اس کا صرف نام ہی نہیں زندگی بھی معجزہ ہے٬ ملبے تلے پیدا ہونے والی بچی کو درجنوں افراد گود لینے کے لیے تیار لیکن ڈاکٹر نے انکار کیوں کردیا؟

image
 
شمال مغربی شام میں پیر کو آنے والے زلزلے کے بعد ایک منہدم عمارت کے ملبے تلے پیدا ہونے والی بچی کو گود لینے کی درجنوں افراد نے آفر کی ہے۔
 
جب انھیں ریسکیو کیا گیا تھا تو وہ اپنی والدہ کے ساتھ نال کے ذریعے جڑی ہوئی تھیں۔ اس بچی کا نام آیا رکھا گیا جس کا مطلب عربی میں معجزہ ہوتا ہے۔
 
بچی کے والد، چار بہن بھائی اور ایک خالہ بھی زلزلے میں ہلاک ہو گئے ہیں۔ اس خاندان کا تعلق جندیرس سے تھا۔ آیا اس وقت بھی ہسپتال میں داخل ہیں۔
 
ڈاکٹر حانی معروف ہسپتال میں ان کی دیکھ بھال کر رہی ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ’جب یہ پیر کو ہمارے پاس آئیں تو ان کی حالت خراب تھی، انھیں چوٹیں اور خراشیں آئی تھیں، ان کا درجہ حرارت بہت کم تھا اور یہ بمشکل سانس لے رہی تھیں‘ تاہم اب آیا کی طبیعت سنبھل گئی ہے۔
 
آیا کو ریسکیو کیے جانے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی تھیں۔ فوٹیج میں ایک شخص کو شخص کو تباہ شدہ عمارت کے ملبے سے دوڑتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے اور ان کے ہاتھ میں ایک گرد سے اٹی ہوئی نوزائیدہ بچی ہے۔
 
خلیل السوادی جو بچی کے دور پرے کے رشتہ دار ہیں نے اس بچی کو شام کے شہر آفرین میں ڈاکٹر معروف تک پہنچایا تھا۔ سوشل میڈیا پر ہزاروں افراد نے اس بچی کو گود لینے کے لیے ان کا پتہ پوچھا ہے۔
 
ایک شخص نے کہا کہ ’میں اسے گود لینا چاہتا ہوں اور انھیں ایک اچھی زندگی دینا چاہتا ہوں۔‘
 
ایک کویتی ٹی وی اینکر کا کہنا تھا کہ ’میں اس بچی کی دیکھ بھال کرنے اور انھیں گود لینے کے لیے تیار ہوں۔۔۔ اگر قانون مجھے اس کی اجازت دیتا ہے تو۔‘
 
ہسپتال کے مینیجر خالد عطیہ نے بتایا ہے کہ اب تک انھیں دنیا بھر سے درجنوں افراد کی کالز آ چکی ہیں جو آیا کہ گود لینا چاہتے ہیں۔
 
ڈاکٹر خالد جن کی اپنی بیٹی آیا سے صرف چار ماہ بڑی ہے کا کہنا ہے کہ ’ہم کسی کو بھی اسے گود لینے کی اجازت اس وقت تک نہیں دے سکتے جب تک ان کے دور پرے کے رشتہ دار یہاں نہ آ جائیں۔ تب تک میرے ہیں اس کی دیکھ بھال میرے بچوں کی طرح کر ہی کی جائے گی۔‘
 
image
 
جندیرس میں آیا کے اپنے گھر کی عمارت میں لوگ تاحال اپنے پیاروں کو ڈھونڈ رہے ہیں۔
 
وہاں موجود ایک صحافی محمد ال عدنان نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہاں صورتحال بہت خراب ہے۔ اس وقت ملبے تلے اتنے زیادہ افراد موجود ہیں۔ ایسے متعدد افراد ہیں جو ہم نکالنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔‘
 
انھوں نے بتایا کہ قصبے کا زیادہ تر حصہ تباہ ہو چکا ہے اور اس دوران زیادہ تر امداد مقامی لوگوں کی طرف سے آئی ہے۔
 
وائٹ ہیلمٹس تنظیم جو لوگوں کو ملبے کے نیچے سے نکالنے میں مہارت رکھتے ہیں اس کام میں اس وقت بھی جندیرس قصبے میں پیش پیش ہیں۔
 
وائٹ ہیلمٹس سے منسلک کارکن محمد الکامل نے بتایا کہ ’ریسکیو کرنے والے بھی کبھی کبھار متاثر ہو جاتے ہیں کیونکہ یہ عمارتیں بہت غیر مستحکم ہوتی ہیں۔
 
وہ کہتے ہیں کہ ’ہم نے ابھی کچھ دیر قبل تین لاشیں اس ملبے سے نکالی ہیں لیکن ہمارا خیال ہے کہ اب بھی ایک فیملی ملبے تلے زندہ ہے، ہم کام جاری رکھیں گے۔‘
 
شام میں زلزلے کے بعد سے تین ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ اس تعداد میں وہ لوگ شامل نہیں ہیں جو ملک کے ان حصوں میں رہتے ہیں جہاں اس وقت حکومت مخالف گروہوں کا قبضہ ہے۔
 
Partner Content: BBC Urdu
YOU MAY ALSO LIKE: