چین کا ڈیجیٹل تعلیم کے فروغ میں "پہلا" نمبر

اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈیجیٹل تعلیم کے دور میں، وسائل کی ترقی، پریزنٹیشن اور مواصلات کے متعدد طریقوں نے روایتی کلاس روم کے تدریسی ماحول اور طرز تعلیم کے طریقوں کو کافی حد تک تبدیل کر دیا ہے.اسی کڑی کو آگے بڑھاتے ہوئےابھی حال ہی میں چین کے دارالحکومت بیجنگ میں عالمی ڈیجیٹل ایجوکیشن کانفرنس کا کامیاب انعقاد کیا گیا جس سے نہ صرف چین میں تعلیم کی ڈیجیٹلائزیشن کو مزید فروغ ملے گا بلکہ ڈیجیٹل تعلیم کی عالمی ترقی میں بھی نئی رفتار پیدا ہوگی۔ڈیجیٹل تبدیلی اور تعلیم کے مستقبل کے موضوع پر مبنی اس کانفرنس میں 130 سے زائد ممالک اور خطوں کے نمائندے نے شرکت کی۔یہ امر لائق تحسین ہے کہ چین نے حالیہ برسوں میں تعلیم میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کو بہتر طریقے سے لاگو کرنے کے لئے متعدد منصوبے جاری کیے ہیں جبکہ کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کی 20 ویں قومی کانگریس نے بھی تعلیم کی ڈیجیٹلائزیشن اور ایک ایسے ملک و معاشرے کی تعمیر پر زور دیا ہے جس میں زندگی بھر سیکھنے اور حصول علم کی کوشش کی جائے۔

حالیہ برسوں میں، چین نے اسکولوں میں ڈیجیٹل تدریس کے لئے سہولیات کو اپ گریڈ کیا ہے. چین بھر کے تمام پرائمری اور مڈل اسکولوں کی انٹرنیٹ تک رسائی ہے، جبکہ 2012 میں یہ شرح 25 فیصد تھی۔ مزید برآں، تین چوتھائی سے زیادہ چینی اسکولوں کے پاس وائرلیس نیٹ ورک ہیں، اور تقریباً 99.5 فیصد اسکولوں میں ملٹی میڈیا کلاس رومز ہیں۔مارچ 2022 میں ، "اسمارٹ ایجوکیشن آف چائنا" کے نام سے ایک عوامی آن لائن سروس پلیٹ فارم باضابطہ طور پر لانچ کیا گیا تھا ، جس میں تعلیم ، تدریس ، اسکول گورننس اور تعلیمی جدت طرازی جیسے شعبوں پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔تا حال ، پلیٹ فارم کو 200 سے زائد ممالک اور خطوں سے 6.7 بلین سے زیادہ پیج ویوز اور ایک بلین سے زیادہ وزیٹرز مل چکے ہیں۔یہ پلیٹ فارم ملک کے نسبتاً کم ترقی یافتہ وسطی اور مغربی حصوں میں دیہی پرائمری اور سیکنڈری اسکولوں کے لئے اعلیٰ معیار کے تعلیمی وسائل تک رسائی فراہم کرتا ہے۔ ساتھ ساتھ یہ ملک بھر کی جامعات کے مابین معیاری وسائل کا اشتراک کرنے کی بھی اجازت دیتا ہے۔

آج ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز کی مدد سے چین کے مختلف صوبوں کے طلباء ایک دوسرے سے سیکھتے ہوئے کئی اختراعی منصوبوں کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ڈیجیٹل سمولیشن اور ورچوئل رئیلٹی ٹیکنالوجیز کا استعمال کرتے ہوئے، کلاس روم میں اسمبلی سائٹ کی نمائندگی ممکن ہو چکی ہے اور فائیو جی کے ذریعے مختلف مقامات پر طلباء ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت کرسکتے ہیں۔اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہوا ہے کہ چین میں بڑے پیمانے پر اوپن آن لائن کورسز کو بھی نمایاں انداز سے فروغ ملا ہے۔2013 کے بعد سے ،ڈیجیٹل تعلیم کی اس نئی شکل نے بے شمار طلباء کو مفت تعلیم فراہم کی ہے اور آج اس کا دائرہ کار چین بھر تک پھیل چکا ہے۔حیرت انگیز طور پر اس وقت چین میں بڑے پیمانے پر اوپن آن لائن کورسز کی تعداد 64,500 سے تجاوز کر گئی ہے۔ نومبر 2022 تک ، ملک میں 402 ملین رجسٹرڈ صارفین کے لیے آن لائن کورسز قابل رسائی تھے۔یوں چین آن لائن کورسز کی تعداد اور آن لائن سیکھنے والوں کی تعداد ، دونوں اعتبار سے دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔

عالمی تناظر میں ، چین نے دنیا کے ساتھ مل کر 168 مربوط کورسز تشکیل دیے ہیں، 13 عالمی شہرت یافتہ یونیورسٹیوں کے ساتھ باہمی تسلیم شدہ کریڈٹ کورسز کا آغاز کیا ہے، اور انگریزی میں آٹھ اوپن کورسز تیار کیے ہیں، جو دنیا بھر میں سات ملین سے زیادہ طالب علموں کو اپنی جانب متوجہ کر رہے ہیں۔ اسی ورلڈ ڈیجیٹل ایجوکیشن کانفرنس کے دوران بھی چین نے واضح کیا ہے کہ وہ ڈیجیٹل تعلیم کے معیار میں دیگر ممالک کے ساتھ تعاون کو گہرا کرنے، مزید معیاری خدمات اور مصنوعات متعارف کرانے اور ڈیجیٹل تعلیم کی گورننس اور عوامی خدمات کو بہتر بنانے کا خواہاں ہے۔امید کی جا سکتی ہے کہ چین کا ڈیجیٹل تعلیم کا یہ ماڈل دیگر دنیا بالخصوص ترقی پزیر ممالک کے لیے بھی ایک قابل تقلید نمونہ ثابت ہو گا اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے ذریعے معیاری تعلیم تک ہر ایک کی رسائی خواب نہیں بلکہ حقیقت بن کر دنیا کے لیے ثمرات لائے گی۔
 

Shahid Afraz Khan
About the Author: Shahid Afraz Khan Read More Articles by Shahid Afraz Khan: 962 Articles with 409003 views Working as a Broadcast Journalist with China Media Group , Beijing .. View More