شہید مسجد کی آپ یتی

جب مسجدیں ویران ہوں تو گھر کیسے آباد ہوسکتے۔جب اللہ کے گھر کی حفاظت ہمنہیں کریں گے ےو اللہ ہمارے گھر کی حفاظت کیوں کرے۔ج ہم آسانی میں اللہ کو نہیں پکارتے تو مشکل میں آسانی کیسے مانگ لیتے ہیں۔جس اللہ کو خوشیوں میں بھول جاتے ہیں دکھ میں شکوے کیوں کرتے ہیں۔


اِنَّمَا یَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ اَقَامَ الصَّلٰوةَ وَ اٰتَى الزَّكٰوةَ وَ لَمْ یَخْشَ اِلَّا اللّٰهَ فَعَسٰۤى اُولٰٓىٕكَ اَنْ یَّكُوْنُوْا مِنَ الْمُهْتَدِیْنَ(۱۸)
ترجمہ: کنزالعرفان
اللہ کی مسجدوں کو وہی آباد کرتے ہیں جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان لاتے ہیں اور نما ز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے تو عنقریب یہ لوگ ہدایت والوں میں سے ہوں گے۔

مسجد فیضِ جنت کے حقائِق
جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں چند سال پہلے میں نے اپنے قلم سے عورتوں کے جائز اور شرعی حقوق کے لئے اور ان پر ہونے والے ظلم اور نا حق قتل کے خلاف آواز اٹھائی۔ اس سوچ کے ساتھ کہ شاید ان معصوم اور کمزور عورتوں کا درد میں اپنے قلم کے ذریعے معاشرے کے سامنے رکھ سکوں ۔میں نا تو کوئی مصنف تھی اور نا ہی اد ب سے کوئی تعلق بس ایک درد تھا جو میں محسوس کرتی تھی اور اس درد کو میں آپ لوگوں کے ساتھ بانٹنا چاہتی تھی ۔میرا پہلا آرٹیکل "کیا بانجھ صرف عورت ہی ہوتی ہے"اور دوسرا " میرے قلم میں تمہارا لہو بولے گا" بہت اچھے ویوز آئے اور اس طرح ہماری ویب نے مجھے فیچرڈ رائٹر کا خطا ب دے دیا ۔یہ میرے لئے حیران کن بات تھی لیکن الحمد للّٰہ میں مصنف کہلائی۔اس کے بعد مجھ میں کچھ اور ہمت پیدا ہوئی اور میں نے ایک گاؤں اور قبیلے کی کاروکاری پر قتل ہوئی لڑکی کی سچی داستان پر مبنی ناول"میرا فیصلہ قرآن کرے گا" لکھا جس کا شمار الحمدلِلّٰہ سب سے ذیادہ پڑھی جانے والی آن لائِن تحریروں میں ہوا۔گو کہ یہ میرا پہلا ناول تھا اور مجھے تو ناول کی الف بے بھی معلوم نہیں تھی لیکن اللہ کی مدد تھی جس نے حق اور سچ کی بات میں اثر رکھا ہے۔ بہت ہی حیران کن بات ہوئی اس ناول کو لکھنے سے پہلے میں ان تمام مردوں سے جو عورتوں پر ظلم کرتے ہیں اور کاروکاری کی رسم اور سرداروں کے فیصلے سے سخت نفرت کرتی تھی اور بے تہاشا میرے اندر ان کے لئے غصّہ تھا لیکن جوں جوں میں ناول لکھتی گئی ساری گتھی سلجھتی گئی اور میں اس نتیجے پر پہنچی کہ قلم کی آواز تو پڑھے لکھے معاشرے تک پہنچےگی لیکن وہ معاشرہ جہاں "کارو کاری" یعنی عزت کے نام پر قتل عام ہوتا ہے وہاں کیا ہوگا؟ جب کہ ضرورت تو اس بات کی ہے کہ ان کو صحیح اور غلط کا بتایا جائے ۔وہ تو قتل کرکے سوچتے ہیں جنت اب ان پر واجب ہوگئی ان کی ان سوچوں میں حق کی آواز ،قرآن کی آواز یعنی اللہ کے حکم اور پیغام کو پہنچایا جائے بجائے اس کے کہ ان سے نفرت کی جائے۔