لڑکیوں کی تعلیم کسی بھی ملک سے غربت کے خاتمے کا بہترین
شارٹ کٹ راستہ ہے۔ پاکستان کو بھرپور طریقے سے اس راستے پر چلنا ہوگااور
پاکستان سے قبل افغانستان کو اس تھیوری اور فارمولے سے سبق حاصل کرنا چاہیے
۔ مگر افسوس کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت اس بہترین سرمایہ کاری سے
منہ موڑ کر لڑکیوں کی تعلیم پر پابندیاں لگا کر اُنہیں ترقی اور بنیادی
انسانی حقوق سے دور کر رہی ہے ۔
اگست 2021میں طالبان کے افغانستان پر قبضے نے گزشتہ بیس سالوں میں حاصل
ہونے والی پیش رفت کو تباہی کے منہ میں دھکیل دیا اور بالآخر خواتین اور
لڑکیوں کو افغانی عوامی زندگی سے باہر نکال دیا گیا ۔ اگرچہ ابتداء میں
طالبان نے وعدہ کیا تھا کہ خواتین شرعی قانون کے اندر اپنے حقوق کا استعمال
کر سکیں گی ، بشمول کام کرنے اورتعلیم حاصل کرنے کی اجازت کے یہ وعدے محض
خالی الفاظ تھے، جیسا کہ انجلینا جولی نے کہا تھا کہ راتوں رات 14ملین
افغان خواتین اور لڑکیاں ہائی سکول یا یونیورسٹی جانے کا حق، کام کرنے کا
حق ، اور نقل و حرکت کی آزادی سے محروم ہو چکی ہیں ۔
اقوام متحدہ کی یو این ویمن کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر محترمہ سیما بہوس کا کہنا
ہے کہ طالبان کی کابینہ میں
خواتین نہیں ، خواتین کے امور کی کوئی وزارت نہیں ، اس طرح خواتین کی سیاسی
شرکت کے حق کو ختم کر دیا گیا ہے ۔2021کے آخر میں لگائی گئی پابندیوں کے
مطابق صرف ان خواتین کو کام پر آنے کی اجازت دی گئی تھی جن کی ملازمتیں
مرد نہیں کر سکتے تھے ، مثال کے طو رپر تعلیم ، صحت اور پولیس کی کچھ
ملازمتوں میں محدود نوکریاں۔اسی اعلان کے مطابق کابل حکومت کیلئے خواتین کو
جوکام کرنے کی اجازت تھی ، و ہ خواتین کے باتھ رومز کی صفائی تھی ۔ اور
درحقیقت آج تک خواتین ایڈمنسٹریشن یا طاقت کے کسی اور عہدہ پر کابینہ میں
کوئی عہدہ نہیں رکھتی ہیں۔ انتظامیہ نے خواتین کے امور کی وزارت کو ختم کر
دیا اور ایسا کرتے ہوئے بالآخر خواتین کو سیاسی شرکت سے ہٹا دیا گیا ہے
خواتین ججز ، پراسیکیوٹرز اور وکلا ء ملک سے فرار ہو گئے ہیں یا ان کی جگہ
طالبان کے سابق جنگجو اور مدرسے سے فارغ التحصیل افراد بغیر کسی قانونی
تربیت کے بیٹھ چکے ہیں، ابتدائی طو رپر اور دسمبر 2022میں لگائی جانے والی
نئی پابندیوں سے پہلے طالبان نے لڑکیوں پر ثانوی تعلیم گریڈ 12-7پر پابندی
لگا دی تھی۔سابقہ وعدوں کے برعکس کابل حکومت نے لڑکیوں کو سیکنڈری سکولوں
میں واپس جانے کی اجازت نہیں دی ہے ۔
حالیہ پابند ی عائد ہونے پر کابل یونیورسٹی کی ایک لیکچرار ریحانہ حلیم نے
کہاہے کہ مجھے شدید تشویش ہے ۔ میں بطور احتجاج استعفیٰ دینا چاہتی تھی اور
مجھے امید ہے کہ ہمارے یہ احتجاج اور اقدامات حکام تک ہماری آواز پہنچائیں
گے۔
کابل پولی ٹیکنیک یونیورسٹی کے ایک لیکچرار احسان اللہ رحمانی نے کہاہے کہ
