|
|
کینسر کا لفظ ایک بہت ہی خطرناک لفظ ہے اس کو سنتے ہی
انسان کی ریڑھ کی ہڈی میں سردی کی لہر سی دوڑ جاتی ہے اور ایسے میں اگر آپ
کو یہ پتہ چلے کہ آپ اس مرض میں مبتلا ہو چکے ہیں تو زیادہ تر افراد تو اس
کی دہشت ہی سے حوصلہ ہار بیٹھتے ہیں- |
|
معدے کے
کینسر کو شکست دینے والی بہادر خاتون |
کراچی سے تعلق رکھنے والی مسز صفیہ سہیل جو
کہ کراچی کے ایک نامور اسکول میں بطور ٹیچر کام کر رہی تھیں انکا یہ کہنا
تھا کہ سال 2014 میں جب ان کو یہ پتہ چلا کہ ان کو معدے کا کینسر ہے تو یہ
سنتے ہی ایک موقع پر تو وہ خوفزدہ ہو گئیں اور انہوں نے بھی عام انسانوں کی
طرح یہی سوچا کہ بس اب میرے مرنے کا وقت قریب آگیا ہے- |
|
کینسر کی خبر ملنے کے بعد ان کو اسکول کی جاب بھی چھوڑنی پڑی مگر اس وقت انہوں نے
یہ سوچا کہ اس بیماری کا مقابلہ کرنے کے لیے انہوں نے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نہیں
بیٹھنا ہے بلکہ کچھ کرنا ہے- |
|
|
|
ٹیچنگ کے دوران سیکھا
گیا کام |
مسز صفیہ سہیل کا یہ کہنا تھا کہ ٹیچنگ کے دوران ان کی
ایک ساتھی ٹیچر نے انہیں کراس اسٹیچ یا چار سوتی کے کام سے مختلف چیزیں
بنانا سکھائی تھیں۔ ٹیچنگ چھوڑنے کے بعد انہوں نے اپنے اسی ہنر کو استعمال
کرنے کا فیصلہ کیا- |
|
ابتدا میں تو لوگ ان کی بنائی گئی چیزيں جن میں پرس، ٹشو
باکس، کی چین وغیرہ شامل تھے مفت میں لے جاتے تھے مگر اس کے ساتھ ساتھ ان
کو اس کام کے آرڈر بھی ملنے شروع ہو گیا- |
|
مسز صفیہ سہیل کینسر کے علاج کے ساتھ ساتھ اپنے
اس کام کو بھی جاری رکھے ہوئے تھیں یہاں تک کہ ان کو دوسری سرجری سے ایک دن
پہلے کی چین بنانے کا ایک بڑا آرڈر ملا- جس کو انہوں نے ہسپتال میں داخل ہو
کر سرجری سے قبل مکمل کیا۔ جبکہ اس موقع پر ڈاکٹر اور نرسز وغیرہ ان سے یہ
کہنے لگیں کہ آپ اتنی بیمار ہیں یہ کام نہ کریں- |
|
مگر ان کا یہ ماننا تھا کہ کینسر جیسی بیماری
کو شکست دینے کے لیے صرف دواؤں کی ہی نہیں ہمت اور حوصلے کی بھی ضرورت ہوتی
ہے جس کے لئے ضروری ہے کہ انسان خود کو بستر تک محدود کرنے کے بجائے ہمت
اور حوصلہ کرے |
|
|
|
آج صفیہ کینسر کو مکمل طور پر شکست دینے کے
ساتھ ساتھ چار سوتی سے مختلف چیزیں بنا کر فروخت کر رہی ہیں اس طرح سے ان
کی گزر بسر بھی ہو رہی ہے اور مصروف رہنے کے سبب ان کی صحت پر بھی اچھا اثر
پڑ رہا ہے- |
|
ایسی خواتین ان تمام افراد کے لیے مثال ہیں جو
کہ کینسر کا نام سن کر ہمت ہار بیٹھتے ہیں - |