دہشت گردی اور فتنۂ خوارج- مبسوط تاریخی فتویٰ

گزشتہ کئی سالوں سے دہشت گردی کی اذیت ناک لہر نے امتِ مسلمہ کو بالعموم اور پاکستان کو بالخصوص بدنام کر رکھا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جہاں مسلمان مجموعی طور پر دہشت گردی کی مذمت اور مخالفت کرتے ہیں اور اسلام کے ساتھ اس کا دور کا رشتہ بھی قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں، وہاں کچھ لوگ اس کی خاموش حمایت بھی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ لوگ اس کی کھلم کھلا مذمت و مخالفت کی بجائے موضوع کو خلط مبحث کے ذریعے الجھا دیتے ہیں۔ دہشت گردی کے قومی، علاقائی اور بین الاقوامی اسباب میں عالمی سطح پر بعض معاملات میں مسلمانوں کے ساتھ نا اِنصافی، بعض خطوں میںبالادست طاقتوں کے دُہرے معیارات اور کئی ممالک میں شدت پسندی کے خاتمے کے لئے طویل المیعاد جارحیت جیسے مسائل بنیادی نوعیت کے ہیں۔

اِسی طرح دہشت گردوں کی طرف سے مسلح فساد انگیزی، انسانی قتل و غارت گری، دنیا بھر کی پُرامن انسانی آبادیوں پر خودکش حملے، مساجد، مزارات، تعلیمی اداروں، بازاروں، سرکاری عمارتوں، ٹریڈ سنٹروں، دفاعی تربیتی مرکزوں، سفارت خانوں، گاڑیوں اور دیگر پبلک مقامات پر بم باری جیسے اِنسان دشمن، سفاکانہ اور بہیمانہ اقدامات روز مرہ کا معمول بن چکے ہیں۔ یہ لوگ آئے دن سینکڑوں ہزاروں جانوں کے بے دریغ قتل اور انسانی بربادی کے عمل کو جہاد سے منسوب کر دیتے ہیں اور یوں پورے اسلامی تصورِ جہاد کو خلط ملط کرتے رہتے ہیں۔ اس سے نوجوان نسل کے ذہن بالخصوص اور کئی سادہ لوح مسلمانوں کے ذہن بالعموم پراگندہ اور تشکیک و ابہام کا شکار ہو رہے ہیں کیونکہ ایسے اقدامات کرنے والے مسلمانوں میں سے ہی اٹھتے ہیں، اسلامی عبادات و مناسک کی انجام دہی بھی کرتے ہیں اور ان کی ظاہری وضع قطع بھی شریعت کے مطابق ہوتی ہے۔ لہٰذا عام مسلمان ہی نہیں بلکہ بیشتر علماء اور دانش وَر بھی ایک مخمصے میں مبتلا ہیں کہ ایسے افراد اور گروہوں کے اس طرح کے طرزِ عمل، طریقہ کار اور اقدامات کے بارے میں شرعی اَحکامات کیا ہیں؟

علاوہ ازیں مغربی دنیا میں میڈیا عالمِ اسلام کے حوالے سے صرف شدت پسندی اور دہشت گردی کے اقدامات و واقعات کو ہی highlight کرتا ہے اور اسلام کے مثبت پہلو، حقیقی پرامن تعلیمات اور اِنسان دوست فلسفہ و طرزِ عمل کو قطعی طور پر اُجاگر نہیں کرتا۔ حتی کہ خود عالمِ اسلام میں دہشت گردی کے خلاف پائی جانے والی نفرت، مذمت اور مخالفت کا سرے سے تذکرہ بھی نہیں کرتا۔ جس کے نتیجے میں منفی طور پر اسلام اور انتہاء پسندی و دہشت گردی کو باہم بریکٹ کر دیا گیا ہے اور صورت حال یہ ہے کہ اسلام کا نام سنتے ہی مغربی ذہنوں میں دہشت گردی کی تصویر ابھرنے لگتی ہے۔ اس سے نہ صرف مغرب میں پرورش پانے والی مسلم نوجوان نسل انتہائی پریشان، متذبذب اور اضطراب انگیز ہیجان کا شکار ہے بلکہ پورے عالم اسلام کے نوجوان اعتقادی، فکری اور عملی لحاظ سے متزلزل اور ذہنی انتشار میں مبتلا ہو رہے ہیں۔

ان تمام حالات کے نتیجے میں دو طرح کے ردعمل اور نقصانات پیدا ہو رہے ہیں۔ ایک نقصان اسلام اور اُمتِ مسلمہ کا اور دوسرا نقصان عالمِ مغرب اور بالخصوص پوری انسانیت کا۔ اسلام اور امت مسلمہ کا نقصان تو یہ ہے کہ عصرِ حاضر کی نوجوان نسل جو اسلام کی حقیقی تعلیمات سے شناسا نہیں وہ میڈیا سے متاثر ہو کر انتہا پسندی اور دہشت گردی کو (معاذ اللہ) دین و مذہب کے اثرات یا دینی اور مذہبی لوگوں کے رویوں کی طرف منسوب کر دیتے ہیں اور یوں اپنے لئے لادینیت یا دیں گریزی کی راہ میں بہتری سمجھنے لگتے ہیں۔ یہ غلط طرزِ فکر انہیں رفتہ رفتہ بے دین بنا رہا ہے جس کا نقصان پوری اُمتِ مسلمہ کی اگلی نسلوں کو ہوگا۔ اس کے برعکس دوسرا نقصان، عالمِ مغرب اور بالخصوص پوری انسانیت کے لئے یہ ہے کہ مذکورہ بالا پالیسیوں اور منفی سرگرمیوں کا کئی مسلم نوجوانوں پر منفی ردّعمل ہو رہا ہے۔ وہ اِسے عالمِ مغرب کے بعض مؤثر حلقوں کی اسلام کے خلاف منظم سازش اور عداوت قرار دے رہے ہیں، جس کے نتیجے میں وہ ردّعمل کے طور پر راہِ اعتدال (moderation) چھوڑ کر نفرت و انتقام کا جذبہ لے کر انتہاء پسند (extremist) اور پھر شدت پسند اور پھر بالآخر دہشت گرد بن رہے ہیں یا بنائے جا رہے ہیں۔ گویا مغربی پالیسیوں کی وجہ سے دہشت گردوں کو مزید نئی کھیپ اور نئی افرادی قوت میسر آتی جا رہی ہے اور یہ سلسلہ لامتناہی ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ سو دونوں صورتوں میں نقصان عالم انسانیت کا بھی ہے اور عالم اسلام کا بھی۔

