انسانی زندگی جس قدر اعتقادی و
نظریاتی فسادات کاشکار ہوسکتی ہے رب العالمین میں ان سب کا علاج مضمر ہے۔
انسانی زندگی میں فساد کی جتنی صورتیں بھی نظرآتی ہیں اگران کا بنظر غائر
جائزہ لیا جائے تووہ بالواسطہ یا بلاواسطہ مندرجہ ذیل اسباب میں سے کسی نہ
کسی ایک پر ضرور مبنی ہوتی ہیں :
1۔ وجود باری تعالٰی کا انکارانسانی زندگی میں فساد کے اسباب میں سے سب سے
اہم صورت یہ ہے کہ بندہ حق بندگی بجا لانے کی بجائے سرے سے اس کائنات اور
اس کے نظام کو بغیر کسی خالق و مالک کے ماننے لگ جائے اوراسے نقطہء زندگی
کے اتفاقی آغاز کا مظہر قرار دیتا پھرے۔
2۔ خود کو خالق کائنات سے بے نیاز و مستغنی سمجھنادوسری صورت یہ ہے کہ اﷲ
تعالٰی کو محض خالق تسلیم کرنے کے بعد اس کائناتی زندگی کے بقاء و فروغ کے
نظام میں اس کے عمل دخل اور تصرف کی بناء پر انکارکیا جائے کہ اب یہ عالم
فقط اسباب و علل (Causes & effects) کے نظام کے تحت آزادانہ طور پر قائم ہے
اوراسی صورت میں چل رہا ہے۔ اس میں کسی مستقل بالذات، واجب الوجود، قادر
مطلق اور موثر حقیقی طاقت کا کوئی ارادہ، تدبیر اور تصرف کار فرما نہیں ہے۔
گویا معاذ اﷲ! اﷲ تعالٰی ہمیں تخلیق کرنے کے بعد ہمارے معاملات سے بے دخل
اور لاتعلق ہوگیا ہے اورہمیں اس کی ہرگز حاجت نہیں۔ چنانچہ اس تصور سے
انسان خود کو اﷲ تعالٰی کے سامنے جوابدہی سے آزاد سمجھنے لگتا ہے۔
3۔ باری تعالٰی کی ذات و صفات یا افعال میں شرکاﷲ تعالٰی کی شان خلاقیت و
ملوکیت پر اعتقاد رکھنے کے ساتھ ساتھ یہ خیال رکھاجائے کہ اس کی ذات، صفات
یا افعال میں کچھ اور افراد یا اشیاء شریک ہیں۔ اس بنا پر وہ بھی مستحق
عبادت وبندگی ہیں اور ان کا حکم و تصرف بھی خالق و مالک ہی کی طرح کائنات
میں موجود اور موثر ہے۔
4۔ اﷲ تعالٰی کو محض کسی ایک آدھ صفت کامظہر قرار دینایہ خیال رکھنا کہ
باری تعالٰی فقط قہر و غضب اور عذاب وعقاب کی صفات سے مختص ہے۔ اس سے
انسانی ذہن اور اعتقاد مایوسی و محرومی کا آئینہ دار ہوجاتا ہے۔ یا یہ خیال
رکھنا کہ وہ فقط بخشش و مغفرت اور رحمت ومحبت کی صفات سے مختص ہے۔ اس سے
انسانی زندگی، احکام و اوامر کی گرفت سے آزادی کی طرف مائل ہوجاتی ہے۔
الغرض اسی قسم کے محدود اور یک جہتی تصورات کو اﷲ تعالٰی کی طرف منسوب کرنا
بھی انسانی زندگی میں کئی فسادات کا موجب ہوتا ہے۔
5۔ وجود و ضرورتِ رسالت کا انکاراﷲ رب العزت کے وجود اور وحدانیت کا اقرار
کرنے کے باوجود نبوت و رسالت کی ضرورت اور کائنات میں اس کے وجود کا انکار
کیا جائے اور زندگی کے لیے نبوت و رسالت کے ذریعہ حاصل ہونے والی ہدایت
