یہ بات حقیقت ہے کہ اس زمین پر ظلم کا شکار ہمیشہ
معصوم،بے بس اور غریب ہی ہوا ہے۔ زور آور نے ہمیشہ اپنی جاہ وحشمت،طاقت،زور
اور اختیارات کے بل بوتے پر معاشرے کے عام افراد کے استحصال کی ہر ممکن
کوشش کی ہے لیکن دکھ اس بات کا ہے کہ معاشرے کے وہ لوگ جو باشعور ہیں اور
معاشرے میں اہم مقام رکھتے ہیں لوگوں کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اس
کے باوجود طاقتور کا ،زور آور کا اور صاحب اقتدار و اختیار کا ساتھ دیتے
نظر آتے ہیں۔
یہ ملک جو کہنے کو تو اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے مگر اس میں اسلام اور اس
کی اصل تعلیمات کہیں نظر نہیں آتیں اس کے قیام کے ساتھ ہی یہاں کے مقتدر
حلقوں نے کمزور عوام پر بزور جبر اپنا تسلط قائم کرلیا جو آج تک قائم و
دائم ہے۔ گورے حکمران تو یہاں سے چلے گئے مگر اپنے پالتو کالوں کو یہ کام
سونپ گئے اور انہوں نے شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بنتے ہوئے ظلم و جبر کا
وہ بازار گرم کیا جس کو سوچ کر بھی روح کانپ جاتی ہے۔
بظاہر اسلام کے نام پر بننے والے اس ملک میں اسلام کے نام لیواؤں کے ہاتھوں
اسی ملک کے باشندوں پر پچھلے پچھتر سال سے جو ظلم جاری و ساری ہے اس کو کون
روکے گا ان مظلوموں کے دکھوں کا مداوا کون کرے گا۔
طاقت کے نشے میں بدمست یہ لوگ دوسروں کو کیڑے مکوڑوں سے بھی حقیر جانتے
ہیں۔
کیا سنا نہیں کہ فلاں جگہ ایک سردار نے کسی کمزور کی زمین ہتھیا لی۔
کیا آپ نے کبھی سنا نہیں کہ فلاں جگہ ایک جاگیردار نے کھیلتے ہوئے بچوں پر
گاڑی چڑھادی۔
کیا آپ نے سنا نہیں کہ فلاں علاقے میں سڑک پر ڈیوٹی انجام دیتے ہوئے پولیس
اہلکار کو حکومتی وزیر نے کچل دیا۔
کیا آپ کی نظر سے یہ خبر نہیں گزری کہ بھٹہ خشت پر مالکان نے پورے خاندان
کو بیڑیوں میں جکڑ رکھا ہے۔
اسی وطن عزیز پاکستان میں سردار اپنی رعایا کے لیے فرعون بنے نظر آتے ہیں۔
جرنیل اپنے ہی لوگوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹتے نظر آتے ہیں۔
کہیں ایک گنا چرانے پر کسی غریب کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے تو کہیں
کھیت میں مویشی گھسنے پر مویشی اور مالکان دونوں کو قبضے میں لے لیا جاتا
ہے۔
کہیں روٹی چرانے کی سزا موت ملتی ہے تو کہیں اپنی کسی معمولی ہزیمت کا بدلہ
کمزور کی بیٹی کی عصمت دری سے چکایا جاتا ہے۔
کہیں بیوہ کے مکان کو ہتھیا لیا جاتا ہے تو کہیں معصوم بچیوں کو اپنی ہوس
کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
کون ظالم کے ہاتھوں کو ظلم سے روکے گا۔
کون مجبوروں اور بے آسرا لوگوں کا آسرا بنے گا۔
کون پسے ہوئے طبقات کی حقوق کے لیے آواز اٹھائے گا۔
