ارض کا معنی:
نظام شمسی میں گردش پذیر جس سیارے میں ہم رہائش رکھتے ہیں، ارض (Earth،
زمین) کہلاتا ہے۔ یہ لفظ عام طور پر آسمان کے مقابل بولا جاتا ہے۔ لغت عرب
میں ہر نچلی چیز ارض سے تعبیر کی جاتی ہے۔ امام راغب لکھتے ہیں:
الارض يعبربها عن اسفل الشئ کما يعبر بالسمآء عن اعلاه.
کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لیتے ہیں جس طرح سماء
کا لفظ اوپر والے حصے پر بولا جاتا ہے۔
(المفردات : 73)
قرآن مجید نے ہر جگہ ارض کا صغیہ واحد ہی استعمال کیا ہے۔ جمع (ارضون یا
ارضین) کا صیغہ استعمال نہیں کیا۔ تاہم کئی زمینوں کا وجود یوں بھی ثابت
ہوتا ہے کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ.
اللہ وہی ہے جس نے سات آسمان اور انہی کی طرح زمین بھی (اپنی ہی قدرت و
حکمت سے) پیدا کی۔
(الطلاق، 65 : 12)
اس آیت کریمہ سے اس امر پر روشنی پڑتی ہے کہ زمینیں بھی آسمانوں کی طرح سات
یا متعدد ہیں۔
سات آسمانوں کا معنیالسمآء کا لفظ سما، یسمو سے ہے، جس کے معنی بلندی کے
ہیں۔ لغت عرب میں ہے :
سماء کل شی أعلاه.
ہر چیز کے اوپر جو کچھ ہے وہ اس چیز کا سماء ہے۔
(المفردات : 427)
لہذا کرہ ارض کے اوپر جس قدر کائنات موجود ہے، وہ عالم سماوات ہے، بلکہ خود
کرہ ارض کے اندر وہ بالائی طبقۂ فضا جہاں بادل اڑتے ہیں اور ٹھنڈک کے باعث
آبی قطرات کی صورت میں بارش بن کر برستے ہیں، بھی ’’سماء،، کہلاتا ہے ارشاد
باری تعالیٰ ہے :
وَّأَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً.
اور آسمانوں کی طرف سے پانی برسایا۔
(البقره، 2 : 22)
بنا بریں زمین کے اوپر کا طبقۂ کائنات عالم طبیعی کی آخری حد تک عالم سماء
کہلاتا ہے۔
اسلام اور یونانی فلسفے کے موقف میں فرقعام طور پراہل علم نے مختلف زمانوں
میں فلسفیانہ تصورات کی بناء پر آسمانوں کی ماہیت اور حقیقت متعین کرنے کی
کوشش کی ہے، اسی وجہ سے کسی نے چاند کو پہلے آسمان میں مرکوز، سورج کو
چوتھے آسمان میں اور دیگر سیار گان فلکی کو دوسرے آسمانوں میں مرکوز قرار
دیا۔ کسی نے اس سے مختلف ترتیب بیان کی۔ عوام الناس نے بعض علماء کی ان
تحریروں سے یہ اخذ کیا کہ شاید یہی اسلام کا موقف ہے اور یہی کچھ قرآن و
حدیث سے ثابت ہے۔ یہ تاثر کلیتاً غلط ہے۔ قرآن وحدیث کی کوئی ایک نص بھی اس
تصور کی تائید نہیں کرتی۔ یہ موقف دراصل قدیم علماء ہیت کا تھا، جو یونانی
فلسفے پر مبنی تھا۔ دینی کتابوں میں اس کے بیان ہوجانے کی وجہ سے اسے غلط
طور پر دینی تعلیمات کی طرف منسوب کردیا گیا۔ یہی وجہ تھی کہ جب تسخیر
ماہتاب کاواقعہ پیش آیا تو بعض لوگوں نے کم فہمی کی بناء پر اسے دینی
تصورات کے منافی سمجھا۔ حالانکہ اس واقعے کا امکان دینی تصورات اوراسلام کے
بیان کردہ حقائق کے عین مطابق تھا۔ اس میں عقلاً و نقلا ًکسی قسم کی مخالفت
نہ تھی کیونکہ سورج، چاند اور دیگر سیارے کرہ ارض کے اوپر کروڑوں، اربوں
میلوں پر محیط بالائی طبقے میں گردش کرتے ہیں۔ یہ تمام سماوی طبقات اپنے
اپنے ’’افلاک،، (Orbits) میں محو گردش ہیں۔ جو زمین اور آسمان کے درمیان
واقع ہیں۔ ابن ابی حاتم اور ابوالشیخ نے حسان بن عطیہ سے روایت کیا ہے :
الشمس و القمر و النجوم مسخرة فی فلک بين السماء و الارض.
