COMSATS یونیورسٹی کا حیا سوز پرچہ
(Saleem Ullah Shaikh, Karachi)
آنجہانی پرویز مشرف کے دور میں روشن خیالی اور آزاد خیالی کے نام پر غلاظتوں کی ایک پوٹ پاکستانی معاشرے پر تھوپ دی گئی ۔ ا س غلاظتوں کی پوٹ سے اب مزید غلاظتیں جنم لے رہی ہیں۔جہاں تک ہمیں یاد پڑتا ہے اس کا آغاز اس حکم نامے سے ہوتا ہے کہ ’’ پولیس اہل کار کسی بھی جوڑے کو روک کر ان کا نکاح نامہ طلب نہیں کریں گے اور کسی بھی غیر شادی شدہ جوڑے کو تنگ نہیں کریں گے۔ ‘‘ یہ آغاز تھا۔ اس کے بعد روشن خیالی کے نام پر بہت کچھ ہوا۔ ویلنٹائن ڈے کو غیر اعلانیہ طور پر سرکاری سرپرستی میں پروا ن چڑھایا گیا۔ حقوقِ نسواں کے نام پر خواتین کو بے راہ وہ روی کی جانب گامزن کیا گیا۔ جنرل مشرف کے ہی دور میں کالج کی طالبات سے ہیلتھ سروے کے نام پریہ سوال پوچھا گیا کہ ’’ کیا آپ نے کبھی جنسی تجربہ کیا؟‘‘ اور ’’ کیا اآپ کے پارٹنر نے اس دوران کنڈوم استعمال کیا؟‘‘ اس کے علاوہ نصاب سے اسلامیات کو خارج کرنے کی کوشش کی گئی ۔ یہ نہیں ہوسکا تو اسلامیات کے نصاب سے جہاد کی آیات کو خارج کیا گیا۔ اس کے بعد ایسی تمام آیات کو جن میں یہود و نصاریٰ کے حوالے سے وعیدیں تھیں، نصاب سے خارج کیا گیا۔اس کے بعد آگاہی (Awerness) کے نام پر سیکس ایجوکیشن کو نصاب کا حصہ بنانے کی کوششیں کی گئیں جو تاحال جاری ہیں۔ جنرل مشرف تو کم وبیش 9 برس اقتدار کے مزے لوٹنے کے بعد اقتدار سے الگ ہوگئے لیکن بد قسمتی سے ان کی جاری کردہ نام نہاد’’روشن خیال ‘‘ درحقیقت اسلام دشمن پالیسیاں کسی نہ کسی انداز میں برقرار رہیں۔ اب اس میں تازہ ترین پیش رفت گزشتہ دنوں COMSATS یونیورسٹی اسلام آباد کیمپس میں BEE سیمسٹر 1 کے انگریزی کے پرچے میں پوچھا جانا والا حیا سوز سوال ہے۔یہ امتحان دسمبر کے مہینے میں لیا گیا تاہم اس دوران یہ پورا معاملہ چھپایا گیا۔5 جنوری کو اس پر ایکشن لیا گیا ۔ اب ہم اس سوال کی طرف آتے ہیں۔ انگریزی مضمون نویسی یاEnglsh Composition کے نام پر ایک حیا سوز عبارت شامل کرکے طلبا و طالبات کو اس پر اظہارِ خیال کی دعوت دی گئی ہے۔اس عبارت کا لبِ لباب یہ ہے کہ محرمات کے درمیان جنسی تعلق کے حوالے سے ایک پس منظر تخلیق کرکے اس کے بعد طلبا و طالبات سے اس پس منظر سے متعلق مضمون لکھنے کو کہا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اوّل تو اس طرح کی غیر اخلاقی عبارت کو تعلیمی عمل کا حصہ نہیں ہونا چاہیے ۔ اس پر مزید قباحت یہ کہ بہن بھائی جیسے مقدس اور پاکیزہ رشتے کو کرداروں کی صورت میں پیش کیا گیا۔سوا ل یہ ہے کہ اس عبارت سے انگریزی زبان کی ایسی کون سی صلاحیت فروغ پائے گی جو کسی عام عبار ت سے ممکن نہیں ہوسکتی ؟ یہ عبارت پرچے کا حصہ کیسے بنی ؟ کیا یونیورسٹی میں کوئی چیک اینڈ بیلنس کا نظام نہیں جو پرچوں کی جانچ پڑتال کرے ؟ بادی النظر میں تو ایسا محسوس ہورہا ہے کہ یہ قصداً کیا گیا ہے کیوں کہ ایک چھوٹے سے اسکول سسٹم میں بھی پرچہ بنتا ہے تو کئی مراحل سے گذرتا ہے۔ اس کی نوک پلک سنواری جاتی ہے۔ باریک بینی سے اس کا جائزہ لیا جاتا ہے تو یہ کیسے ممکن ہے ایک ملکی سطح کی نامور یونیورسٹی میں یہ سوال پرچے میں شامل ہوگیا ؟ بہر حال اب ہوا یہ ہے کہ یونیورسٹی نے مذکورہ پرفیسر کو نوکری سے برخاست کردیا ہے ۔ لیکن درحقیقت یہ کسی فردِ واحد کا نہیں بلکہ پوری انتظامیہ کا کام ہے۔ اس لیے اس معاملے کو ڈھیلے ڈھالے انداز میں نپٹانے کی بجائے اس کے ذمے داران کے خلاف بھر پور کارروائی کی جائے اور انہیں نشانِ عبرت بنایا جائے تاکہ دوبارہ کوئی فرد اس طرح کی جرات نہ کرے۔ اس طرح کے معاملات درحقیقت لوگو ں کو ترغیب دیتے ہیں، آج ایک واقعہ ہوا ہے اگر اس پر ردِ عمل نہ دیا گیا اور اس کے خلاف کارروائی نہ کی گئی تو کل کوئی دوسرا اس طرح کی حرکت کرے گا اور جب تواتر کے ساتھ اس طرح کے معاملات ہوں گے تو آج یا کل نہیں بلکہ آنے والے 15 بیس برسوں بعد معاشرہ اس کو ایک عام سی چیز سمجھ لے گا اور پھر یہ قباحت صرف عبارت یا کسی کہانی کا موضوع بننے کی بجائے معاشرے میں عملی طور پر شروع ہوجائے گی۔اس لیے آج ہی اس کو روکا جائے تو بہتر ہے ۔
|