اس سوچ کے ساتھ گاؤں جا کر اپنے تھوڑے بہت علم کے ذریعے ان کو سمجھانے کی کوشش کرتی ہوں۔چند ماہ پہلے میرا ایک گاؤں جانے کا اتفاق ہوا ۔مجھے بتا یا گیا کہ اس ہفتے ایک لڑکی کا قتل ہونے والا ہے جس نے والدین کی پسند کی شادی سے انکار کردیا ہے اور گھر سے بھاگ گئی ہے ۔میں اس لڑکی کی نانی سے ملی جو کہ خاندان کی بزرگ تھیں اور ان کے حکم سے لڑکی کو قتل کیا جا رہا تھا ۔شروع میں تو وہ خاتون میری بات سننے کے لئے تیار نہیں تھی اس کے مطابق قتل نا کرنے پر اللہ اس سے ناراض ہوگا لیکن بڑی مشکل سے میں نے اس کو سمجھایا اور اللہ اور اس کے رسول کے حوالے دے کر سمجھایا تو وہ سمجھ گئی اور اللہ کے حکم سے اس لڑکی کی جان بچ گئی اور یقین جانیں مجھے اتنی خوشی زندگی بھر میں کبھی نہیں ہوئی اور مجھے یہ بات بھی سمجھ میں آگئی کہ ان لوگوں کا اصل مسئلہ لا علمی ہے یا پھر غلط علمی اور اس کا حل صرف اصل علم ہے ۔اس کے ساتھ ہی مجھے اس مسجد کا خیال آیا جہاں میں گرمیوں کی چھٹیاں منانے جب گاؤں آتی تھی تو سپارہ پڑھنے جایا کرتی تھی ۔ہرے بھرے کھیتوں اور آم کے باغات سے ہوتی ہوئی جب میں اس مقام پر پہنچی تو وہاں مسجد کی جگہ ایک کچی مٹی کی ڈھیری تھی ۔مسجد 2022 میں آنے والی طوفانی بارش اور سیلاب کے دوران شہید ہوچکی تھی ۔مجھے بہت افسوس ہوا یوں لگا جیسے مسجد کی کچی مٹی مجھ سے کہہ رہی ہو ایک انسان کی جان بچا کر آئی ہو تو خوش ہو میرے بارے میں سوچتی تو کتنی جانیں بچ جاتیں ۔اس کے ساتھ ہی ایک بری خبر مجھے سنائی گئی کہ اس زمین پر اب کھیت بنا یا جائے گا ۔میں نے 14 سال قبل سی پیک اور انٹرچینج بننے سے پہلے یہاں کچھ زمین لی تھی اور میرے یہاں آنے کا ایک اور مقصد اسے بیچنا بھی تھا ۔لیکن مسجد کی شہادت نے مجھے بہت دکھی کردیا تھا ۔گاؤں کے اردگرد بھی کوئی مسجد نہ تھی اور گاؤں والے ابھی سیلاب کی تباہ کاریوں سے ہی نہیں سنبھل پائے تھے اور ویسے بھی ان کو اس کی اہمیت کی اتنی سمجھ نہیں تھی تو بھلا وہ اس کی تعمیر کا کیا سوچتے۔تمام واقعات کی روشنی میں میرے دل نے گواہی دی کہ اللہ چاہتا ہے میں اپنی زمین مسجد کے لئے وقف کروں سو میں نے نیت کرلی ۔ایک ایسی مسجد کے قیام کا فیصلہ کیا جہاں کوئی فرقہ نہیں ہوگا۔خالص اللہ کا پیغام اس گاؤں کے لوگوں تک پہنچایا جائے۔ان کی تربیت کی جائے ۔عورتوں کا قتل ثواب نہیں بلکہ گناہ ہے سمجھایا جائے۔اور پھر میرے زہن میں وہ حدیث بھی آئی جس میں ان لوگوں کے لئے جنت کی بشارت ہے جو مسجد تعمیر کرتے ہیں یا اس کی تعمیر میں حصہ ڈالتے ہیں۔میری آپ سب سے گزارش ہے "مسجد فیضِ جنت "بنانے میں میرا ساتھ دیں ۔اپنا حصہ ڈالیں چاہے ایک اینٹ کا ہی ہو ۔اور ایسے تمام گاؤں جہاں مسجدیں آباد کرنے کی ضرورت ہے اپنا حصّہ ضرور ڈالیں۔دعا ہے اللہ آپ کو جنت میں گھر دے ۔آمین

شہید مسجد کی آپ بیتی:-