مزید یہ کہ ایسے حالات عالم اسلام اور عالم مغرب کے درمیان تناؤ اور کشیدگی میں مزید اضافہ کرتے جا رہے ہیں اور دہشت گردی کے فروغ سے مسلم ریاستوں میں مزید دخل اندازی اور ان پر دباؤ بڑھائے جانے کا راستہ بھی زیادہ سے زیادہ ہموار ہوتا جارہا ہے۔ پھریہ خلیج عالمی سطح پر انسانیت کو نہ صرف بین المذاہب مخاصمت کی طرف دھکیل رہی ہے بلکہ عالمی انسانی برادری میں امن و سکون اور باہمی برداشت و رواداری کے امکانات بھی معدوم ہوتے جا رہے ہیں۔

اِن حالات میں ہم نے ضروری سمجھا کہ ملتِ اسلامیہ اور پوری دنیا کو دہشت گردی کے مسئلہ پر حقیقتِ حال سے آگاہ کیا جائے اور اسلام کا دو ٹوک موقف قرآن و سنت اور کتبِ عقائد و فقہ کی روشنی میں واضح کر دیا جائے۔ یہ موقف شرق تا غرب دنیا کے ہر خطہ میں تمام قابلِ ذکر اداروں اور مؤثر طبقات تک پہنچا دیا جائے تاکہ غلط فہمی اور شکوک و شبہات میں مبتلا جملہ مسلم و غیر مسلم حلقوں کو دہشت گردی کے بارے میں اسلام کا نقطۂ نظر سمجھنے میں مدد مل سکے۔ اِس تحقیقی دستاویز کے مندرجات اور مشتملات کا اِجمالی خاکہ کچھ اِس طرح ہے کہ اِس دستاویز کے پہلے باب میں اسلام کا معنی و مفہوم واضح کرتے ہوئے دین اسلام کے تین درجات۔ اسلام، ایمان اور احسان۔ پر بحث کی گئی ہے۔ یہ تینوں الفاظ اپنے معنی اور مفہوم کے اعتبار سے سراسر امن و سلامتی، رحمت و رافت، تحمل و برداشت، محبت و الفت، احسان شعاری اور احترام آدمیت کی تعلیم کے حامل ہیں۔

اِس دستاویز کے دوسرے باب میں درجنوں آیات اور بیسیوں اَحادیث کے ذریعے یہ ثابت کیا گیا ہے کہ مسلمانوں کا قتلِ عام اور دہشت گردی اسلام میں قطعی حرام بلکہ کفریہ افعال ہیں۔ کبار ائمہ تفسیر و حدیث اورفقہاء و متکلمین کی تصریحات سے یہ ثابت کیا گیا ہے کہ چودہ سو سالہ تاریخ اسلام میں جملہ اہل علم کا فتویٰ یہی رہا ہے۔

فتویٰ کے اگلے حصے میں غیر مسلم شہریوں کے حقوق کو شرح و بسط کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ اِس ضمن میں متعدد آیات و احادیث اور آثار سے استنباط کرتے ہوئے کبار اَئمہ کرام کی آراء بھی درج کی گئی ہیں۔

علاوہ ازیں اس بحث اور تحقیق کا اہم ترین نقطہ یہ ہے کہ وہ کیا فکر، نظریہ، سوچ اور ذہنیت ہے جوایک مسلمان کو دوسرے مسلمانوں اور انسانوں کے قتل عام تک لے جاتی ہے؟ اُس کی نظر میں بازار میں خریداری کرنے والی عورتوں اور سکول جاتے معصوم بچوں کا قتل جائز ہی نہیں بلکہ باعث اجر و ثواب بن جاتا ہے۔ وہ کون سی قوت ہے جو اسے یہ یقین دلا دیتی ہے کہ مساجد میں نماز کے لئے جمع ہونے والے مسلمانوں کا قتل عام کرکے بھی وہ جنت کا حق دار بن جائے گا؟ زندگی جیسی اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت، ایک دہشت گرد کیوں اپنے ہی ہاتھوں خود کش حملہ کرکے ختم کر لیتا ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جو ہر ذی شعور کے ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔ اِن تمام اُبھرتے ہوئے سوالات کا جواب دینے کے لیے ہم نے علمی دلائل کے ساتھ ساتھ ان تاریخی حقائق سے بھی اِستدلال کیا ہے جن کی نشان دہی خود نبیِ آخر الزمان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے فرمائی تھی۔ ہم نے آیات قرآنی، اَحادیث نبوی اور تصریحات ائمہ کے ذریعے خوارج کی علامات اور عقائد و نظریات کا تفصیلی تجزیہ کرتے ہوئے یہ بات واضح کی ہے کہ دہشت گرد موجودہ دور کے خوارج ہیں۔

قرآن و حدیث، آثار صحابہ اور ائمہ و فقہاء کرام کے ناقابل تردید دلائل سے دہشت گردی کو خروج و بغاوت، فساد فی الارض اور کفریہ فعل قرار دینے کے بعد ہم نے ’’دعوت فکر و اصلاح‘‘ کے عنوان سے ان تمام ذمہ دار طاقتوں کو اس طرف بھی متوجہ کیا ہے کہ ملکی اور عالمی سطح پر ایسے تمام محرکات کا خاتمہ ہونا چاہیے جن سے عوام الناس ابہام کا شکار ہوتے ہیں اور دہشت گردی کے پیچھے کارفرما خفیہ قوتوں کو تقویت ملتی ہے۔