شمس و قمر اور تمام سیارگان، آسمان اور زمین کے درمیان اپنے فلک یعنی مدار
(Orbit) میں گردش کررہے ہیں۔
(الدرالمنثور، 4 : 318)
یہ ارشاد اس قرآنی آیت کی تعبیر میں وارد ہوا ہے :
کُلٌّ فِيْ فَلَکٍ يَسْبَحُوْنَo
تمام (آسمانی کرے) اپنے اپنے مدار کے اندر تیزی سے تیرتے چلے جاتے ہیں۔
(الانبياء، 21 : 33)
امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ اورامام ابن ابی حاتم رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت
ابن زید رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے :
الفلک الذی بين السماء و الأرض من مجاری النجوم و الشمس و القمر.
’’فلک،، سے مراد آسمان اور زمین کے درمیان واقع مدار ہیں، جن میں تمام
ستارے، سورج اور چاند (سمیت تمام اجرام فلکی) گردش کرتے ہیں۔
(تفسير الدرالمنثور، 4 : 318)
اس امر کی وضاحت اس قول سے بھی ہوتی ہے :
الفلک موج مکفوف تجري فيه الشمس و القمر و النجوم.
’’فلک،، آسمانوں کے نیچے خلا کا نام ہے جس میں سورج، چانداور ستارے گردش
کرتے ہیں۔
(تفسير کبير، 22 : 167)
امام رازی رحمۃ اللہ علیہ رحمۃ اللہ علیہ نے مزید بیان کیا ہے کہ فلک
ستاروں کے مدار یعنی ان کی گردش کے راستوں کوکہتے ہیں:
وهو فی کلام العرب کل شئي مستدير وجمعه أفلاک.
لغت عرب میں ہر گول شے کو فلک کہتے ہیں اس کی جمع افلاک ہے۔
(تفسيرکبير، 22 : 167)
امام ابوالبرکات نسفی رحمۃ اللہ علیہ نے یہاں تک صراحت بیان فرمائی ہے :
و الجمهور علی أن الفلک موج مکفوفٌ تحت السماء تجري فيه الشمس و القمر و
النجوم. . . يسيرون اي يدورون
جمہور علماء کا مذہب یہی ہے کہ فلک آسمانوں کے نچیے خلا کا نام ہے جس میں
سورج، چاند اور دیگر سیارے مستدیراً گردش کرتے ہیں۔
(تفسير المدارک، 3 : 78)
اس لحاظ سے جتنے سیارے بھی خلا میں گردش کرتے ہیں، ہر ایک کا مدار اس کا
فلک کہلاتا ہے۔
ابتداء علم ہیت (ASTROMONY) کے ماہرین کا خیال تھا کہ سیاروں کی کل تعداد 7
ہے اور ان میں ہر سیارہ جس مدار میں موجود ہے وہی اس کا فلک ہے۔ بنا بریں
عالم بالا کل سات افلاک میں منقسم ہے، پہلے میں چاند ہے، دوسرے میں عطارد،
تیسرے میں زہرہ، چوتھے میں شمس، پانچویں میں مریخ، چھٹے میں مشتری اور
ساتویں میں زحل، جیسا کہ امام رازی رحمۃ اللہ علیہ نے دور قدیم کے علماء
ہیت کا یہ قول نقل کیا ہے۔ (تفسیرکبیر، 26 : 77)
بعض مسلمان اہل علم کی فکری لغزش ہمارے خیال میں جب یہی نقطہ نظر بعض علماء
اسلام نے اپنی کتابوں میں درج کیا تواسی سے یہ تصور پیدا ہوگیا کہ سات
آسمانوں میں سے ہر آسمان میں ایک سیارہ ہے اوروہ آسمان اسی سیارے کے نام سے
