''آدھا تیتر آدھا بٹیر'' پالیسی سے آزاد کشمیر کو لاحق خطرات

اطہر مسعود وانی
آزاد کشمیر کا قیام تحریک آزادی کشمیر کے تناظر میں تمام ریاست جموںو کشمیر کی نمائندہ حکومت کے طور پر عمل میں لایا گیا تھا۔ UNCIPکے قرار دادوں کے مطابق بھارت زیر قبضہ جموںو کشمیر کو بھارت اور آزاد کشمیر و گلگت بلتستان کو پاکستان کے زیر انتظام خطہ قرار دیا گیا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی نگرانی میں پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر میں جنگ بندی سے متعلق اتفاق ہوتے ہی پاکستان نے آزاد کشمیر کی حکومت کے ساتھ معاہدہ کراچی کے ذریعے گلگت بلتستان کے انتظام کے علاوہ آزاد کشمیر کا دفاع، خارجہ پالیس، کرنسی، مواصلات اور مسئلہ کشمیر بھی اپنے دائرہ اختیار میں لے لیا اور آزاد کشمیر کا وجود مقامی انتظامیہ کے طور پر طے کیا گیا۔

طویل عرصہ آزاد کشمیر حکومت پاکستان کی وزارت امور کشمیر کے ذریعے قائم اور کنٹرول کی جاتی رہی ۔1974میں پاکستان اور بھارت کے درمیان طے پائے شملہ سمجھوتے کے تناظر میں، پاکستان کی وفاقی حکومت کی طرف سے آزاد کشمیر کے لئے ایک آئین تشکیل دیا گیا جسے آزاد کشمیر کی اسمبلی سے منظور کرایا گیا۔ اس عبوری ایکٹ کے تحت آزاد کشمیر میں صدارتی طرز حکومت ختم کر کے پارلیمانی نظام قائم کیا گیا۔ آزاد کشمیر حکومت کی مقامی انتظامی حیثیت کے باوجودآزاد کشمیر میں صدر ، وزیر اعظم، قانون ساز اسمبلی ، ہائیکورٹ ، سپریم کورٹ کے علاوہ اپنا سرکاری پرچم بھی قائم رکھا گیا۔

آزاد کشمیر کے آئین میں درج دفعہ 56کے تحت پاکستان حکومت مخصوص وجوہات کی بنیاد پر آزاد کشمیر حکومت کو ختم، تبدیل کر سکتی ہے۔ آزاد کشمیر کے لئے پاکستان کی طرف سے بنا کر دیئے گئے آئین کی حیثیت بھی یہ ہے کہ اسے وزیر اعظم پاکستان کے ایک حکم نامے کے ذریعے منسوخ کیا جا سکتا ہے۔یوں آزاد کشمیر حکومت کی ہیت کو دیکھیں تو یہ تحریک آزادی کشمیر کے تناظر میںایک آزاد حکومت معلوم ہوتی ہے لیکن اگر بغور جائزہ لینے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ آزاد کشمیر کی مقامی انتظامیہ کے طور پر بھی کئی اہم امور کے حوالے سے آزادکشمیر حکومت پاکستان کی وفاقی حکومت کی مرہون منت، تابع ہے۔

اگر آزاد کشمیر حکومت کے کردار سے کشمیر کاز کو نکال دیا جائے تو آزاد کشمیر میں ایک آزاد ریاست کی طرح کے انتظامی ڈھانچے کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا ۔کشمیر کاز سے متعلق آزادکشمیر حکومت کا کسی بھی قسم کا کوئی کردارنہ ہونے سے مقامی انتظامی امور کے حوالے سے محدود اختیارات کے حامل سرکاری ڈھانچے کو آزاد ریاست کی طرح کا سیاسی سٹیٹس محض علامتی طورپر ہی سامنے آتا ہے جس کی سوائے مقامی سطح پہ مفادات کے حصول کے اور کوئی اہمیت و افادیت نہیں ہے۔یوں آزاد کشمیر میں متضاد کردار کے حامل سیاسی سیٹ اپ کو دیکھتے ہوئے بلاشبہ اسے آدھا تیتر، آدھا بٹیر کی صورتحال سے تعبیر کیا جا سکتا ہے جو سٹیٹس پا کستان کی وفاقی حکومت نے آزاد کشمیر کے خطے کے لوگوں کو کشمیر کاز سے لاتعلق ہونے کے عوض دے رکھا ہے کہ ان محدود حدود میں کھائو پئیو اور موجیں کرو۔

13,297 مربع کلومیٹر،5,134 مربع میل اور تقریبا40لاکھ آبادی والے آزاد کشمیر کے خطے کے کردار کو ہوا میں معلق رکھتے ہوئے ماضی کی طرح معاملات چلانے کا طریقہ کاراب ناپسندیدہ اور غیر مقبول ہوتا جا رہا ہے۔ یا تو کشمیر کاز کے حوالے سے آزاد کشمیر حکومت کے کردار کا تعین کیا جائے یا پھر اس خطے کے لئے مقامی حیثیت کے مطابق ہی اس کے سیاسی سیٹ اپ کا تعین کیا جائے۔ اب مزید ایسا نہیں کیا جا سکتا کہ دیکھنے کو آزاد کشمیر کا سیاسی، سرکاری سیٹ اپ کشمیر کاز کے حوالے سے معلوم ہو اور عملی طورپر اس کا کشمیر کاز سے سوائے اخباری بیانات اور اسمبلی کی کھوکھلی قرار دادوں کے کوئی تعلق، کردار نہ ہو۔ سیاسی، سرکاری سیٹ اپ ایک آزاد ریاست کا انجوائے ہو اور عملی طور پر مقامی مفادات و امور میں بلدیاتی سطح کی حیثیت ہو۔ خطے کو کسی ایک طرف کے بجائے ہوا میں معلق رکھتے ہوئے کئی دوسری خرابیوں کے علاوہ آزاد کشمیر کو جغرافیائی طورپر بھی کئی سنگین خطرات لاحق ہو چلے ہیں۔لہذا بہتر یہی ہے کہ یا تواس خطے کی حکومت کے اختیار کا تعین کشمیر کاز کی روشنی میں کیا جائے یا پھر اس خطے کو اس کی آبادی اور رقبے کے مطابق مقام دیا جائے۔
Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 770 Articles with 612457 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More