آج کل ایک بحث یہ بھی چل رہی ہے کہ چوں کہ غیر ملکی سامراجی طاقتیں پاکستان سمیت مسلم ممالک میں بے جا مداخلت کر رہی ہیں، اس لیے ان کے مفادات کو نقصان پہنچانے اور ان کا راستہ روکنے کے لیے جہادی گروہ سرگرمِ عمل ہیں۔ ان کا عمل اگرچہ درست نہیں لیکن نیت اور اِرادہ چوں کہ دفاع اسلام ہے، اِس لیے انہیں برا نہیں کہنا چاہیے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ایک گھناؤنا مذاق اور افسوس ناک روِش ہے۔ اِس فکری مغالطے کے ازالے کے لئے بحث کے آغاز میں مختصر سا حصہ اِس موضوع کے لیے بھی مختص کر دیا گیا ہے جس میں اس حقیقت کو آیات و احادیث کی روشنی میں واضح کیا گیا ہے کہ برائی کسی بھی صورت میں نہ اچھائی بن سکتی ہے اور نہ ظلم و زیادتی، حسنِ نیت کے باعث نیکی شمار ہوسکتی ہے۔

ان ابتدائی وضاحتی معروضات کے ساتھ یہ حقیقت بیان کر دینا بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ ہم یہ تحقیقی موقف محض دینِ اسلام کی عزت و حرمت اور خدمتِ انسانیت کی خاطر پیش کر رہے ہیں۔ اس سے ہمارا مقصود نہ کسی عالمی طاقت کی غیر دانش مندانہ کاروائیوں کی حمایت ہے اور نہ پاکستان سمیت کسی بھی حکومت کی غلط پالیسیوں کا تحفظ۔ ہمیں نہ کسی حکومت کی خوشنودی چاہیے اور نہ کسی عالمی ادارے یا ملک کی طرف سے دادِ تحسین۔ ہم ہمیشہ کی طرح یہ کام بھی اپنا منصبی فریضہ اور دینی ذمہ داری سمجھتے ہوئے سرانجام دے رہے ہیں۔ ہمارا مقصود اسلام کے روشن چہرے پر لگے ہوئے دہشت گردی کے بدنما داغ کو دھونا، مسلمانوں کو قرآن و سنت کی اصل تعلیمات سے رُوشناس کرانا اور انسانیت کو دہشت گردی کی دہکتی آگ سے نجات دلانے کی کوشش کرنا ہے۔

اللہ تعالیٰ ہماری اِس کاوِش کو اپنے حبیبِ مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تصدق سے اپنی بارگاہ میں شرفِ قبولیت سے نوازے۔

ذہنوں میں اٹھنے والے سوالات اور اُن کے مختصر جوابات دہشت گردی کے موجودہ خون آشام واقعات کو دیکھ کر ذہنوں میں چند سوالات اُٹھتے ہیں اور دنیا بھر کے عوام و خواص اِسلام سے متعلق اِن سوالات کی روشنی میں تسلی بخش وضاحت مانگتے ہیں۔ اِس تحریر میں کوشش کی گئی ہے کہ اِن تمام سوالات کا تفصیلی، مدلّل اور دو ٹوک جواب دیا جائے۔ ذیل میں ترتیب وار پہلے اِن سوالات کے ساتھ مختصر جوابات دیے جارہے ہیں اور اِنہی مختصر جوابات کی تفصیل دستاویز کے آئندہ اَبواب میں بالترتیب پیش کی جائے گے۔

1۔ اس سلسلے میں سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ کیا کسی جماعت کا خود کو حق پر سمجھتے ہوئے اپنے عقائد و نظریات کے فروغ و تسلط اور دوسروں کے عقائد کی اصلاح کے نام پر طاقت استعمال کرنا جائز ہے؟ کیا نظریاتی اِختلاف رکھنے والوں کو قتل کرنے، اُن کے مال لوٹنے اور اُن کی مساجد، مذہبی مقامات اور شعائر کو تباہ کرنے کی اسلام میں گنجائش ہے؟ اگر نہیں، تو اِس جرم کا ارتکاب کرنے والوں کے لیے اسلام نے کیا سزا مقرر کی ہے؟اسلام امن و سلامتی اور محبت و مروت کا دین ہے۔ اِسلامی تعلیمات کے مطابق مسلمان وہی شخص ہے جس کے ہاتھوں مسلم و غیر مسلم سب انسانوں کے جان و مال محفوظ رہیں۔ انسانی جان کا تقدس و تحفظ شریعتِ اِسلامی میں بنیادی حیثیت کا حامل ہے۔ کسی بھی انسان کی ناحق جان لینا اور اُسے قتل کرنا فعل حرام ہے بلکہ بعض صورتوں میں یہ عمل موجبِ کفر بن جاتا ہے۔ آج کل دہشت گرد اپنے عقائد و نظریات مسلط کرنے اور اپنے مخالفین کو صفحہ ہستی سے مٹا دینے کی ناکام کاوِش میں جس بے دردی سے خود کش حملوں اور بم دھماکوں کے ذریعے گھروں، بازاروں، عوامی و حکومتی دفاتر اور مساجد میں مسلمانوں کی جانیں لے رہے ہیں وہ صریحاً کفر کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ دنیا اور آخرت میں ان کے لئے ذلت ناک عذاب کی وعید ہے۔ دہشت گردی فی نفسہ کافرانہ فعل ہے اور جب اِس میں خود کشی کا حرام عنصر بھی شامل ہو جائے تو اس کی سنگینی میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔ اِس کتاب میں درجنوں آیات اور بیسیوں احادیث کے ذریعے یہ ثابت کیا جاچکا ہے کہ مسلمانوں کا قتل عام اور دہشت گردی اسلام میں قطعی حرام بلکہ کفریہ افعال ہیں۔ کبار ائمہ تفسیر و حدیث اورفقہاء و متکلمین کی تصریحات سمیت چودہ سو سالہ تاریخِ اسلام میں جملہ اہل علم کا فتوی یہی رہا ہے۔ اپنی بات منوانے اور دوسروں کے موقف کو غلط قرار دینے کے لیے اِسلام نے ہتھیار اٹھانے کی بجائے گفت و شنید اور دلائل سے اپنا عقیدہ و موقف ثابت کرنے کا راستہ کھلا رکھا ہے۔ ہتھیار وہی لوگ اُٹھاتے ہیں جن کی علمی و فکری اساس کمزور ہوتی ہے اور وہ جہالت و عصبیت کے ہاتھوں مجبور ہوتے ہیں، ایسے لوگوں کو اسلام نے باغی قرار دیا ہے جن کا ٹھکانہ جہنم ہے۔