اے صاحبِ حیثیت ! اللہ سے ڈرنے والے لوگو ! میں ایک ڈیڑھ سو سالہ پرانی ، کچّی مٹّی سے بنی مسجد تھی جسے ایک بلوچ قبیلے کے نیک دل سردار نے اس جگہ آباد ہونے کے بعد تعمیر کیا اور آباد کیا ۔ میرے اردگرد لہلاتے سبز کھیت تھے اور قریب ایک نہر جس کے دونوں کناروں کے گرد پیپل ،برگد ،کیکر کے گھنے درخت پردوں کی مانند تھے۔ ہوا ان کے پتوں سے ٹکرا کر نہر کی ٹھنڈک کو اپنے اندر بھر کر میرے وجود کے گرد آکرتسبیح کرتی ،اور میرے صحن کی چھڑکاؤکی ہوئی مٹّی کی خوشبو کو لے کر ان نمازیوں سے ٹکراتی جو اس قبیلے کی عورتوں کی ہاتھ سے بنائی گئی اور خوصورت رنگوں میں رنگی گئی صفوں پر سجدہ زیر ہوتے۔ان کے دل اللہ کے ڈر اور محبت سے مخمور تھے ۔میرے دائیں طرف ایک پرانا راہٹ کنواں تھا جس کے گرد گھومتے راہٹ بیلوں کا جوڑا انکھوں پر پٹی بندھے گھومتا رہتا اور اس ٹھنڈے میٹھے پانی سے جہاں گاؤں والے اور کھیت سیراب ہوتے وہاں نمازیوں کے وضو کا بھی انتظام تھا۔ میرے کچے آنگن میں رحل میں رکھے سپاروں کو اونچی آواز سے ہل ہل کر پڑھتے اور ایک آواز میں کلمہ پڑھتی کتنی معصوم آوازیں اس بستی میں گونج جاتیں۔استاد جی ایک سفید داڑھی والے بزرگ تھے جن کے پاس اتنا علم تو نا تھا لیکن اللہ کا ڈر اور خلوص بہت تھا اور وہی محبت وہ ہر اس شخص کی روح میں بھی ڈال دیتے جو میری چوکھٹ پہ آتا۔زمینوں کے جھگڑے ہوتے یا رشتوں کے مسا ئل۔کسی کی مدد کا معاملہ ہوتا یا کسی کے حق کی بات سب حل اور فیصلے میرے آنگن میں ہوتے ۔اللہ کو گواہ بنایا جاتا ۔اللہ بھی سب سے خوش تھا۔یہ گاؤں اللہ کی نعمتوں سے مالا مال تھا۔ میٹھے مزیدار آم،سونے جیسی گندم اور چاندی جیسے چمکدار چاول اور شہد جیسے میٹھے گنے اس گاؤں کی پہچان تھے ۔نیک دل ،بہادر سردار کا قبیلہ اردگرد کے گاؤں میں نیک نامی میں مشہور تھا ۔ میں اس کچی مٹی سے بنائے گئے گھروں کی بستی سے بہت خوش تھی۔پھر اچانک سب بدل گیا سردار اور استاد جی کی موت نے میرے وجود کی اہمیت کو کم کردیا ۔زمینوں کے جھگڑوں کے فیصلے میرے کچے آنگن کی بجائے عدالت کے کمروں میں یا وڈیروں کے ڈیروں پر ہونے لگ گئے۔چھوٹی چھوٹی باتوں حتٰی کہ پانی کی باری پر بھی لڑائی کا اختتام قتل پر ہوتا ۔عورتوں کو ذرا سے شبے پر یا شادی سے انکار پر کالی کہہ کر مار دیا جانے لگا اس سے ان کی پگ کی منزل بھی بڑھ جاتی اور عزت دار کا خطاب بھی مل رہا تھا ۔میرا کچا وجود ،ویران اور تنہا ہوتا جا رہا تھا ۔ ہائے افسوس ! میرا ساتھی راہٹ کنواں بھی اب نہیں رہا تھا ۔۔ آہ!گاؤں میں بجلی آنے سے پہلے میں رات کو بھی دیے سے روشن رکھی جاتی مگر اب گھپ اندھیرا میرا مقدر ہوا۔میرا پھیلا صحن بھی اب چند گز کا ہوگیا ۔میری کچی دیواریں بھی ٹوٹ گئیں ۔امام مسجد نا ہونے کی وجہ سے بچے اب سپارہ پڑھنے اس نابینا حافظ قرآن بوڑھی عورت کے پاس جاتے جس نے بچپن میں میرے کچے آنگن میں قرآن پڑھا تھا۔۔