تین ماہ کا وائس چانسلر

یونیورسٹیوں کے حوالے سے ایک عرصے بعد ایک اچھی خبر ہے کہ تین وفاقی جامعات میں تلاش کمیٹی نے مستقل وائس چانسلر یا ریکٹر کے تقرر کے لئے تین تین ناموں کا انتخاب کر لیا ہے جس کی سمری صدر مملکت کو بھیج دی گئی ہے۔امید ہے کہ چند دنوں میں ان یونیورسٹیوں کو مستقل وائس چانسلر میسر آ جائیں گے۔اس وقت قائد اعظم یونیورسٹی میں ایک ریٹائرڈ بیوروکریٹ ڈاکٹر شائستہ سہیل قائم مقام وائس چانسلر کے طور پر کام کر رہی ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ یونیورسٹی کے کسی سیننئر پروفیسر کو اس قابل نہیں سمجھا گیاکہ جس کو قائم مقام وائس چانسلر کا چارج دیا جا سکتااور ایک ریٹائرڈ بیوروکریٹ کو جس کا تعلیم سے جانے کون سا تعلق ہے یہ ذمہ داری سونپ دی گئی ہے جس کا کوئی بھی جواز نظر نہیں آتا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہماری ساری سیاسی حکومتوں کے اپنے سیاسی مفادات ہوتے ہیں، اس لئے وہ یونیورسٹیوں کو بھی سیاسی اکھاڑا بنانے یا کم سے کم اپنے مفادات کو تحفظ دینے کے لئے کچھ بھی کرنے سے دریغ نہیں کرتیں۔ پروفیسر حضرات عام طور پر سیاسی لوگوں کو خاطر میں نہیں لاتے اور سزا کے طور پر سیاسی وائس چانسلرز کے پلے باندھ دئیے جاتے ہیں

فیصلے دوطرح کے ہوتے ہیں ۔ایک اچھے اور مستقل فیصلے۔ایسے فیصلے کرنے والے باتوں کو سمجھتے اور جانتے ہوئے ٹھوس بنیادوں پر فیصلے کرتے اور مضبوط شخصیت کے مالک ہوتے ہیں۔ دوسری طرح کے فیصلے وقتی اور سادے لفظوں میں ڈنگ ٹپاؤ ہوتے ہیں۔ ایسے فیصلے کرنے والے مسائل کو نہ ہی سمجھتے اور نہ ہی پوری طرح جانتے ہیں۔ وہ کمزور شخصیت کے مالک ہوتے ہیں اور یہ بات ان کے فیصلوں میں بھی نظر آتی ہے۔کوئی وقت تھا کہ سیاست میں مضبوط شخصیت کے لوگ آتے تھے۔ انہیں کسی بات کا ڈھرکا یا خوف نہیں ہوتا تھا۔وہ قومی مفاد میں بہترین ، ٹھوس اور مستقل فیصلے کرتے تھے۔ وہ فیصلے جن کے دو رس نتائج ہوتے اور لوگوں میں وہ فیصلے اچھی نظروں سے دیکھے جاتے تھے۔آج پورا سیاسی نظام ہی کمزوری اور ابتری کا شاہکار ہے۔ یہاں کوئی فیصلہ مستقل اور پائیدار نہیں ہوتا۔ فیصلہ کرنے والے اپنی مصلحتیں نظر میں رکھ کر سوچتے اور آ خر تک ڈاواں ڈول ہوتے ہیں۔ انہیں اپنے فیصلوں پر کلی اعتبار نہیں ہوتا۔ فیصلہ غلط نہ ہو جائے، یہ ڈر انہیں مستقل اور ٹھوس فیصلہ کرنے سے روکتا ہے چنانچہ وہ ڈنگ ٹپاؤ فیصلوں سے کام چلاتے ہیں۔