2۔ اِس ضمن میں دوسرا سوال یہ اُٹھتا ہے کہ مسلم ریاست میں غیر مسلم شہریوں کے کیا حقوق ہیں؟ۃ اسلام صرف مسلم ریاست کے مسلمان شہریوں کے جان و مال، عزت و آبرو کی حفاظت کی ہی ضمانت نہیں دیتا بلکہ غیر مسلم شہریوں اور معاہدین کی عزت و آبرو اور جان و مال کو بھی برابرتحفظ کی ضمانت دیتا ہے، شریعت اسلامیہ میں مسلم ریاست کے غیر مسلم شہریوں کے حقوق مسلم شہریوں کی طرح ہی ہیں، بحیثیت انسان اِن میں کوئی فرق نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اِسلامی قوانین میں مسلم اور غیر مسلم شہری قصاص اور دیت میں برابر ہیں۔ غیر مسلموں کو مسلم معاشرے میں مکمل شخصی اور مذہبی آزادی حاصل ہے۔ غیر مسلم شہریوں، ان کے سفراء اور اُن کی املاک و عبادت گاہوں کو مکمل تحفظ حاصل ہے۔ اسی طرح تاجروں کے جان و مال کا تحفظ بھی اسلامی ریاست کی ذمہ داری ہے۔ لہٰذا اسلام کسی طور بھی پُراَمن و غیر متحارب غیر مسلم شہریوں کو قتل کرنے اور انہیں ایذاء رسانی کی اجازت نہیں دیتا۔ غیر مسلم پرامن شہریوں پر حملے کرنے والے، انہیں اغوا کر کے تاوان کا مطالبہ کرنے والے اور انہیں حبسِ بے جا میں رکھ کر ذہنی و جسمانی اذیت دینے والے اسلامی تعلیمات کی صریح خلاف ورزی کے مرتکب ہورہے ہیں۔

3۔ تیسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اسلام میں انسانی جان کی حرمت پر واضح اَحکامات موجود ہیں؟ کیا غیر مسلم عالمی طاقتوں کی ناانصافیوں اور مظالم کے رد عمل کے طور پر انتقاماً بے قصور اور پرامن غیر مسلم شہریوں اور سفارت کاروں کو اغواء کرنا اور قتل کرنا جائز ہے؟

انسانی جان کی عزت و حرمت پر اسلامی تعلیمات میں کس قدر زور دیا گیا ہے اِس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دوران جنگ بھی اِسلام غیر محارب لوگوں کے قتلِ عام کی اجازت نہیں دیتا۔ میدانِ جنگ میں بھی بچوں، عورتوں، ضعیفوں، بیماروں، مذہبی رہنماؤں اور تاجروں کو قتل کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ ہتھیار ڈال دینے والے، گھروں میں بند ہو جانے والے یا کسی کی امان میں آجانے والے لوگوں کو بھی قتل نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی عامۃ الناس کا قتلِ عام کیا جا سکتا ہے۔ عبادت گاہوں، عمارتوں، بازاروں یہاں تک کہ کھیتوں، فصلوں اور درختوں کو بھی تباہ نہیں کیا جا سکتا۔ ایک طرف حالت جنگ میں بھی اس قدر احتیاط پر مبنی احکام و قوانین ہیں اور دوسری طرف دہشت گردوں کی ایسی کارروائیاں جو بلا امتیازِ مذہب و ملت، پرامن لوگوں، عورتوں، بچوں اور مساجد میں عبادت کرنے والے نمازیوں کے قتل عام کا باعث بن رہی ہوں، پھر بھی وہ اسلام کا نام لیں اور جہاد کی بات کریں، اِس سے بڑا تضاد تو شاید چشم فلک نے کبھی نہ دیکھا ہوگا۔ غیر مسلم عالمی طاقتوں کی ناانصافیوں اور بلاجواز کارروائیوں کے رد عمل کے طور پر پُراَمن غیر مسلم شہریوں اور غیر ملکی سفارت کاروں کو قتل کرنا یا اُنہیں حبس بے جا میں رکھنا قطعاً جائز نہیں۔ جو ایسا کرتا ہے اُس کا اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کوئی تعلق نہیں۔

4۔ چوتھا اور اہم سوال یہ ہے کہ کیا مسلم حکمرانوں کی غیر اسلامی پالیسیوں اور فاسقانہ طرز عمل کے باعث اُنہیں حکومت سے ہٹانے، اپنے مطالبات منوانے یا اُنہیں راہ راست پر لانے کے لیے مسلح جد و جہد کی جاسکتی ہے؟ کیا آئینی طور پر قائم کی گئی مسلم حکومت کے نظم اور عمل داری (writ) سے بغاوت جائز ہے؟ نیز حکمرانوں کی اِصلاح اور تبدیلی کا جائز طریقہ کار کیا ہونا چاہیے؟اسلام صرف مذہب ہی نہیں ایک مکمل دین ہے۔ اسلام نے جہاں زندگی کے ہر شعبہ کے لئے ضابطہ دیا ہے وہاں معاشرے کی اجتماعیت کے تحفظ کا اہتمام بھی کیا ہے۔ اس کے لئے ریاستی اداروں کے حقوق و فرائض طے کر دیے گئے ہیں۔ مسلم ریاست کے جملہ شہریوں کو ریاستی قوانین اور اصول و ضوابط کا پابند بنایا گیا ہے۔ انہی ضابطوں میں سے ایک یہ ہے کہ مسلم ریاست اور معاشرے کو امن اور بقاے باہمی کا نمونہ ہونا چاہیے۔ اس لئے مسلم ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھانے، اُس کے نظم اور اتھارٹی کو چیلنج کرنے اور اس کے خلاف اِعلانِ جنگ کرنے کی اسلام میں سخت ممانعت ہے۔ اس عمل کو شرعاً بغاوت اور خروج کا نام دیا گیا ہے۔ خدانخواستہ اگر ایسے حالات پیدا ہوجائیں تو مسلم حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس دہشت گردی اور بغاوت کا کلیتًاقلع قمع کرے تاکہ کسی فرد یا گروہ کو معاشرتی امن تباہ کرنے اور انسانی خون سے ہولی کھیلنے کی جرات نہ ہو۔ انسانی معاشرے اور بالخصوص مسلم ریاست کا امن اسلام کو اس قدر عزیز ہے کہ اس مقصد کے لئے حکمرانوں کے فسق و فجور، ناانصافی اور ظلم و استبداد کو بھی مسلح بغاوت کے لئے بناء جواز بنانے کی اجازت نہیں۔ احادیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی میں مسلم ریاست کے خلاف بغاوت کا جواز اس وقت تک نہیں بن سکتا جب تک حکمران کفرِ بواح (صریح، اعلانیہ اور قطعی کفر) کے مرتکب نہ ہوں اور اقامتِ صلوۃ و دیگر اسلامی احکامات و شعائر کی بجا آوری کو بذریعہ طاقت روکنا نہ شروع کر دیں۔