ربانی کو ناگزیر اور نتیجہ خیز تصور نہ کیا جائے۔
6۔ بعض انبیاء و رسل کا انکارنظام رسالت کو اصولی طور پر مان کر بعض انبیاء
و رسل کوبوجوہ تسلیم نہ کرنا جیساکہ یہود و نصاریٰ نے حضور نبی کریم صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کا انکار کردیا۔
7۔ آخرت کا انکارانعقاد قیامت اور نظام جزا و سزا کا انکار کیا جائے۔ جس
میں برزخی اور اخروی زندگی کے ساتھ ساتھ حیات بعدالموت کا انکار بھی شامل
ہے۔ اس کی جگہ یہ اعتقاد رکھا جائے کہ یہی زندگی ہی سب کچھ ہے اور اس کے
بعد کوئی زندگی نہیں جس میں یہاں کے معاملات کا حساب و کتاب ہوسکے۔
8۔ ربوبیت و رحمت الہیہ کو تحدیداس سے مراد نسلی، لسانی، علاقائی اور
طبقاتی فوقیت وبرتری اور تفاضل و تفاخر کے وہ سارے تصورات ہیں جو انسانی
مساوات اور شرف و تکریم آدمیت کے فطری اور آفاقی اصولوں کی نفی کرتے ہیں۔
یہ فساد فکر اس اعتقاد سے جنم لیتا ہے کہ اﷲ تعالٰی کی ربوبیت اور رحمت و
عنایت فقط ہمارے ساتھ خاص ہے اور دوسرے اس فیض سے محروم ہیں۔
کم و بیش فکر ونظر کے یہی بنیادی فسادات ہیں جو انسانی زندگی میں کبھی
فرعونیت، کبھی قارونیت، اور کبھی یزیدیت کا روپ دھارتے ہیں۔ کبھی ذلت و
پستی اور غلامی و رسوائی کی تباہ کن شکلوں میں نمودار ہوتے ہیں اور کبھی
زندگی کو اعتدال و توازن کی حسین شاہراہ سے ہٹاکر غیر حقیقت پسندانہ ڈگر پر
ڈال دیتے ہیں۔ اس کے لیے مذکورہ بالا اسباب ہی جملہ فسادات حیات کا سرچشمہ
ہیں۔
رب العالمین۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جملہ فسادات کا علاجان الفاظ نے نہ صرف مذکورہ بالا
تمام اعتقادی فسادات کی بیخ کنی کی ہے بلکہ دیگر انسانی مغالطوں کی بھی
اصلاح کردی ہے۔ یہ دو الفاظ پر مشتمل قرآنی اعلان، انسانی فکر و اعتقاد کے
علاج اور اصلاح کے لیے مندرجہ ذیل اشارات و تعلیمات پر مبنی پورا ضابطہ عطا
کر رہا ہے :
1۔ رب العالمین سے اس کائنات کے خالق و مالک کے وجود کا واضح ثبوت مل رہا
ہے۔ کائنات موجود ہے تو اسکا موجد بھی ہونا چاہیے کیونکہ موجود بغیر موجد
کے نہیں ہوسکتا۔ پرورش اور تربیت بغیر مربی کے ممکن نہیں اور نظام بغیر
منتظم کے نہیں چل سکتا۔ یہ کیونکر ممکن ہے کہ کائنات کے ہر وجود بلکہ خود
تمام کائناتوں کی جملہ ضرورتوں کی کفالت ہورہی ہو مگر کفیل کوئی نہ ہو۔
زندگی مسلسل ظہور میں آرہی ہو مگر زندگی دینے والا کوئی نہ ہو۔ اس قدر وسیع
سلسلہ ہائے کائنات اور لاتعداد مظاہر حیات کاوجود میں آنا، بقاء و فروغ کے
مراحل طے کرنا اورایک حسین نظم ونسق کے سلسلے کا قائم رہنا زبان حال سے