میرا ویران بوڑھا کچا وجود دن بدن دکھ سے گھلتا جا رہا تھا۔۔ صد افسوس ! صفیلوں پر موجود قرآنوں کے غلاف بھی میلے ہوچکے تھے۔اب میرا ساتھی ایک مؤذن مرغا اور ایک نابینا تھا اور چند لاٹھی اور کم دِکھتی آنکھوں والے سفید بالوں والے پرانے لوگ یا پھر کوئی پیاسا ،بھٹکا مسافر جو خالی گھڑوں کو بھر جاتا۔ہاں کبھی کبھار کوئی آنسو بہاتا گنہگار رات کے اندھیرے میں آکر سب گناہ دھو جاتا اور میں میں بھی اس کے ساتھ سے خوش ہوتی اور اس کی مغفرت کی دعا کرتی ۔کوئی مظلوم طاقتور سے مار کھا کر میری چوکھٹ پر اللہ کو پکارتا تھا ۔کبھی کبھار ناحق قتل ہوئی بیٹی کی ماں سر پر خاک ڈالے دہایاں دیتی آجاتی اور کہتی"میڈا فیصلہ قرآن کریسے" لیکن اسے کون سمجھاتا کہ اب یہاں نا وہ قرآن پڑھنے والے ہیں نا سمجھنے والے اور نا ہی ڈرنے والے لیکن پھر وہ اس مسجد کو اللہ کی عدالت سمجھتی ،دہایاں دیتی تو میرا کچا وجود دکھ سے اور بھی کچا ہوجاتا۔ظلم وستم کا دور دورہ تھا کہ وہ واقعہ ہوا جیسے واقعات کا قرآن میں بھی ذکر ہے اچانک نہر سوکھ گئی ۔ٹیوب ویل اور ہینڈپمپس نے زیرِزمین پانی سوکھنے کی نوید سنا دی۔دوبارہ بورنگ کے باوجود یا تو پانی نہیں آ رہا تھا اور اگر کہیں آ بھی رہا تھا تو پیلا اور زہریلا اور اللہ کی قدرت دیکھیں میرے پرانے ہینڈپمپ میں میٹھا پانی آ رہا تھا۔ہرے بھرے کھیت بنجر ہورہے تھے۔درختوں پر لگے آم بڑے ہونے سے پہلے ہی سوکھ رہے تھے۔جانوروں میں ایک بیماری لمپی اسکن آ چکی تھی جس سے دودھ دینے والے جانوروں کا دودھ سوکھ گیا ۔ان کے جسم پر دانے نمودار ہوتے اور چند دنوں میں جانور کمزور ہوکر مر جاتے ۔ بچے دودھ کی کمی سے کمزور ہورہے تھے ۔گاؤں والے بارش کی دعائیں مانگ رہے تھے ہر طرح کے ٹونے ٹوٹکے کئے جا رہے تھے ۔مزاروں پر منتیں مانی جا رہی تھیں۔چڑھاوے چڑھائے جا رہے تھے ۔لوگ گڑگڑا کر دعائیں مانگ رہے تھے۔میرے کچے آنگن کو بھی رونق بخشی گئی ۔پھرآخر بادل برسے تو وہ خوشی سے نہال تھے بلکل قومِ نوح کی طرح ۔۔لیکن لگاتار بارشوں نے سیلابی صورت اختیار کرلی تھی ۔۔گاؤں کے لوگ پہلے ٖفخر سے کہتے " ہر سال نہر اور دریا کے اس پار سیلا ب آتا ہے لیکن ہمارے گاؤں میں کبھی سیلاب نہیں آیا کیونکہ ہم اللہ کے پیارے ہیں"۔اور اب اللہ کے یہی پیارے جو اللہ کو بھول چکے تھے رو رہے تھے ۔ہر طرف پانی ہی پانی تھا ۔ 2022 کے اس سیلاب سےاردگرد کے گاؤں اور کئی گاؤں والے اپنے مویشیوں سمیت ہی بہہ گئے۔اس گاؤں میں کوئی ایسا نقصان نہیں ہوا تھا لیکن بہت سے گھر وں ،کھیتوں اور جانوروں کا نقصان ہوا ۔میں اور مجھ جیسے کچے گھر تو مکمل برباد ہوگئے۔کچی مٹی کی اینٹیں کچی ہوکر کچی مٹی پر آگریں ۔گاؤں والوں نے رودھو کر اپنے گھر دوبارہ آباد کرنا شروع ہوگئے ۔