آیات و احادیث اور تصریحات ائمہ تفسیر و فقہ کی روشنی میں بغاوت کی حرمت و ممانعت واضح ہے۔ اس سلسلے میں احادیث کے علاوہ صحابہ کرام، تابعین، اتباع التابعین، امام اعظم ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل اور دیگر جلیل القدر ائمہ دین رضوان اللہ علیہم اجمعین کے فتاویٰ کی روشنی میں یہ اَمر واضح ہے کہ مسلم ریاست کے خلاف بغاوت کی قطعی ممانعت پر اجماع امت ہے اور کسی مذہب و مسلک میں بھی اس پر اختلاف نہیں ہے۔ ایسے خروج اور بغاوت کو جو نظمِ ریاست کے خلاف ہو اور ہیئتِ اجتماعی کے باقاعدہ اذن و اجازت کے بغیر ہو وہ خانہ جنگی، دہشت گردی اور فتنہ و فساد ہوتا ہے، اسے کسی لحاظ سے بھی جہاد کا نام نہیں دیا جاسکتا۔

جہاں تک کسی بدکردار مسلمان حکمران یا حکومت کو راہِ راست پر لانے کے لیے جد و جہد کا تعلق ہے تو وہ ہرگز منع نہیں ہے۔ مسلح جد و جہد اور بغاوت کی ممانعت سے مراد یہ نہیں کہ برائی کو برائی نہ کہا جائے اور اسے روکنے کی کوشش نہ کی جائے یا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فرائضِ ایمانی کو ترک کر دیا جائے۔ اِحقاقِ حق اور اِبطالِ باطل مسلمانوں پر واجب ہے۔ اسی طرح اصلاحِ معاشرہ اور ابلیسی قوتوں کا مقابلہ دینی فرائض میں سے ہے۔ حکمرانوں اور نظامِ حکومت کی اصلاح کے لئے اور انہیں ظلم و جور اور فسق و فجور سے روکنے کے لئے تمام آئینی، سیاسی، جمہوری اور قانونی پر امن طریقے اپنانا نہ صرف جائز بلکہ واجب ہیں۔ اعلاء کلمۂ حق، انسدادِ استبداد اور بحالیِ نظامِ عدل کے لئے انفرادی، اجتماعی، تنظیمی اور جماعتی سطح پر تمام کاوشیں بروئے کار لانا فرائضِ دین میں سے ہے۔

5۔ دہشت گردی کی تاریخ میں خوارج کا عنصر ناقابلِ فراموش ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خوارج کون تھے، ان کا شرعی حکم کیا ہے اور کیا موجودہ دور کے دہشت گرد خوارج ہی کا تسلسل ہیں؟’’خوارج‘‘ دین اِسلام کے باغی اور سرکش تھے۔ ان کی اِبتداء عہد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ہی ہوگئی تھی۔ ان کی فکری تشکیل دورِ عثمانی رضی اللہ عنہ میں اور منظم و مسلح ظہور دورِ علوی رضی اللہ عنہ میں ہوا۔ اِن خوارج کے اَعمال و عبادات اور ظاہراً پابندیِ شریعت ایسی تھی کہ وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی بعض اوقات زیادہ عابد و زاہد محسوس ہوتے لیکن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واضح فرمان کے مطابق وہ اسلام سے کلیتاً خارج تھے۔ خوارج مسلمانوں کے قتل کو جائز سمجھتے، ان کی رائے اور نظریہ سے اتفاق نہ کرنے کے باعث صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی بھی تکفیر کرتے، نعرہ اِسلامی ’’لَا حُکْمَ إِلاَِّﷲ‘‘ بلند کرتے اور خلیفہ راشد سیدنا علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم کے خلاف مسلح خروج، بغاوت اور قتال کو نہ صرف جائز سمجھتے بلکہ عملاً اس کے ضمن میں قتل و غارت گری کرتے رہے۔ یہی خوارج درحقیقت تاریخِ اسلام میں سب سے پہلا دہشت گرد اور نظمِ ریاست کے خلاف باغی گروہ تھا۔ نصوصِ حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان کا ظہور ہر دور میں ہوتا رہے گا۔ گویا خوارج سے مراد فقط وہی ایک طبقہ نہیں تھا جو خلافت راشدہ کے خلاف نکلا بلکہ ایسی ہی صفات، نظریات اور دہشت گردانہ طرزِ عمل کے حامل وہ تمام گروہ اور طبقات ہوں گے جو قیامت تک اسی انداز سے نکلتے رہیں گے اور مسلح دہشت گردانہ کارروائیاں جہاد کے نام پر کریں گے۔ یہ شرعی اعمال کی بدرجہ اَتم ظاہری بجا آوری کے باوجود فکر و نظر کی اِس خرابی کے سبب اسلام سے خارج تصور ہوں گے۔ فرامین رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی میں ایسے لوگوں کو مذاکرات کے نام پر مہلت دینا یا اُن کے مکمل خاتمے کے بغیر چھوڑ دینا اسلامی ریاست کے لیے روا نہیں، سوائے اِس کے کہ وہ خود ہتھیار پھینک کر اپنے غلط عقائد و نظریات سے مکمل طور پر توبہ کرکے اپنی اِصلاح کرلیں۔

6۔ ایک سوال یہ بھی ہوتا ہے کہ فتنہ انگیزی، دہشت گردی اور مسلح بغاوت کے خاتمے کے لیے حکومت اور مقتدر طبقات کو کیا اقدامات اٹھانے چاہییں؟حکومت اور مقتدر اداروں کو چاہیے کہ وہ ملکی اور عالمی سطح پر ایسے تمام محرکات اور اسباب کا تدارک کریں جن سے عوام الناس تشکیک کا شکار ہوتے ہیں اور دہشت گردی کے سرغنے کئی مضطرب اور جذباتی نوجوانوں کو آسانی سے اکسانے، ورغلانے اور گمراہ کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں بلکہ انہیں دہشت گردی کے لئے تیار کرنے کا موقع میسر آتا ہے۔ دہشت گرد عناصر جن واقعات و حالات کو اپنے ناپاک ایجنڈے کے لئے بطور ایندھن استعمال کرتے ہیں ان پالیسیوں میں واضح اور مثبت تبدیلیوں کی ضرورت ہے تاکہ ان اَسباب و محرکات کا بھی قلع قمع کیا جا سکے۔ اسی طرح اگر عالمی طاقتیں اور پاکستانی ایجنسیاں عوام کے حقیقی مسائل، مشکلات اور شکایات کی طرف توجہ نہیں دیں گی اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے دو رُخی پالیسی نہیں چھوڑیں گی، اُس وقت تک امن کی حقیقی بحالی محض خواب ہی رہے گی۔

7۔ اِس ضمن میں ایک اور اَہم سوال جو ایک مغالطے کی صورت میں خواص و عوام کے درمیان گردش کر رہا ہے وہ یہ ہے کہ کیا دہشت گردی پر مبنی مندرجہ بالا ظالمانہ کارروائیاں اعلاءِ کلمۂ حق اور مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کی جد و جہد کے ارادے سے سند جواز حاصل کرسکتی ہیں؟آج بھی دہشت گرد خوارج کی طرح اسلام کا ہی نام لیتے اور اعلاء کلمۂ حق کا نعرہ لگاتے ہیں لیکن ان کے جملہ اقدامات اسلامی تعلیمات کے سراسر خلاف ہیں۔ جب اِن کے حامیوں کے پاس اِن کے دفاع کے لئے کوئی شرعی دلیل نہیں رہتی تو وہ بات کا رخ حکمرانوں کے غیر شرعی کاموں اور عالمی طاقتوں کے ظلم و استبداد کی طرف موڑ دیتے ہیں۔ اِس طرح یہ جواز پیش کرتے ہیں کہ دہشت گرد اگرچہ اقدامات تو غلط کر رہے ہیں مگر اُن کی نیت درست ہے۔ یقینا یہ ایک بہت بڑا مغالطہ ہے جس کا شکار آج کل پڑھے لکھے بھی ہیں اور اَن پڑھ بھی۔ برائی ہر صورت میں برائی ہے اور ظلم کی جو توجیہ بھی کریں وہ ظلم ہی رہے گا۔ لہٰذا کوئی بھی فعلِ حرام نیت کے اچھا ہونے سے حلال نہیں بن سکتا کیوں کہ شریعت اسلامی میں حکم عمل پر لگایا جاتاہے۔ قتلِ انسانیت، جبر و بربریت، دہشت گردی، فساد فی الارض اور مسلح بغاوت کسی بھی نیک ارادہ و عزم کے باوجود قابلِ معافی نہیں ہے اور نہ ہی اس میں کسی رخصت کی گنجائش ہے۔ لہٰذا دہشت گردوں اور اُن کے بہی خواہوں کا یہ استدلال بھی شرعاً باطل ہے۔ چنانچہ اپنے دلائل کا آغاز ہم اِسی مغالطے کی وضاحت سے کر رہے ہیں کہ حسنِ نیت سے بدی کسی صورت بھی نیکی نہیں بن سکتی۔

حسن نیت سے بدی نیکی نہیں بن سکتی اگر قتل و غارت اور تخریب کاری کے پیچھے کوئی نیک نیت اور اچھا مقصد کار فرما ہو، تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس نیک نیتی کے باعث ظلم و بربریت کا عمل جائز قرار پاسکتا ہے؟ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ خودکش دھماکے غلط سہی؛ لوگوں کا قتلِ عام بھی برا سہی؛ ملک میں فتنہ و فساد پھیلانا بھی حرام سہی؛ تعلیمی، تربیتی، صنعتی، تجارتی اور عوامی فلاح و بہبود کے مراکز کو تباہ و برباد کرنا بھی گناہِ عظیم سہی؛ مگر کرنے والوں کی نیت نیک ہوتی ہے اور وہ یہ سب کچھ غیر ملکی ظلم و بربریت اور مسلمانوں پر کی جانے والی جارحیت کے ردِّ عمل کے طور پر جہاد سمجھ کر کرتے ہیں، لہٰذا ان کو موردِ الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔

اس مختصر بحث میںہم اس سوچ کا جائزہ قرآن و سنت کی روشنی میں لیں گے کہ قربِ اِلٰہی کے حصول کی نیت سے کی جانے والی بت پرستی کو قرآن حکیم نے ردّ کر دیا۔ اس حقیقت کو قرآن و سنت میں بڑی وضاحت و تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ تفہیم کے لئے چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے:

أَلَا لِلَّهِ الدِّينُ الْخَالِصُ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّهِ زُلْفَى إِنَّ اللَّهَ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ فِي مَا هُمْ فِيهِ يَخْتَلِفُونَ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ كَاذِبٌ كَفَّارٌO