پکار کر کہہ رہا ہے کہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کوئی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسی کا صفاتی نام رب
العالمین ہے۔
2۔ رب العالمین سے پتہ چل رہا ہے کہ رب ایک ہے کیونکہ رب کے علاوہ جو کچھ
بھی ہے وہ العالمین میں شامل ہے، جو لفظ کا مضاف الیہ اور ذات رب کامربوب
ہے۔ جب ایک رب ہے اور باقی عالم تو اشتراک کا امکان کیونکر ممکن ہے۔ مضاف
الیہ کو مضاف کیسے سمجھا جائے مربوب کو مربی کیسے کہا جائے۔ زیر پرورش کو
پرورش کرنے والا کیسے بنایا جائے۔ مخلق و خالق، محتاج کو مستغنی، ممکن کو
واجب اور زیر کفالت کو کفیل کیسے سمجھ لیا جائے۔ امر واقعہ ہے کہ شرک کا
گمان ہی عقل کے نقصان یا فقدان پر دلالت کرتا ہے۔
العالمین کے سارے نظام جس نسق، ہم آہنگی اورحسن ترتیب سے چل رہے ہیں، ان
میں کوئی خلل ہے نہ ٹکراؤ، تضاد ہے نہ تصادم، یہ اس حقیقت کی نشاندہی کررہے
ہیں کہ ان کے پیچھے ایک موثر حقیقی کا ہاتھ ہے جو بلاشرکت غیرے، بغیر کسی
مخالفت و مزاحمت کے اپنے ارادہ و قدرت کو ہرجگہ ظاہر فرما رہے۔
نظم کائنات سے بھی رنگ وحدت ٹپک رہا ہے۔ قرآن یہی اعلان ان الفاظ میں کرتا
ہے :
لَوْ كَانَ فِيهِمَا آلِهَةٌ إِلَّا اللَّهُ لَفَسَدَتَا.
اگر ان دونوں (زمین و آسمان) میں اللہ کے سوا اور (بھی) معبود ہوتے تو یہ
دونوں تباہ ہوجاتے۔
(الانبياء، 21 : 22)
3۔ رب العالمین سے واضح ہو رہا ہے کہ العالمین کا کوئی وجود باری تعالٰی سے
بے نیاز و مستغنی نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ ربوبیت جو درجہ بدرجہ پرورش کرنے اور
کمال تک پہنچانے سے عبارت، ہے ایک ایسا نظام ہے جو ہمہ وقت از ابتداء تا
انتہا قائم رہتا ہے۔ اس کے تسلسل اور دوام سے وجود کا کوئی مرحلہ خالی نہیں
ہوسکتا۔ اس لیے جو خود کو کسی بھی لحاظ سے رب کا محتاج تصور نہیں کرتا اور
خود کو اس سے بے نیاز قرار دیتا ہے۔ وہ خود کو العالمین سے خارج قرار دے
رہا ہے اور یہ ممکن نہیں، العالمین سے کوئی شے بھی خارج نہیں ہوسکتی کیونکہ
اس کے سوا تو فقط رب کی ذات ہے اس لیے خود کو العالمین سے خارج تصور کرنا،
اپنے آپ کو رب کہنے کے سوا کوئی معنی نہیں رکھتا۔
اگر کاروبار حیات کے دوران انسان کا دھیان اسباب و علل کے نظام پر ہی ہوتو
معلوم ہونا چاہیے کہ نظام اسباب وعلل بھی ایک عالم ہے جو رب العالمین کے
وجود کی نشاندہی کرتا ہے۔ اس لیے کہ اسباب ہمیشہ مسبّب کا پتہ دیتے ہیں اور
نظام علل میں یہ ممکن نہیں کہ کوئی سب سے پہلی علت نہ ہو۔ وہ سب سے پہلی
علت جس سے سب علل وجود میں آئی ہیں، علت اولیٰ کہلاتی ہے۔ اولیٰ وہی ارادۂ