میرے وجود کی کچی مٹی میں بھی امید بنی کہ ضرور ا ب یہ مجھے بھی بنائیں گے لیکن میری کچی گیلی مٹی سے زمین نکل گئی جب چند معتبر لوگ میری کچی ڈھیری پر کھڑے کہہ رہے تھے"گاؤں والے تو اپنی تباہی اور مہنگائی سے اتنے پریشان ہیں ۔جانور مر گئے ہیں ۔بیج سر نہیں اٹھا رہے۔ان کو خود کھانے کے لالے پڑے ہیں بھلا مسجد کے لئے چندہ کہاں سے کریں ۔جب چندہ نہیں آتا اس جگہ کو کھیت بنا لیا جائے"۔ مجھے اپنی فکر نہیں فکر ہے تو اس مرغےکی۔نابینا مؤذن کی،سفید بالوں اور بوڑھی لاٹھی والے بزرگ کی،پیاسے ،راہ سے بھٹکے مسافر کی،رات کے پہر آنسو بہاتے گنہگار کی،سر پر راکھ ڈالے اس قتل ہوئی لڑکی کی ماں کی ۔ان تمام مظلوم آنکھوں سے بہنے والے آنسوؤں کی جو اس چوکھٹ پر آکر اللہ کو اپنا غم سناتے تھے اور اس امید کے ساتھ لوٹ جاتے تھے کہ ان کا فیصلہ جلد ہی اللہ کردے گا۔ کاش کوئی رحم دِل !عورتوں کے حق میں بولنے والا!اس جہالت کو مٹانے والا !مجھے آباد کرتا۔کاش! اے کاش!
اے صاحبِ حیثیت ! اللہ سے ڈرنے والو ! میری مدد کرو ! میرا نام "مسجد فیضِ جنت " یعنی اللہ کا وہ گھر جسے تعمیر اور آباد کرنے والے کو جنت کا فیض حاصل ہو۔ میری اور میرے جیسی اور شہید مسجدوں کی تعمیر میں حصّہ ڈالو ! چاہے ایک اینٹ کا ہی ہو۔میں تمہیں جنت میں گھر کی بشارت دیتی ہوں کہ اللہ اور اس کے رسول نے بھی بشارت دی ہے ان سب کو جو مسجدوں کو بناتے ہیں اور اس کے بنانے میں حصہ لیتے ہیں۔میری دعا ہے کہ ہر اس شخص کو جس نے میری تعمیر میں ایک اینٹ کا بھی حصہ ڈالا اللہ اسے جنت میں ہیروں اور زمرد کی اینٹوں والا گھر عطا کرے ۔آمین
مسجد تعمیر کے فضائل:۔
1۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : جس شخص نے اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لئے مسجد بنائی، اللہ تعالیٰ اس کا گھر جنت میں بنائے گا۔ یہ حدیث متفق علیہ ہے اور مذکورہ الفاظ مسلم کے ہیں۔
2-حضرت انس رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس نے اللہ تعالیٰ (کی رضا) کے لیے چھوٹی یا بڑی مسجد بنائی اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں گھر بنائے گا۔
اس حدیث کو امام ترمذی اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔
3-حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے مسجد بنائے گا، اگرچہ چیل کے گھونسلے کے برابر ہی کیوں نہ ہو یا اس سے بھی چھوٹی ہو، اللہ تعالیٰ اس کا گھر جنت میں بنائے گا۔
اس حدیث کو امام ابن ماجہ اور ابن خزیمہ نے روایت کیا ہے۔
عطیات کے لئیے رابطہ کریں:-
فون نمبر:- 03045060385
ای میل :- [email protected]
انسٹاگرام :-azra_binte_jannat

 

azra faiz
About the Author: azra faiz Read More Articles by azra faiz: 47 Articles with 93237 views I am fond of writing stories, poetry, reading books.
I love to help and motivate the people who are for some reason helpless. I want to raise the vo
.. View More