میں نے احتجاج کے طور پر اور اپنی بہنوں کی حمایت میں وزارت ہائر ایجوکیشن
کو اپنا استعفیٰ پیش کیا ہے ۔ کچھ اور لیکچررز ہیں جو استعفیٰ دینے کے عمل
کو جاری رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔
پاکستان کے خیبر پختونخوا کی مختلف یونیورسٹیوں کے طلبا ء کے ایک گروپ نے
اس فیصلے کے رد عمل میں جمعہ کو ایک احتجاجی مظاہرہ کیا اور افغانستان میں
خواتین کیلئے یونیورسٹیاں دوبارہ کھولنے کا مطالبہ کیا ہے ۔ طالبان کی طرف
سے ممنوعہ طالبات کیلئے یونیورسٹی کی تعلیم کے مسائل کیلئے یونیورسٹی کی
تعلیم کے مسائل پر اپنی مایوسی اور غصے کا اظہار کرنے کیلئے نجی اور سرکاری
یونیورسٹیوں کے بہت سے مرد طلبہ نے’’ تعلیم سب کیلئے یا کسی کیلئے نہیں
‘‘جیسے نعرے لگاتے ہوئے ہڑتال کر دی ہے ۔ افغان خواتین کے تعلیم سے محروم
ہونے کے باعث یونیورسٹی کے کچھ لیکچررز نے اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے دیا ہے
۔ افغانستان میں طالبات کیلئے تعلیم پر پابندی کے بارے میں مصر کی جامعہ
الازہر کے امام احمد الطیب نے طالبان سے مطالبہ کیا کہ وہ افغان خواتین کے
یونیورسٹی میں تعلیم تک رسائی پر پابندی کے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کریں ،
یہ فیصلہ شریعت سے متصادم ہے۔ امام صاحب کا کہنا تھا کہ انہیں افغانستان
میں حکام کی طرف سے جاری کیے گئے فیصلے پر گہرا افسوس ہے ، جس میں افغان
خواتین کی یونیورسٹی کی تعلیم تک رسائی کو روکا جا رہا ہے ۔
افغانستان میں خواتین اس ظلم پر خاموش نہیں ہیں ۔ خواتین کی یونیورسٹی میں
تعلیم پر پابندی کے فیصلے کے بعد مشرقی افغانستان میں کابل یونیورسٹی اور
ننگر ہار یونیورسٹی کے باہر احتجاجی مظاہرے ہوئے ہیں ۔ ننگر ہار یونیورسٹی
میں میڈیکل کے مرد طلباء نے احتجاج کے طو رپر اپنے امتحان سے واک آئوٹ کر
دیا تھا۔ہرات میں طالبان نے پابندی کے خلاف احتجاج کرنے والی خواتین کے ایک
گروپ کو منتشر کرنے کیلئے پانی کی توپ کا استعمال کیا۔ 25دسمبر 2022کو کئیر
انٹرنیشنل ، نارویجن ریفیوجی کونسل اور سیو دی چلڈرن سمیت چند بڑی بین
الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں نے اعلان کیا کہ خواتین کے کام کرنے پر پابندی
عائد کئے جانے کے بعد انہیں افغانستان میں اپنا کام روکنا پڑا ہے کیونکہ و
ہ خواتین عملے کے بغیر کام جاری نہیں رکھ سکتے تھے۔طالبان خواتین اور
لڑکیوں کو عوامی منظر نامے سے ہٹا نے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں اور
انہیں گھروں تک محدود کر رہے ہیں ۔ عالمی برادری کو افغانستان کی خواتین
اور لڑکیوں کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے اور خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ ہونے
والے اس ظلم و ستم کے خلاف فوری آواز اٹھانا پڑے گی، اگر فوری ایسا نہ کیا
گیا تو دیر ہو جائے گی۔
|