رب العالمین ہے جو امرکن فیکون کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے، وہی علۃ العلل
(Cause of the causes) ہے اور وہی غایۃ العلل (Ultimate cause) ہے۔ اس لئے
یہ سمجھنا غلط ہے کہ نظام اسباب و علل کے باعث ہم اﷲ تعالٰی سے بے نیاز
ہوگئے ہیں۔ بے نیاز فقط رب ہے، عالمین سارے محتاج ہیں اور اسباب وعلل کا
نظام بھی اسی کا تخلیق کردہ اور اسی سے قائم ہے۔
4۔ رب العالمین محض ایک آدھ صفت سے خاص نہیں ہوسکتا بلکہ وہ ہمہ صفتی رب
ہے۔ اس کی ربوبیت کل کائنات کے لیے ہے، جوہر شے کی، ہر ضرورت کی کفالت کی
ذمہ دار ہے۔ چونکہ موجودات عالم کی ضرورتیں بے شمار ہیں اس لئے رب العالمین
کی صفات بھی بے شمار ہیں، جن سے وہ ہرزیر پرورش وجود کی ہرضرورت کی تکمیل
فرماتا ہے۔ بیمار کو صحت کی طلب ہے، جاہل کو علم کی، بھوکے کو کھانے کی طلب
ہے، پیاسے کو پانی کی، دھوپ کو سائے کی طلب ہے، اندھیرے کو اجالے کی، اطاعت
گزار کو ثواب کی طلب ہے، سرکش و باغی کو عتاب و عذاب کی، گنہگار کو مغفرت
کی طلب ہے، اور ظالم کو سزا کی۔ الغرض ہر شے کی طلب اور ضرورت اس کے حسب
حال مختلف ہے اور رب العالمین وہی ہوسکتا ہے جو ہرشے کی طلب و ضرورت ایجابی
ہو یا سلبی، مثبت ہویا منفی بصورت جزا ہو یا سزا، پوری کرسکے۔ یہی ذات حق
کی شان ہے جو کسی اور کو زیبا نہیں۔ وہ صفات میں جامع، قدرت میں کامل اور
فعل میں قادر و مختار ہے۔
5۔ رب العالمین اس امر کا واضح اعلان ہے کہ باری تعالٰی تمام مخلوقات کی
جملہ ضروریات کی کفالت فرماتا ہے۔ مخلوقات عالم میں سے اہم ترین مخلوق
انسان ہے۔ اور انسان کی جملہ ضروریات میں سے اہم ترین ضرورت ہدایت اور
زندگی کا لائحہ عمل ہے، جس کی تکمیل شریعت اور وحی ربانی کے بغیر ممکن
نہیں۔ لہذا باری تعالٰی کا رب العالمین ہونا خود اس امر کا متقاضی ہے کہ
بنی نوع انسان کی رہنمائی کے لیے انبیاء و رسل علیہم السلام کو مبعوث کیا
جاتا اور ان کے ذریعے اللہ رب العزت کی وحی اور ہدایت پر مبنی شریعت اور
نظام حیات عطا کیا جاتا، جس کے تحت افراد بنی آدم کی اخلاقی و روحانی تربیت
اور فکری و اعتقادی پرورش ہوتی۔ سو اس ضرورت کو اس نے نظام نبوت و رسالت کے
ذریعے پورا فرما دیا ہے۔ اس لیے ارشاد فرمایا گیا :
وَمَا قَدَرُواْ اللّهَ حَقَّ قَدْرِهِ إِذْ قَالُواْ مَا أَنزَلَ اللّهُ
عَلَى بَشَرٍ مِّن شَيْءٍ قُلْ مَنْ أَنزَلَ الْكِتَابَ الَّذِي جَاءَ بِهِ
مُوسَى نُورًا وَهُدًى لِّلنَّاسِ تَجْعَلُونَهُ قَرَاطِيسَ تُبْدُونَهَا
وَتُخْفُونَ كَثِيرًا وَعُلِّمْتُم مَّا لَمْ تَعْلَمُواْ أَنتُمْ وَلاَ
آبَاؤُكُمْ.