ایک جگہ سے معصوم بچوں پر پولیس کے اندھا دھند فائرنگ کی خبر آتی ہے تو
دوسری جگہ سے جعلی پولیس مقابلے میں مارے جانے والے سینکڑوں بلکہ ہزاروں
افراد کا سراغ ملتا ہے۔
ایک جگہ ہاریوں کی بیٹوں کو ننگا بازار میں گھمانے کی ویڈیو آتی ہے تو
دوسری طرف کسی سردار کی نجی جیل میں قید ایک بوڑھی بلوچ خاتون کی پکار
سنائی دیتی ہے وہ روتی ہے،بلکتی ہے،فریاد کرتی ہے،اپنی جھولی لوگوں کے
سامنے پھیلاتی ہے اور مقدس کتاب ہاتھ میں پکڑ کر اس قوم اور حکمرانوں سے
التجا کرتی ہے۔
مدد کی بھیک مانگتی ہے اپنے لیے،اپنے بچوں کے لیے۔۔۔۔۔۔اپنے خاوند کے لیے
۔۔۔۔۔
لیکن پتہ ہے ستائیس کروڑ آبادی کے اس ملک میں کوئی اس کی مدد کے لیے نہیں
آتا
کوئی اسے بچا نہیں پاتا
کیوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ سوال ہے ۔۔۔۔۔ہم سب کے لیے
قانون بنانے والوں کے لیے بھی اور قانون کے رکھوالوں کے لیے بھی
حکمرانوں کے لیے بھی اور عوام الناس کے لیے بھی
ملک کی "نظریاتی و جغرافیائی" سرحدوں اور لوگوں کی حفاظت کے دعویداروں کے
لیے بھی جو خود کو محافظ تو کہتے ہیں مگر اپنے ہی لوگوں کی حفاظت سے غافل
ہیں اور مساجد و محراب میں متمکن جبہ پوش اور صاحب دستار لوگوں کے لیے بھی
جو خود کو سچ کا پرچارک تو کہتے ہیں مگر مظلوم کے حقوق کی صدا بلند کرتے
ہوئے ان کی زبانیں اور پر جلتے ہیں۔
"قتل ایک جارحانہ سچ ہے۔قتل ایک ایسا سچ ہے جس میں کسی کو شبہ نہیں۔کوئی
کسی کا گلہ دباتا ہے،اس پر گولی چلاتا ہے یا اسے زہر دیتا ہے،ان کے نتیجے
میں آدمی کا جان سے چلا جانا حقیقت ہے۔چوں کہ اس حقیقت کو اندھی طاقت کے بل
پر وجود میں لایا جاتا ہےاس لیے اس میں جارحیت ہے۔قتل سے زیادہ بھیانک،دہشت
انگیز ،ہولناک اور ذلیل و رسوا کرنے والا کوئی عمل نہیں ہے"
یہ ہماری اجتماعی بے حسی نہیں تو اور کیا ہے۔
سیالکوٹ میں دو بھائیوں کو قتل کرکے شہر بھر میں گھمایا گیا ہم پر بے حسی
طاری رہی۔
بلوچستان میں ڈاکٹر شازیہ کا ریپ ہوا کیا ایکشن لیا گیا؟
سری لنکن مینیجر کو سرعام قتل کرکے نذر آتش کردیا گیا لیکن ہمارے مزاج میں
کوئی فرق نہ آیا۔
واربرٹن میں ابھی چند دن پہلے مذہب کی حرمت کے نام پر ایک شخص کو تشدد سے
ہلاک کیا گیا اور پھر اسے جلا کر برہنہ حالت میں سٹرکوں پر گھسیٹا گیا مگر
ہم فرطِ جذبات میں نعرے لگاتے رہے اور دنیا کو "صحیح" معنوں میں یہ پیغام
پہنچاتے رہے کہ اسلام امن کا پرچارک ہے۔
ہم سب کہیں نہ کہیں طاقت کے نشے میں بدمست ہوچکے ہیں۔
یہ طاقت کہیں مادی وسائل کی صورت موجود ہے تو کہیں سیاسی اثر و رسوخ کی
صورت میں نظر آتا ہے۔
کہیں مذہبی شدت پسندی کی صورت موجود ہے تو کہیں شخصیت پرستی کی آڑ میں یہ