موسوم ہے۔ یہ ایسا مغالطہ تھا جو سات افلاک کے تصور اور سات آسمانوں کے
تصور کے درمیان التباس (CONFUSION) کے باعث پیدا ہوا۔ پھر بقول شیخ طنطاوی
جوہری جب فلسفہ یونانی پرفارابی اور ابن سینا کی تصانیف عربی زبان میں منظر
عام پر آئیں تو 9 افلاک کا تصور قبولیت پاگیا۔ چنانچہ اس کی توجیہہ بعض
علماء اور فلاسفہ نے یوں کی کہ ان سے مراد سات آسمان، کرسی اور عرش ہے۔
کرسی، فلک الثوابت ہے اور عرش، فلک محیط۔ یہ تعبیرات اس وجہ سے اسلامی
لٹریچر میں شامل ہوگئیں کہ مختلف ادوار میں جب کوئی نئی فلسفیانہ یا سائنسی
تحقیق منظر عام پر آئی بعض اہل علم نے اسے قرآنی آیات پر یا قرآنی آیات کو
اس پر منطبق کرنے کی کوشش کی۔ حالانکہ وہ تحقیق فی نفسہا حتمی اور قطعی نہ
تھی۔ عقلاء، فلاسفہ اور سائنسدان تجربات اور مشاہدات کی بنا پر اقدام وخطاء
(TRIAL & ERROR) کے انداز میں اپنی نئی سے نئی تحقیقات پیش کر رہے تھے۔ ان
تحقیقات کو اسلامی تصورات بنانے کی کوشش نے ایسے کئی موضوعات میں علمی
مغالطے پیدا کر دیئے جو اب تک بعض اہل علم کے ہاں منتقل ہوتے چلے آرہے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ ان بے بنیاد اور غلط تصورات کی کوئی سند قرآن و حدیث میں
نہیں ملتی۔ جوں جوں انسانی عقل اپنے سائنسی تجربات و مشاہدات کی بناء پر
ترقی کررہی ہے۔ عالم بالا کے ہزاروں نئے طبقات منصہ علم پر آرہے ہیں۔
نظام شمسی اور عالم افلاکپہلے جن سیاروں کی کل تعداد 9 بیان کی گئی تھی
موجودہ سائنس نے یہ حقیقت منکشف کردی ہے کہ یہ 9سیارے (Planets) تو صرف
نظام شمسی (SOLAR SYSTEM) میں موجود ہیں جن کے نام یہ ہیں :
1۔ عطارد (Mercury)
2۔ زہرہ (Vencus)
3۔ زمین (Earth)
4۔ مریخ (Mars)
5۔ مشتری (Jupiter)
6۔ زحل (Saturn)
7۔ یورینس (Uranus)
8۔ نیپچون (Neptune)
9۔ پلوٹو (Pluto)
ہماری زمین کے گرد واقع چاند کی طرح ان 9 سیاروں کے گرد کل 61 چاند موجود
ہیں ان کے علاوہ تقریباً 45,000 سے زائد Astroids بھی اس نظام شمسی میں
موجود ہیں۔ مزید برآں کئی ایسے مزید سیارے تصور کیے جاتے ہیں جو اسی نظام
میں ہیں لیکن ابھی تک ظاہر نہیں ہوئے۔ یہ سب وہ سیارے ہیں جو سورج کے گرد
اپنے اپنے مدار میں محو حرکت ہیں پھرخود مذکورہ بالا بڑے سیاروں (PLANETS)
کے گرد گردش کرنے والے کئی سیارے ہیں جنہیں Satellites کہا جاتا ہے۔ ہمارا
چاند (Moon) ان میں سے سب سے بڑا ہے اور زمین کے گرد محو گردش ہے، جس کا
ذکر قرآن مجید ان میں الفاظ میں کرتا ہے :
وَجَعَلَ الْقَمَرَ فِيهِنَّ نُورًا.