اور انہوں نے (یعنی یہود نے) اﷲ کی وہ قدر نہ جانی جیسی قدر جاننا چاہیے
تھی، جب انہوں نے یہ کہہ (کر رسالتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا
انکار کر) دیا کہ اﷲ نے کسی آدمی پر کوئی چیز نہیں اتاری۔ آپ فرما دیجئے:
وہ کتاب کس نے اتاری تھی جو موسٰی (علیہ السلام) لے کر آئے تھے جو لوگوں کے
لئے روشنی اور ہدایت تھی؟ تم نے جس کے الگ الگ کاغذ بنا لئے ہیں تم اسے
(لوگوں پر) ظاہر (بھی) کرتے ہو اور (اس میں سے) بہت کچھ چھپاتے (بھی) ہو،
اور تمہیں وہ (کچھ) سکھایا گیا ہے جو نہ تم جانتے تھے اور نہ تمہارے باپ
دادا۔
(الانعام، 6 : 91)
انسانی تربیت وپرورش کے لیے نظام رسالت کا وجود اور ہدایت ربانی کی نتیجہ
خیزی رب العالمین کا ایسا مفہوم ہے جس کے بغیر اﷲ تعالٰی کی ربوبیت کو
تسلیم کرنے کا حق بھی ادا نہیں ہوسکتا۔
6۔ رب العالمین کے اعلان میں ربوبیت الہیہ کاآفاقی ہونا اس بات پر دلالت
کرتا ہے کہ پوری کائنات انسانی کی ہدایت کے لیے ہر طبقے اورہر قوم کی طرف
انبیاء و رسل مبعوث کیے گئے تاکہ انسانی اعتقاد و عمل کی صحیح نشوونما اور
اصلاح ہوسکے۔ روحانی تربیت و پرورش کی اس نعمت سے کسی طبقے کو محروم نہیں
رکھا گیا، اس لیے ارشاد فرمایا گیا :
إِن مِّنْ أُمَّةٍ إِلَّا خلَا فِيهَا نَذِيرٌO
کوئی امت ایسی نہیں ہوئی جس میں کوئی نصیحت کرنے والا (پیغمبر) نہ گزرا ہو۔
(فاطر، 35 : 24)
جب ربوبیت الہیہ نے اپنے فیضان ہدایت کے لیے کسی طبقہ و قوم کومستثنیٰ نہیں
کیا تو افرادِ انسانی کو یہ حق کس طرح پہنچتا ہے کہ وہ بعض پیغمبروں پر
ایمان لائیں اور بعض کا انکار کردیں۔ یہ امتیازی سلوک، خود فی الواقع
ربوبیت الہیہ کی آفاقیت کا انکار ہے۔ اسی لئے قرآن مجید نے یہ تعلیم دی :
لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أحَدٍ مِنْهُمْ وَ نَحْنُ لَهُ مُسْلِمُوْنَO
ہم ان میں سے کسی ایک (پر بھی ایمان) میں فرق نہیں کرتے، اور ہم اسی (معبود
واحد) کے فرماں بردار ہیں۔
(البقره، 2 : 136)
اس مقام پر تمام انبیاء کرام پرایمان لانا اور اﷲ کے حضور گردن جھکانا
دونوں کوایک ساتھ بیان کیا گیا ہے کیونکہ باری تعالٰی پر ایمان لانے کا
تقاضا یہی ہے کہ اس کے بھیجے ہوئے تمام پیغمبروں کو مانا جائے اورایمان میں
سے کسی سے امتیاز نہ برتا جائے۔
سورہ بقرہ میں اس مضمون کا آغاز کچھ اس طرح سے ہورہا ہے :
إذْ قَالَ لَهُ رَبُّهُ أسْلِمْ قَالَ أسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِيْنَo
اور جب ان کے رب نے ان سے فرمایا (میرے سامنے) گردن جھکا دو، تو عرض کرنے
