھا کہ وہ کونسا عمل ہے جسے کرنے سے تو انسان پر غالب آجاتا ہے تو شیطان مردود نے کہا کہ انسان کو قابو کرنےکے لئے مجھے زیادہ محنت نہیں کرنی پڑتی خاص طور پر کسی عالم یا حافظ قران کو یا نیکوکار اور عابد شخص کو تو حضرت موسی علیہ السلام نے پوچھا وہ کیسے تو اس مردود نے کہا میں اس کو تکبر اور غرور میں مبتلہ کردیتا ہوں ان کے دلوں میں یہ بات ڈال دیتا ہوں کہ اگر وہ کوئی عالم دین ہے تو اس کو اس غرور میں مبتلہ کردیتا ہوں کہ اس سے اچھا عالم کوئی نہیں ہے پھر وہ اپنے آپ کو سب بڑا عالم تصور کرلیتا ہے پھر وہ اپنا علم اللہ تبارک وتعالی کے دین کے لئے نہیں بلکہ دنیا کو دکھانے کے لئے استعمال کرنا شروع کردیتا ہے اللہ تبارک و تعالی ایسے عالم دین کا علم سلب کرلیتا ہے اور پھر اس کا انجام بھی برا ہوتا ہے اور میں خوش ہوتا ہوں ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں ہم جس دور سے گزر رہے ہیں یہاں دکھاوا اور ریاکاری بہت زیادہ ہے ہمارے یہاں بڑے ہوں بچے ہوں یا عورتیں یہ بیماری سب میں پائی جاتی ہے اگر کسی بڑے گھر کا بچہ ہو اور اس کے پاس کوئی قیمتی گاڑی یا کھلونا ہے تو وہ اپنے دوستوں کو بڑی مغروری کے ساتھ دکھاتا ہے یا پھر اس کے اندر ریاکاری کا عنصر غالب آجاتا ہے بلکل اس طرح جیسے ہماری عورتیں شادی بیاہ کے موقع پر ہزاروں کے ڈریس اور لاکھوں کی جیولری پہن کر متوسط عورتوں کو دکھانے کے لئے ریاکاری کا سبب بنتی ہیں ایک وہ وقت تھا جب گھر میں ایک کمانے والا تھا اور کئی کھانے والے لیکن اس میں بھی برکت رہتی تھی جبکہ آج ایک شخص دو یا تین کام کرتا ہے تب بھی پورا نہیں ہوتا جبکہ کھانے والے بھی کم ہیں اس لئے کہ اب وہ برکت والی بات نہیں رہی اللہ تبارک وتعالی ہمیں ریاکاری جیسی خطرناک بیماری سے محفوظ رکھے اور صبر و شکر کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں دنیاوی کام کریں تو دل سے اور سچائی سے کریں جس میں دکھاوےکا ایک فیصد عنصر بھی نہ ہو اور نیکی کریں تو اس عاجزی اور انکساری کے ساتھ جیسے صرف اور خالص اللہ رب العزت کے لئے کر رہے ہیں اسی میں ہماری بچت بھی ہے اور آخرت میں نجات بھی ۔اللہ تبارک وتعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ریاکاری جیسی خطرناک بیماری سے محفوظ رکھے اور ہمیں صرف اور صرف عجز و انکساری کے ساتھ اپنی رضا کی خاطر ہر کام کرنے کی توفیق عطا کرے آمین آمین بجاہ النبی الکریم
صلی اللہ علیہ والیہ وسلم
 

محمد یوسف راہی
About the Author: محمد یوسف راہی Read More Articles by محمد یوسف راہی: 112 Articles with 76906 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.