اور ان میں (تمہارے لئے) چاند کو چمکنے والا بنایا۔
(نوح، 71 : 16)
کچھ اجرام فلکی ہیں جنہیں COMETS کہا جاتا ہے یہ نام غالباً قرآن حکیم کی
اصطلاح الجوار الکنس سے اخذ کیا گیا ہے، جس کا ذکر سیاروں ہی کے ضمن میں
یوں آیا ہے :
فَلَا أُقْسِمُ بِالْخُنَّسِO الْجَوَارِ الْكُنَّسِO
پھر میں قسم کھاتا ہوں چلتے چلتے (پیچھے) پلٹ جانے والے تاروں کی (اور قسم
کھاتا ہوں) سیدھے چلنے والے (اور) رکے رہنے والے تاروں کی۔
(التکوير، 81 : 15، 16)
Comets بھی سورج کے گرد گھومتے ہیں اور مختلف مدتوں میں اپنا مدار مکمل
کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک HALLEY'S COMET سے نام سے معروف ہے۔ جو سورج کے
گرد اپنا مدار مکمل کرنے میں اوسطاً 77برس لگاتا ہے، گویا 77 برس میں ایک
بار نظر آتا ہے، بقیہ عرصہ چھپا رہتا ہے۔ آخری بار HALLAY'S COMETS 80, 156
میل فی گھنٹہ کی رفتار سے 9 فروری 1986ء کو سورج کے قریب سے گزرا European
Space Agency ۔(ESA) کے خلائی جہاز Giotto نے اس کے انتہائی قریب جاکر اس
کی تصاویر اتاریں اور اہل زمین کیلئے زمینی سٹیشن کو ارسال کیں۔ یہ COMET
اب دوبارہ ان شاء اﷲ سورج کے قریب 29 اپریل 2061ء کو گزرے گا۔ الکنس میں
چھپنے کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے صاحب المحیط رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :
الکنس هی الخنس لانها تکنس فی المغيب.
’’الکنس،، کا معنی چھپنا اور گم جانا ہے۔ وجہ تسمیہ یہ ہے کہ وہ (Comet)
کسی نادیدہ مقام کی وسعتوں میں کھو جاتا ہے۔
(القاموس المحيط، 2 : 256)
مزید برآں کچھ چھوٹے چھوٹے اجرام فلکی اور بھی ہیں جو METEORS کہلاتے ہیں۔
وہ بھی سورج کے گرد چکر لگاتے رہتے ہیں۔ کبھی کبھی یہ زمین کی بالائی فضا
میں داخل ہوتے ہیں مگر حرارت کی شدت کے باعث جل کر راکھ ہوجاتے ہیں۔ ان کے
ٹوٹنے سے جو منتشر چمکتے ہوئے ذرات شعلوں اور چنگاریوں کی صورت میں گرتے
ہیں انہیں SHOOTING STARS کہتے ہیں۔ انہی کا ذکر قرآن مجید میں یوں آیا ہے
:
وَلَقَدْ زَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيحَ وَجَعَلْنَاهَا
رُجُومًا لِّلشَّيَاطِينِ.