لگے : میں نے سارے جہانوں کے رب کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا۔
(البقرة، 2 : 131)
اس حکم کے بعد اس وصیت اور تعلیم کا بیان شروع ہوجاتا ہے جو حضرت ابراہیم
علیہ السلام اور حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنی اپنی اولاد کو دی اور یہ
بیان تمام انبیاء و رسل پر بلا امتیاز ایمان لانے کے حکم پر ختم ہوتا ہے۔
گویا یہ مضمون رب العالمین کی آٰفاقی ربوبیت کے بیان سے شروع ہوا اور اس کے
بھیجے ہوئے تمام انبیاء و رسل پر ایمان لانے کے حکم پر ختم ہوا، جس کا واضح
مقصد یہ ہے کہ یہ ہمہ گیر ایمان رب العالمین کے مفہوم میں نہ صرف شامل ہے
بلکہ اس کا مدعا ہے۔
7۔ رب العالمین کے الفاظ خود جزا و سزا کے نظام کا اثبات کررہے ہیں، کیونکہ
وہ تربیت کیسی ہے جس کے اختتام پر امتحان نہ ہو اور نیک وبد کے ساتھ انجام
کار صحیح انصاف نہ ہو۔ اس احساس جوابدہی کو ختم کرکے جزا و سزا کے وجود سے
انکار کے بعد کوئی نظام تربیت و پرورش اپنے مقاصد کو حاصل کرہی نہیں سکتا۔
کیونکہ اس کے بغیر افراد کا اخلاقی کمال کو پانا اور ان کی عملی عظمت و
گراوٹ کا پرکھا جانا نہ صرف ممکن ہی نہیں بلکہ خود تربیت و پرورش کا نظام
بے مقصد و بے سود ہوکر رہ جاتا ہے۔ اساتذہ اور والدین کے حسن پرورش وتربیت
میں بھی یہی محرک کار فرما ہوتا ہے۔
8۔ رب العالمین اس امر کا واضح اعلان بھی ہے کہ باری تعالٰی کی ربوبیت و
رحمت کا فیضان کسی خا ص نسل، قبیلے، علاقے اور طبقے کے لیے محدود و مختص
نہیں بلکہ تمام افراد بنی آدم کے لیے عام ہے، اس لیے سب نسلی، لسانی اور
گروہی تفاخر کے تصورات باطل ہیں۔ اورحق یہ ہے کہ ربوبیت الہیہ کی عالمگیریت
کے حوالے سے انسانی سطح پر عالمی اخوت و مساوات کا ایسا علم بلند کیاجا ئے
کہ کوئی قوم کسی دوسری قوم پر ناروا برتری اور تفوق کا حق نہ جما سکے اورنہ
اس بنیاد پر اس کا استحصال کرسکے۔
9۔ رب العالمین کا تقاضا یہ بھی ہے کہ جملہ افراد اپنی زندگی کے سارے
معاملات میں باری تعالٰی کی اطاعت کریں۔ کیونکہ حق یہی ہے کہ جو پیدا کرنے
والا، پالنے والا اور تمام جسمانی و روحانی ضروریات کی کفالت کرکے بندوں کو
اپنے کمال تک پہنچانے والا ہے، وہی حقدار ہے کہ اس کا ہرحکم مانا جائے، جس
کا حکم ماننے کو وہ کہے اس کو مانا جائے اورجس سے منع کرے اس سے باز رہا
جائے۔ ہم نے اﷲ کے سوا اطاعت احکام کی جتنی دیگر سمتیں بنا رکھی ہیں، جو
اطاعت الہی سے متضاد و متصادم ہیں، سب طاغوت ہیں۔ ان کا اقرار و اطاعت فی
الواقع اﷲ تعالٰی کی ربوبیت کے اعتقاد کے خلاف بغاوت ہے۔ جب رب کائنات وہ
ہے تو گردنیں اس کے غیر کے سامنے کیوں جھکیں!!!