الزمر، 39: 3

’’(لوگوں سے کہہ دیں:) سُن لو! طاعت و بندگی خالصتاً اﷲ ہی کے لیے ہے، اور جن (کفّار) نے اﷲ کے سوا (بتوں کو) دوست بنا رکھا ہے، وہ (اپنی بُت پرستی کے جھوٹے جواز کے لیے یہ کہتے ہیں کہ) ہم اُن کی پرستش صرف اس لیے کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اﷲ کا مقرّب بنا دیں، بے شک اﷲ اُن کے درمیان اس چیز کا فیصلہ فرما دے گا جس میں وہ اختلاف کرتے ہیں، یقینا اﷲ اس شخص کو ہدایت نہیں فرماتا جو جھوٹا ہے، بڑا ناشکر گزار ہےo‘‘

مشرکین مکہ سے جب ان کی بت پرستی کی وجہ پوچھی گئی تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم ان کی عبادت محض اس لئے کرتے ہیں کہ یہ ہمیں اس پوجا کے عوض اﷲ تعالیٰ کا قرب عطا کریں گے۔ قرب الٰہی کے حصول کی نیت اچھی ہے مگر بت پرستی کفر و شرک ہے۔ سو ایک اچھی خواہش اور نیک نیت کے باعث بت پرستی کے مشرکانہ فعل کو جواز نہیں مل سکا۔

اِسی طرح دہشت گردوں کا دعوی اِصلاح بھی قبول نہیں ہوگا کیونکہ دہشت گرد اپنے عمل سے اِصلاح نہیں بلکہ خونریزی اور فساد انگیزی کا ثبوت دیتے ہیں۔ اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُّعْجِبُکَ قَوْلُه فِی الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَيُشْهِدُ اﷲَ عَلٰی مَا فِیْ قَلْبِه وَهُوَ اَلَدُّ الْخِصَامِo وَاِذَا تَوَلّٰی سًعٰی فِی الْاَرْضِ لِيُفْسِدَ فِيْهَا وَيُهْلِکَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ ط وَاﷲُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَo وَاِذَا قِيْلَ لَهُ اتَّقِ اﷲَ اَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالْاِثْمِ فَحَسْبُه جَهَنَّمُ ط وَلَبِئْسَ الْمِهَادُo

البقرة، 2: 204 - 206

’’اور لوگوں میں کوئی شخص ایسا بھی (ہوتا) ہے کہ جس کی گفتگو دنیاوی زندگی میں تجھے اچھی لگتی ہے اور وہ اﷲ کو اپنے دل کی بات پر گواہ بھی بناتا ہے، حالاں کہ وہ سب سے زیادہ جھگڑالو ہےo اور جب وہ (آپ سے) پھر جاتا ہے تو زمین میں (ہر ممکن) بھاگ دوڑ کرتا ہے تاکہ اس میں فساد انگیزی کرے اور کھیتیاں اور جانیں تباہ کر دے، اور اﷲ فساد کو پسند نہیں فرماتاo اور جب اسے اس (ظلم و فساد پر) کہا جائے کہ اﷲ سے ڈرو تو اس کا غرور اسے مزید گناہ پر اکساتا ہے، پس اس کے لیے جہنم کافی ہے اور وہ یقینا برا ٹھکانا ہےo‘‘

اِن آیاتِ مبارکہ میں بھی یہی بات سمجھائی گئی ہے کہ کئی لوگ ایسی گفتگو کریں گے جو ظاہری دلائل کے تناظر میں اچھی لگے گی۔ وہ لوگ اپنی نیک نیتی پر قسمیں کھائیں گے اور اپنے اچھے مقاصد اور نیک اہداف پر اللہ تعالیٰ کو گواہ بھی بنائیں گے، مگر ان کے ایسے قول و شہادت کے باوجود باری تعالیٰ نے انہیں فسادی اور شر پسند قرار دیا ہے اور ان کے لئے عذابِ جہنم کا اعلان فرمایا ہے۔ گویا ان شر پسندوں کی طرف سے اپنی نیتوں پر قسمیں کھانا اس لئے ردّ کر دیا گیا کہ ان کا عمل واضح طور پر دہشت گردی اور فساد انگیزی پر مشتمل ہے۔ لہٰذا ان کی مجرمانہ کارروائیوں کو اُن کی نیتوں اور ارادوں کی صفائی میں کھائی گئی قسموں سے جواز اور معافی نہیں مل سکی۔ یہ قرآن مجید اور شریعتِ اسلامیہ کا بنیادی قاعدہ ہے۔ یہی نکتہ درج ذیل آیتِ کریمہ میں واضح کیا گیا ہے:

وَاِذَا قِيْلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِلا قَالُوْا اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَo اَلَآ اِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُوْنَ وَلٰکِنْ لاَّ يَشْعُرُوْنَo

البقرة، 2: 11، 12

’’اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد بپا نہ کرو، تو کہتے ہیں: ہم ہی تو اصلاح کرنے والے ہیں (یعنی مصلحین ہیں)o آگاہ ہو جاؤ! یہی لوگ (حقیقت میں) فساد کرنے والے ہیں مگر انہیں (اس کا) احساس تک نہیںo‘‘

آپ نے دیکھا کہ یہاں بھی اسی مفسدانہ ذہنیت اور مجرمانہ نفسیات کا ذکر ہے کہ فتنہ و فساد بپا کرنے والے کبھی اپنے عمل کو فساد نہیں سمجھتے بلکہ اسے اصلاح اور جہاد کا نام دیتے ہیں۔ اس لئے کہ وہ بزعمِ خویش معاشرے میں خیر و اصلاح لانے کے نام پر ظلم و سفاکی کی ساری کارروائیاں کرتے ہیں۔ آج یہی المیہ ہے کہ دہشت گردی، قتل و غارت گری اور فساد انگیزی کے مرتکب لوگ، مجرمانہ، باغیانہ، ظالمانہ، سفّاکانہ اور کافرانہ کارروائیوں کو ملکی مفاد کے دفاع، اسلام کی حفاظت اور غیر ملکی جارحیت کے خلاف ردّ عمل کے عنوانات کا جامہ ہاے جواز پہناتے ہیں۔