کھیل کھیلا جارہا ہے۔
کہیں گروہ بندیاں اسے پروان چڑھا رہی ہیں تو کہیں ذاتی مفادات اور انا کی
تسکین اس کے پروان چڑھنے کا سبب بن رہی ہے۔
"موت کے ہوتے ہوئے قتل یکسر غیر ضروری ہے،ایک ایسی عمارت جس نے شام کو گر
جانا ہے،اسے صبح یا دوپہر کے وقت گرادینے کا فائدہ صرف ان لوگوں کو ہوسکتا
ہےجو ملبے کا بزنس کرتے ہیں اور جن کے دل بے گھر لوگوں کی ہمدردی سے خالی
ہیں۔یہ بڑھتے جارہے ہیں۔"
سنو ! اگر تم سن سکتے ہو۔
کہاں مر کھپ گئے انسانیت کی خدمت کے دعوے دار اور انسانوں کی فلاح و بہبود
کے علمبردار
کہاں گئے آج حرمت مذہب اور حرمت مسلک پر واویلا کرنے والے کیا ان کے لیے
حرمت انسان کوئی اہمیت نہیں رکھتی؟
ہزاروں لوگوں کے جھتے لے کر مذہب کی آڑ میں صرف شو آف پاور کے لیے کروڑوں
خرچ کرنے والے مذہبی لوگ آج کہاں گم ہیں؟
اپنی سیاست کو چمکانے کے لیے روپیہ پیسہ اور وسائل پانی کی طرح بہانے والے
کہاں مر کھپ گئے ہیں؟
سارا سارا دن سطحی مفادات کی سیاست میں لگاتار چرب زبانی کا مظاہرہ کرنے
والے سیاستدان اور ان کے پالتو سپوک پرسنز آج کیوں چپ نظر آرہے ہیں؟
کوئی سندھ کے ہاریوں کے لیے کیوں نہیں بولتا؟
کوئی بلوچستان کے مظلوموں کے لیے آواز کیوں نہیں اٹھاتا؟
کوئی مذہبی ملا اور سیاسی مجاہد معصوم بچیوں کی عصمت دری،ہیومن ٹریفکنگ فار
سیکس پرپز اور محنت کشوں کے استحصال کی بات کیوں نہیں کرتا؟
مذہب اور مسالک کے نام پر دوسرے کی کردار کشی کرنے والے،مجالس اور جلوس
منعقد کرنے والے،گلے پھاڑ پھاڑ کر منہ سے جھاگ اڑانے والے آج کہاں مر گئے۔
ارے بولتے کیوں نہیں
ارے اب ریلیاں کیوں نہیں نکالتے
بتاؤ
ایک معمولی واقعے پر لگاتار کئی کئی گھنٹے کی نشریات دینے والے ٹی وی چینل
کہاں گم ہیں عوام کے ہمدرد اینکرز اور صحافی حضرات کہاں اور کیوں چپ پڑے
ہوئے ہیں۔
چند دن پہلے ہونے والے پاکستان لٹریری فیسٹیول میں سٹیج پر بیٹھ کر اپنے
حواریوں کے جلو میں خود کو مزاحمت کا استعارہ ثابت کرنے والے حضرات اور
ادبی فورمز خود کو عوام کی حقیقی آواز کہنے والے ادیب اور شاعر کیوں چپ
ہیں۔
یاد رکھو یاد رکھو
جب آپ اور ہم ظلم کے خلاف آواز نہیں اٹھاتے ۔۔۔
ظلم کرنے والے کو ظالم نہیں کہتے۔۔۔۔
اس کا ہاتھ نہیں روکتے۔۔۔
تو لاشعوری طور پر ہم ظالم کے ساتھ دیتے ہیں اور اس ظلم میں برابر کے شریک
ہوتے ہیں۔
جاگو خدارا جاگو !
اگر آج ہم انسانیت کے دکھ درد کو اپنا دکھ درد نہیں سمجھیں گے،ان کی تکلیف
کو اپنی تکلیف نہیں سمجھیں گے تو یاد رکھیے وہ دن دور نہیں جب ہمارے ساتھ
بھی یہ سب کچھ روا ہوگا اور کوئی ہمارے لیے بھی آواز اٹھانے والا نہیں
ہوگا۔
#سانحہ_بارکھان
#بلوچستان
|