10۔ رب العالمین کا اعلان انسان کو اس حقیقت سے بھی آشنا کرتا ہے کہ باری
تعالٰی سے بڑھ کر اس کا کوئی اور خیر خواہ اور محبت کرنے والا نہیں ہوسکتا۔
جو ازخود پالنے اورحفاظت کرنے کی ذمہ داری نبھا رہا ہو، بھلا اس سے بڑھ کر
بھی کوئی خیر خواہ ہوسکتا ہے؟ لہذا بندے کو چاہیئے کہ وہ ہرحال میں اسی پر
بھروسہ کرے اس کی رحمت سے مایوس نہ ہو، ہر قدم پر اسی کی رضا کا متلاشی رہے
اور اس کے دیئے ہوئے نظام زندگی پر ہی اکتفا و قناعت کرے۔ انسانی زندگی کا
جو دائمی منصوبہ اس کی ہدایت اور تعلیم میں ہوسکتا ہے کسی اور فکر و نظریہ
میں ممکن نہیں۔ اس لیے اہل دنیا کے وہ تمام سیاسی، اقتصادی اور اخلاقی
ومذہبی فلسفے، جو رب العالمین کی عطا کردہ ہدایت سے متصادم ہیں وہ بالآخر
کسی نہ کسی شکل میں ظلم واستحصال ہی کا باعث ہوتے ہیں۔ حقیقی فلاح فقط اسی
نظام میں ہے، جو ساری انسانیت کے پالنے والے رب نے عطا کیا ہے، جو قرآن
وسنت کی صورت میں امت مسلمہ کے پاس موجود ہے۔ سو اسی کا دامن تھامنے میں
اصل کامیابی ہے۔
11۔ رب العالمین کااعلان پرورش اس امر کو بھی واضح کررہاہے کہ دوسروں کی
پرورش اور کفالت کرنا چونکہ اﷲ تعالٰی کا سب سے پہلا محبوب فعل ہے اس لئے
اسے اپنی مخلوق میں سب سے زیادہ محبت بھی اسی شخص اور طبقے سے ہوتی ہے جو
دوسرے افراد کے لیے اسی کردار کو اپناتا ہے۔ اﷲ تعالٰی کے قریب ہونے کا راز
یہی ہے کہ اس کی صفات و اخلاق کو اپنایا جائے۔ سو ہرکس و ناکس، اپنے پرائے،
دوست دشمن اور واقف و ناواقف کے ساتھ مربیانہ سلوک جس میں دوسرے کے لیے نفع
بخشی، فیض رسانی، حسب ضرورت کفالت و پرورش اور ایثار و انفاق کے پہلو پائے
جائیں، روا رکھنا قرب الہی کا باعث ہے۔ یہی اخلاق الہی ہے اور یہی اخلاق
محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ رب العالمین کی شان یہ ہے کہ کوئی اسے مانے
نہ مانے وہ ہر ایک عمل سے اور کردار سے بے نیاز ہو کر اس کی ضرورتوں کی
کفالت کرتا جا رہا ہے۔ پس وہی شخص اﷲ تعالٰی کو محبوب تر ہے، جو لوگوں کے
رویے، کردار، حسد، مخالفت اور مخاصمت سے بے نیازہوکر رحمت اور بھلائی کی
خیرات بانٹتا چلا جائے۔ اس کا مقصود کسی سے انتقام لینا نہ ہو بلکہ ہرایک
کے لیے بھلائی چاہنا ہو۔ جو مخلوق خدا کی جس قدر بڑھ کر پرورش کرے گا، اﷲ
تعالٰی کے فیضان پرورش سے اسی قدر زیادہ فیض پائے گا۔ کاش ہمیں من حیث
القوم اس نکتے کی سمجھ آجائے۔
مصنف : پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری |