یوم عاشقان نہیں یوم بے حیائی

یہ تہوار یعنی ویلنٹائن آج سے تقریبا 1700 سال قبل ایجاد ہوا جب اہل روم میں بت پرستی کا دور دورہ تھا رومانی بادشاہ کلاو دیوس کو ایک بار جب لڑائی کیلئے تمام رومی مردوں کو فوج میں شامل کرنے میں مشکل پیش آئی اور اس نے غورکیاکہ اسکا اصل سبب یہ ہے کہ شادی شدہ مرد اپنے اہل و عیال کو چھوڑ کر لڑائی کیلئے نہیں جانا چاہتے تو انہیں شادی کرنے سے روک دیا، لیکن والنٹائن نامی ایک راہب نے شہنشاہ روم کے حکم کی مخالفت کی اور چوری چھپے کنیسہ میں لوگوں کی شادیاں کرتا رہا،جب بادشاہ کو اسکا علم ہوا تو اس نے اسے گرفتار کرکے 14 فروری کو قتل کردیا، اس طرح کنیسہ نے مذکورہ بالا بھیڑیا لیسیوس کی پوجا کی جانیوالی عید کو بدل کر والنٹائن نامی راہب کے پوجا کاتہوار بنادیا، آج بھی یورپ کے شہروں میں اسکا مجسمہ نصب ہے۔ اس دن کے موقعہ پر مرد و عورت کے درمیان ایک خاص قسم کے کارڈ کا تبادلہ ہوتا ہے، جس پر لکھا ہوتا ہے: (Be My Valentine) ''میرے والنٹائن محبوب بنو''۔ نوجوان لڑکے، لڑکیاں اور شادی شدہ مردوخواتین کا ویلینٹائین ڈے منانے کا یہی طریقہ ہے۔ نہ ہی بازاروں میں کوئی خصوصی رش ہوتا ہے نہ ہی کالج و یونیورسٹیوں میں چھٹی ہے اور نہ ہی کوئی شخص دفتر یا کارخانے سے چھٹی کرتا ہے۔ روز مرہ کے دنوں کی طرح کا ایک دن ہوتا ہے جس کی خصوصی اہمیت صرف ان لوگوں کے دلوں میں ہوتی ہے۔ جنکا کوئی افیئرہوتا ہے کوئی گرل فرینڈ یا بوائے فرینڈ ہوتا ہے یا شادی شدہ ہوتے ہیں اور انکی کوشش ہوتی ہے کہ سال بھر کے تمام دنوں کی اپنی اپنی مصروفیات کو بھول کر چودہ فروری کی شام کو اپنے پارٹنر کو سرخ گلابوں کے گلدستے، چاکلیٹ،قیمتی تخفے وتخائف یا کسی اچھے ریستوران میں اسپیشل ڈنر کے ذریعے اپنی محبت کا اظہار کرکے اپنی محبتوں کا بھرم رکھتے ہیں۔ میں نے آرٹیکلز کے دوران پتا چلا کہ فرانس میں اس تہوار پر مکمل پابندی ہے اور فرانس کے مقابلے ویلنٹائن ڈے کے دنوں میں پاکستانی ٹی وی چینل دیکھیں تو یہی محسوس ہوگا کہ ویلنٹائن ڈے یورپ والوں کا تہوار نہیں ہے بلکہ اسلامی ملک پاکستان کے رہنے والوں کا قومی دن ہے یا کوئی مذہبی تہوار، اس لیے نجی ٹی وی چینلز ہر چند منٹ کے بعد ویلنٹائن ڈے کے حوالے سے محبت کے پیغام نشر کر رہے ہوتے ہیں۔ نوجوان لڑکے اور لڑکیوں سے ویلنٹائن ڈے کے حوالے سے انٹرویو کئے جا رہے ہیں۔ بازاروں اور مارکیٹوں میں ہر طرف ویلنٹائن ڈے کے بینرز، اشتہارات، غبارے اور قسم قسم کے کارڈز نظر آتے ہیں، یا خدایہ کیا ہم فرانس پیرس کے رہائشی ہیں اور انکی سڑکوں پر ڈرائیور کر رہے ہیں۔پاکستانی معاشرے میں بے حسی کی کیفیت ہے کہ عام پاکستانی اپنی آنکھوں سے اسلامی اقدار کا جنازہ نکلتے دیکھ رہا ہے۔عام پاکستانی دل ہی دل میں کڑھتا ضرور ہے مگر لگتا ہے کچھ کرنے سے قاصر ہے۔ معاشی حالات اسے اس حد تک ذہنی طور پر مفلوج کرچکے ہیں کہ چند امیر زادوں کے شوق کو برا تو محسوس کر سکتا ہے اس کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے کی اس میں نہ تو ہمت ہے اور نہ طاقت۔ جیسا کہ اوپر بتایا ہے کہ الیکٹرانک میڈیاجس کا بنیادی مقصد معاشرے کی اصلاح کے علاوہ اور کچھ نہیں وہ بھی اب اپنی تمام تر ذمہ داریوں کو فراموش کرکے نوجوانوں کو بے حیائی کی طرف راغب کررہا ہے۔اس تہوار کے حوالے سے ہمارے اساتذہ کابھی فرض ہے کہ وہ طالب علموں میں اسلامی اقدار کے متعلق محبت کے جذبات پروان چڑھائیں ہم میں سے ہر شہری اگر اپنے محلے میں دعوت و ترغیب کا عمل شروع کر دے تو یہاں ویلنٹائن ڈے منانے والے یوں دندناتے نظر نہیں آئیں گے۔ حکومت کو بھی نوجوانوں کو بے راہ روی سے بچانے کیلئے موئثر اقدامات کرنے چاہیں۔ ویلنٹائن ڈے کو منانے کے لئے گلاب کے پھول اور کارڈز کی خریدوفروخت پرسخت پابندی ہونی چاہیے۔ہمارت نوجوان اسلام سے زیادہ مغربی فضولیات میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں جو ہماری معاشرتی اقدار کو بہا لے جائیں گی۔ اہل مغرب کے اچھے اور درست اقدامات ان کے عدل و انصاف کے معیار قانون کی حکمرانی وقت کی پابندی،ملک و قوم سے وفاداری اور سب سے بڑھ کر محنت اورصفائی جیسے اقدامات سے ہم دور بھاگتے ہیں کہ ہم کیوں عیسائیوں اور یہودیوں کی پیروی کریں لیکن ویلنٹائن ڈے ہو یا سال نو کی تقریبات ہمارے لوگ اہل مغرب کو بھی پیچھے چھوڑ جاتے ہیں۔

Rukhsana Asad
About the Author: Rukhsana Asad Read More Articles by Rukhsana Asad: 47 Articles with 25168 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.