ہمارا پورا تعلیمی نظام ایسے ہی کمزور اور نا اہل لوگوں کے ہاتھوں میں ہے۔ جس طرح سیاسی طور پر ہماری حکومتیں ہر جگہ ناکام ہیں اسی طرح تعلیمی دنیا میں بھی اپنی غلط اور کمزور پالیسیوں کی وجہ سے حکومتی کارکردگی ہر جگہ حکومت کے لئے شرمندگی کاباعث ہے۔پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر جناب نیاز محمد اختراپنا چار سالہ دور ختم کرکے ریٹائر ہوئے تو چارج اس وقت کے پرو وائس چانسلر جناب ڈاکٹر سلیم مظہر کو دیا گیا جو اصولی طور پر صحیح اور اچھا فیصلہ تھا۔ جناب سلیم مظہر کے ریٹائر ہونے کے بعد جناب نیاز محمداختر کو تین ماہ کے لئے دوبارہ وائس چانسلر کا چارج دے دیا گیا۔یہ عجیب فیصلہ لوگ سمجھ نہیں پائے۔ جناب نیاز محمد اختر کے بعد قرعہ فال گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کے وائس چانسلر جناب اختر زیدی کے نام نکلا۔زیدی صاحب شاید تین ماہ مکمل بھی نہ کر پائے تھے کہ حکومت نے ایک بار پھر جناب نیاز محمد اختر کو تین ماہ کے لئے وائس چانسلر مقرر کر دیا ہے۔اب جیسا کہ امید ہے ڈاکٹر نیاز کے قائد اعظم یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے طور پر جائن کرنے کے بعد پنجاب یونیورسٹی میں یہ عہدہ پھر خالی ہو گا۔اب دیکھیں اگلے تین ماہ کا وائس چانسلر کون ہو گا۔ یہ خوبصورت کھیل صرف پنجاب یونیورسٹی ہی نہیں بلکہ صوبے کی بہت سی یونیورسٹیوں میں مسلسل کھیلا جا رہا ہے۔پنجاب یونیورسٹی شعبہ اکنامکس کے جناب ممتاز انور جھنگ یونیورسٹی کے تین ماہ کیلئے وائس چانسلر مقرر کئے گئے ہیں۔ اس سے پہلے شاید کوئی خاتون تین ماہ کی وائس چانسلر تھیں ۔ ڈاکٹر ساجد گجر کو یونیورسٹی آف اوکاڑہ کا تین ماہ کے لئے وائس چانسلر مقرر کیا گیا ہے۔اب ہر پروفیسر کی خواہش ہے کہ چلو تین ماہ کا وائس چانسلر ہی لگا دیا جائے، ایک اعزاز تو ہو گا۔یہ سلسلہ اگر جاری رہا تو امید ہے کہ یونیورسٹیوں کے زیادہ تر پروفیسر سابق وائس چانسلر کا تمغہ بھی سجائے ہونگے۔

وائس چانسلر یونیورسٹی کا اعلیٰ تریں عہدہ ہے۔ ہر شخص کی فطری خواہش ہوتی ہے کہ وہ ملازمت کے آخری مرحلے میں اس عہدے پر فائز ہو سکے مگر سیاسی حکومتوں نے یہ عہدہ خالصتاًاپنے خدمت گزاروں کے لئے مخصوص کر دیا ہے۔ ہونا تو یہ ایک خود کار سسٹم چائیے۔ جب کوئی وائس چانسلر ریٹائر ہو تو یونیورسٹی کا سینئر ترین شخص اس کی جگہ فوری تعینات ہو جائے کیونکہ اصولی طور پر یہ اس کا استحقاق ہے۔ چھوٹی یونیورسٹیاں جہاں ابھی سینئر لوگ نہیں ہیں ان کے بارے کوئی متبادل ڈھونڈھا جا سکتا ہے مگر پنجاب یونیورسٹی اور قائد اعظم یونیورسٹی جہاں پروفیسرز کی ایک بڑی کھیپ موجود ہے انہیں اس ھرح تین ماہ کے وائس چانسلرز کے سپرد کرنا غلط ہے۔وہ وائس چانسلرز جو باہر سے آتے ہیں انہیں یونیورسٹی کے حقائق جاننے میں عرصہ لگتا ہے، تین ماہ تو ایک مذاق ہی ہے۔ حکومت اگر سوچ سکتی ہے تو اس کے بارے سوچے اور اس چیز کا ایک مستقل حل نکالے۔ جاتے جاتے ایک خاص بات آپ کو بتا دوں، ہمارے اسی وزرا میں سے اسی فیصد کو انگریزی اچھی طرح نہیں آتی، اس لئے انہوں نے فیصلہ کیا ہے کہ آئندہ جو شخص بھی وائس چانسلر لگایا جائے وہ انگریزی سے نابلد ہونا چائیے۔ اسے صرف عوامی زبان پر عبور ہو بس یہی کافی ہے۔آپ کو نئے آنے والے وائس چانسلر یہ ثابت کر دیں گے۔ عوامی حکومت کا عوامی فیصلہ زندہ باد۔

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 582 Articles with 501046 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More