یہ معلوم ہونا چاہیے کہ جس طرح نیت کے اچھا ہونے سے فعلِ حرام جائز قرار نہیں پا سکتا، ارادے کے نیک ہونے سے کفریہ فعل درست قرار نہیں پا سکتا اور مقاصد کے پاک ہونے سے ناپاک فعل طاہر و مطہّر نہیں ہو سکتا؛ اسی طرح جہاد کی نیت اور ارادہ کر لینے سے فساد کبھی جائز نہیں ہو سکتا۔ دینِ اسلام کی حفاظت، غیر ملکی جارحیت اور اُمتِ مسلمہ پر ہونے والی ناانصافیوں اور زیادتیوں کے اِنتقام کی نیت اور ارادہ کر لینے سے پُراَمن شہریوں کاقتلِ عام، عوامی اَملاک، مساجد اور آبادیوں کی تباہی و بربادی اور بے دریغ ظلم و بربریت کبھی حلال نہیں ہو سکتی۔ اِسی طرح اَحکامِ اِسلام اور نظامِ عدل کے نفاذکی نیت سے دہشت گردی اور قتل و غارت گری کبھی جائز نہیں ہوسکتی اور نہ ہی اِن مذموم کاروائیوں کے لئے کوئی استثنا یا معافی و رخصت کی صورت نکل سکتی ہے۔ ایسے باغیانہ اور مفسدانہ گروہوں کے بارے میں قرآن حکیم ارشاد فرماتا ہے:

اَلَّذِينَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِی الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُوْنَ اَنَّهُمْ يُحْسِنُوْنَ صُنْعًاo

الکهف، 18: 104

’’یہ وہ لوگ ہیں جن کی ساری جد و جہد دنیا کی زندگی میں ہی برباد ہوگئی اور وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ ہم بڑے اچھے کام انجام دے رہے ہیںo‘‘

قرآن و حدیث کے عمیق مطالعے سے یہ بات بلا خوفِ تردید کہی جا سکتی ہے کہ اسلام جائز مقاصد کو صرف جائز طریقوں سے پانے، نیک اَہداف کو صرف حلال وسائل سے حاصل کرنے اور پاکیزہ منازل تک صرف درست وسائط سے پہنچنے کی شرط عائد کرتا ہے۔ پاک منزل کبھی پلید راستے سے نہیں ملتی۔ مسجد کی تعمیر بڑا نیک کام ہے لیکن بینک میں ڈاکہ ڈال کر اس کی تعمیر کو کسی صورت میں جائز قرار نہیں دیا جاسکتا۔ رحم کے مقاصد کبھی ظالمانہ طریقوں سے حاصل نہیں ہوتے اور مومنانہ عزائم کبھی کافرانہ روش سے پورے نہیں ہوتے۔ مختصر یہ کہ خیر، خیر ہی کے طریق سے آتی ہے، شر کے طریق سے نہیں۔ یہ اس دین کی عظمت اور طہارت ہے کہ اس نے منزل اور راستہ دونوں کی اصلاح و تطہیر کی ہے، مقصد اور طریقہ دونوں کو پاکیزہ اور مہذب بنایا ہے۔

جو لوگ اپنی ظالمانہ روِش اور مذموم کردار کے جواز کے لیے انما الاعمال بالنیات (1) (اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے) سے استدلال کرتے ہیں، ان کی تمام تاویلات فاسد اور باطل ہیں۔ وہ کبھی بھی غلط کام کو درست نہیں کر سکتیں اور اس حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تعلق صرف اُن اعمال سے ہے جو بظاہر جائز، مشروع اور صالح ہوں۔ ان کی قبولیت کا مدار صحت نیت پر رکھا گیا ہے یعنی اگر نیت میں اخلاص ہے تو اعمال قبول ورنہ ردّ کر دیے جائیں گے۔ اگر نیت اچھی نہیں ہوگی یا مطلوبہ نیت مفقود ہوگی تو وہ اعمال ظاہراً اچھے ہو کر بھی عبادت نہیں بنتے۔ وہ مردود ہو سکتے ہیں یا بے اجر ہو سکتے ہیں۔ مگر جو اعمال اپنے وجود میں ہی ممنوع، ظلم، حرام یا کفر ہوں، انہیں اچھی سے اچھی نیت بلکہ کئی اچھی نیتیں مل کر بھی مقبول، جائز یا ماجور نہیں بنا سکتیں۔ یہ ایسا متفقہ شرعی کلیہ اور اسلامی قاعدہ ہے کہ صحابہ و تابعین سے لے کر فقہاء و محدّثین اور علماء و محققین میں سے کسی نے بھی تا حال اس سے کبھی اختلاف نہیں کیا۔ نیز انما الاعمال بالنیات کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ نیتوں کے مطابق ہی اَعمال کا صدور ہوتا ہے، یعنی جیسی نیت اور ارادہ ہوگا ویسے ہی افعال سرزد ہوں گے۔ چنانچہ ایک دہشت گرد کی قتل و غارت اور لوٹ مار اس کے خبث نیت یعنی اُس کے مذموم عقائد و نظریات کی غماز ہے نہ کہ صالح نظریات کی۔ ظلم و ستم اس کی سنگ دلی کی علامت ہے نہ کہ رحم دلی کی۔ لہٰذا باغی، مجرم، شرپسند، ظالم اور جابر لوگ اپنی غلط کارروائیوں کے جھوٹے جواز کے لئے جو چاہیں تاویلات وضع کرتے رہیں ان کا اسلامی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔

(1) 1. بخاری، الصحيح، کتاب بدء الوحی، 1: 3، رقم: 1
2. مسلم، الصحيح، کتاب الإمارة، باب قوله صلی الله عليه وآله وسلم : إنما الأعمال بالنية، 3: 1515، رقم: 1907

خادم امت و انسانیت
محمد طاہر القادری


ما خوز:

کتاب : دہشت گردی اور فتنۂ خوارج

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کا مبسوط تاریخی فتویٰ