اور بے شک ہم نے آسمانِ دنیا کو چراغوں سے مزین کیا ہے اور ان کو شیاطین کے
مارنے کا ذریعہ بھی بنایا ہے۔
(الملک، 67 : 5)
اندازہ یہ ہے کہ تقریباً دس کروڑ METEORS روزانہ زمین کی بالائی فضا میں
داخل ہوتے ہیں۔
کہکشاں کی وسعتکروڑوں کی تعداد میں پائے جانے والے یہ سب چھوٹے بڑے اجرام
صرف نظام شمسی کا حصہ ہیں اور سورج عالم افلاک کے کروڑوں ستاروں میں سے ایک
اوسط درجے کا ستارہ (STAR) ہے۔ جس کا Diameter (قطر) 1,400,000کلومیٹر ہے۔
سورج ہماری زمین سے 149,600,000 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ روشنی ایک لاکھ
چھیاسی ہزار تین سو میل فی سیکنڈ کے حساب سے سفر کرتی ہے۔ اس کے باوجود
روشنی کی ایک کرن جو سورج سے نکلتی ہے، زمین تک پہنچنے میں آٹھ منٹ لگا
دیتی ہے۔ جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا کہ جس طرح زمین، نظام شمسی کے بے شمار
سیاروں میں سے ایک ہے۔ اسی طرح سورج 15,000,000,000 ستاروں پر مشتمل کہکشاں
(Milky Way) میں سے ایک ہے۔ جب کہ اس کہکشاں کی وسعت اور مسافت کااندازہ اس
امر سے لگایئے کہ اسی کہکشاں میں سورج کے بعد ہم سے قریب ترین ستارے
Proxima Centauri کی روشنی اسی رفتار سے چل کر چار سال سے زائد عرصہ میں ہم
تک پہنچتی ہے۔ جو روشنی صرف ایک سیکنڈ میں ایک لاکھ چھیاسی ہزار تین سو میل
طے کرتی ہے، وہ ایک سال میں کتنے ارب میل کی مسافت طے کرتی ہوگی! اور پھر
چار سال کے عرصے میں طے ہونے والی مسافت کا عالم کیا ہوگا! اسی طرح ہماری
کہکشاں کا ایک ستارہ ALTAIR جس کی روشنی زمین تک 1600 سال میں پہنچتی ہے۔
’’DENEB،، نامی ستارے کی روشنی زمین تک 1500سال میں پہنچتی ہے۔ یہاں تک کہ
کچھ ستارے ایسے ہیں جن کی روشنی زمین تک کئی ہزار سال بعد پہنچتی ہے۔ بلکہ
اس وقت تک کی تحقیقات کے مطابق اس کائنات میں ایسے ستارے بھی موجود ہیں جن
کی روشنی کے زمین تک پہنچنے کا کل عرصہ پچاس ارب سال بنتا ہے۔ صرف ہماری
کہکشاں کی لمبائی اس قدر ہے کہ اس کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک روشنی ایک
لاکھ سال کے عرصے میں پہنچتی ہے اوراسکی موٹائی کے رخ کا فاصلہ دس ہزار سال
کے عرصے میں طے کرتی ہے۔ یہ وسعت تو صرف اس کہکشاں Milky Way کی ہے جس میں
ہماری زمین واقع ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس جیسی کئی کروڑ کہکشائیں (GALAXIES)
عالم افلاک میں موجود ہیں۔ امریکہ کی National Optical Astronomy
Observations کی تحقیق کے مطابق تقریباً 400 کہکشائیں (Galaxies) توآپس میں
ہی منسلک نظر آتی ہیں۔ باقی کہکشاؤں کے سلسلوں کا کیا حال ہے اور یہ سارا
عالم افلاک جس کی کل وسعت اور مسافت کااندازہ انسان اپنی تصوراتی قوت سے
بھی نہیں کرسکتا، پہلے آسمان یعنی سماء الدنیا سے نیچے واقع ہے۔ لہذا یہ سب
صرف پہلے آسمان کے نیچے وسعتوں کا عالم ہے، خدا جانے اس سے اوپر کی وسعتوں
کا کیا حال ہے۔ اسی طرح دوسرے، تیسرے، چوتھے اور بالآخر ساتویں آسمان تک کی
کائنات کس قدر وسیع ہے۔ اس کے بعد عرش اور مافوق العرش کی وسعتوں کا عالم
کیا ہوگا!
یہ ساری تفصیل اس لئے عرض کی گئی تاکہ اس کی روشنی میں اتنی بات سمجھی
جاسکے کہ مختلف سیاروں، ستاروں، کہکشاؤں اور نظام ہائے نجوم کی آئے دن
دریافت ہونے والی نئی سے نئی تقسیمات اور تحقیقات کو سات آسمانوں کی حقیقت
قرار نہیں دیا جاسکتا۔ سائنس ابھی تک آسمان دنیا کی کہکشاؤں اور ستاروں کی
تلاش میں سرگرداں ہے۔ وہ تو صرف اس معلوم عالم افلاک کی جملہ حقیقتوں کا
احاطہ بھی نہیں کرسکی جب کہ سبع سماوات کی حقیقت اس سے کہیں بلند ہے۔ ممکن
ہے آئندہ زمانوں کی سائنسی تحقیق اس عالم بالا کے وجود کا کوئی نشان پا
سکے۔ اس کی حقیقت و ماہیت اور اس کی تقسیم کا جو کہ سات طبقات پر مشتمل ہے
کوئی مزید سراغ پا سکے۔ کیونکہ انسان کا آسمانوں تک پہنچنا اور ان کی حقیقت
کی خبر پانا شریعت کی رو سے نہ تو ناممکن ہے اورنہ ہی اس میں کوئی امر مانع
ہے۔ یہاں تک کہ اصول فقہ کی بعض کتابوں میں یہ تصریح ملتی ہے کہ اگر کوئی
شخص آسمان پر جانے کی قسم کھالے تو اس کی قسم منعقد ہوجائے گی کیونکہ آسمان
پر جانا ممکنات میں سے ہے۔ اس سے اس بات کی طرف بھی رہنمائی ملتی ہے کہ
اسلامی تحقیقات پر مشتمل سینکڑوں ہزاروں سال پرانے لٹریچر میں بھی آسمان کی
وسعتوں میں سفر کو ممکن سمجھا جاتا تھا۔
مذکورہ بالا ساری تفصیل فقط عالم طبیعی سے متعلق ہے جبکہ مابعد الطبیعی
عالم کا تو سائنس ادراک بھی نہیں کرسکتی۔ قرآن مجید میں عالم طبیعی کی
تقسیم ان تین حصوں میں کی گئی ہے :
1۔ آسمانی کائنات (HEAVENS)
2۔ زمینی کائنات (EARTH)
3۔ فضائی کائنات (SPACE)
ارشاد ربانی ہے :
ألَّذِيْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَ الْاَرْضَ وَ مَا بَيْنَهمَا فِيْ
سِتَّةِ أيَّامٍ ثُمَّ اسْتَویٰ عَلٰی الْعَرْشِ.
(وہی ہے) جس نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان دونوں میں ہے چھ دن میں
پیدا کیا۔ پھر (اپنے) عرش (قدرت و حکمت) پر قائم ہوا۔
(الفرقان، 25 : 59)
اس وقت سائنس اپنی تحقیق کے فضائی دور (Age of space) میں داخل ہوچکی ہے
تاہم اس کی تمام تر وسعتوں کا مکمل اندازہ تاحال سائنس نہیں لگا سکی۔ قرآن
مجید کے الفاظ وَمَا بَيْنَھُمَا آسمان اور زمین کی درمیانی کائنات یعنی
Space اور Intermediary creation کی واضح نشاندہی کر رہے ہیں۔ انسانی علم
تو ابھی تک فقط عالم طبیعی کے تیسرے حصے Space کی وسعتوں کے اندازے میں گم
ہے، جبکہ آسمانی کائنات اس سے کہیں زیادہ وسیع و عریض ہے۔ پھر اس کے اختتام
پر مابعدالطبیعی عالم یعنی کائنات عرش اور مافوق العرش کا آغاز ہوتا ہے۔
جہاں باری تعالٰی کا مقام استوار ہے اور یہ سب کچھ العالمین کا مصداق ہے۔
اس عالم طبیعی کی تخلیق کے چھ دن میں کیے جانے کا مفہوم معروف معنوں میں
ہرگز چھ دن نہیں کیونکہ اس وقت تو سورج اور رات دن کی تخلیق بھی عمل میں
نہیں آئی تھی اور معروف دنوں کی تقسیم کا سلسلہ سورج کی تخلیق کے بعد ہی
شروع ہوا۔ لہذا 6 دنوں سے مراد تخلیق کے 6 ادوار ہیں جن میں کائناتی تخلیق
کا نظام ارتقائی مرحلے طے کرکے یہاں تک پہنچا ہے۔
مصنف : پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری |