کسی کے پاس بہت کچھ ہے اُس خدا کا دیا
کسی کے پاس سوائے خدا کے کچھ بھی نہیں
آج الفاظ رنجیدہ ہیں اور آنکھیں نم ہیں الفاظ ساتھ نہیں دے رہے کہ کیسے
لکھوں ان غریب عوام کا درد۔ مہنگائی نے سفید پوش انسان کی قمر توڑ دی ہے۔
الفاظ ہی ختم ہو جاتے ہیں یہاں آ کر "درد" لفظ آ جاتا ہے۔ مہنگائی کا بے
قابو جن، آج کل ہر طرف مہنگائی کی وجہ سے پھیلی مایوسی، بے بسی اور الجھنوں
نے معاشرے کو نفسیاتی مریض بنا دیا ہے۔ لوگ کس اذیت سے گزر رہے ہیں یہ
دکھانے کے لیے اب یہاں اکثر لوگوں کو مر کے دکھانا پڑ رہا ہے۔ لوگ سسک رہے
ہیں، بلک رہے ہیں لیکن کوئی پرسان حال نہیں۔ اس مہنگائی سے اثر انداز تو سب
ہی ہوئے ہیں لیکن سفید پوش طبقہ ان حالات سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔
تحریر سے درد کہاں کم ہوتے ہیں ان الفاظوں سے۔
"اگر ان لفظوں سے تحریر ہوتے تو میں آج یہاں لفظوں کے جنازے اٹھا دیتا"
خوف طوفاں ہے، بجلیوں کا ڈر۔
سخت مشکل ہے آقا، کدھر جائیں ہم۔
کبھی ہم نے سوچا ہے کہ تیزی سے اپنی تباہی کی طرف رواں دواں اس دنیا میں ہر
لحظہ بڑھتے ہوۓ استحصال، غربت، ناانصافی، مہنگائی، ظلم و ستم اور آٹے،
گندم، گھاد سمیت ہر قسم کے بگاڑ کی اصل وجہ کیا ہے؟ میں سمجتا ہوں کہ اسکی
اصل وجہ دین جسے ہم فطرت بھی کہہ سکتے ہیں۔ فطرت سے دوری ہے۔ فطرت سے دوری
کی کیا وجہ؟ اللّه سے دوری ہے۔ اور وجہ ہمارے نفس ہیں جو کہ اتنے گھناؤنے،
بدکردار اور خوفناک ہو چکے ہیں جن میں احساسات کی بےانتہا کمی ہے۔ دنیا کی
لالچ کے لیے آخرت کو بھول گئے ہیں۔
آئے روز غریب بچارے خودکشیاں کر رہے ہیں۔
آخر کیا وجہ ہے؟
کچھ دن پہلے ایک دوست کے 24 سالہ کزن نے خود کو گولی مار کر اپنی زندگی کا
خاتمہ کر لیا۔ جس کی بظاہر وجہ گھر میں راشن کا نہ ہونا تھا۔ کبھی کبھار
بظاہر بالکل ٹھیک نظر آنے والے لوگ بھی شدید اندرونی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو
جاتے ہیں۔ جس کا سبب موت ہی آ بنتی ہے۔ اصل میں ہمارے حکمرانوں کو احساس کی
کمی ہے۔ آج سے چند پہلے ایک بزرگ میرے پاس آئے اور بولتے ہیں بیٹا میری چھ
بیٹیاں ہیں جو کہ گھر میں بھوکی بیٹھی ہیں کھانے کو روٹی نہیں ہے۔ اگر آپکا
کوئی جاننے والا ہے تو مجھے آٹا لے دیں۔ وہ لمحات میرے لیے ایک تلخ لمحات
تھے۔ یہ لمحے فکریہ اور معاشرے کی بے حسی پر سوالیہ نشان ہیں۔
خوددار میرے شہر کا فاقوں سے مر گیا
راشن تو بٹ رہا تھا مگر وہ فوٹو سے ڈر گیا
لیکن سوال یہ ہے کہ ایسے لمحوں کا اصل ذمے دار کون ہے، حکومت؟ رشتے دار؟
ہمسائے؟ مالک مکان؟ یا پھر ہماری سفید پوشی جو ہمیں کسی سے اپنے حالات بیان
کرنے کی اجازت نہیں دیتی؟ آخر ان مسائل کا حل کیا ہے؟ مہنگائی کا یہ بے
قابو جن کیسے قابو میں آئے گا؟
آخر پہ ملک کے غداروں کے لیے، ٹیپو سلطان کو جس نے دھوکا دیا تھا وہ میر
صادق تھا اس نے سلطان سے دغا کیا اور انگریز سے وفا کی تھی۔ انگریز نے
انعام کے طور پر اسکی کئی پشتوں کو نوازا اور انہیں وظیفہ ملا کرتا تھا مگر
پتا ہے جب میر صادق کی اگلی نسلوں میں سے کوئی نہ کوئی ماہانہ وظیفہ وصول
کرنے عدالت آتا تو چپڑاسی صدا لگایا کرتا۔ "میر صادق غدار کے ورثا حاضر
ہوں" میرے بھائی میری بات ہمیشہ یاد رکھنا جیسے شہید قبر میں جا کر بھی
سینکڑوں سال زندہ رہتا ہے ایسے ہی غدار کی غداری بھی صدیوں یاد رکھی جاتی
ہے۔ دن کے اختتام پر فرق اس چیز سے پڑتا ہے کہ انسان صحیح طرف تھا یا غلط
طرف پہ۔
میری طرف سے یہ چھوٹا سا میسج ملک پاکستان کے غداروں کے لئے ہے۔ اللہ پاک
کی قسم اس پاکستان سے وفا کرو دنیا آخرت میں کامیاب ہو جاؤ گے بہت ہی سستہ
سودا ہے ایمان بچانے کا بہت بشارتیں دی گئی ہیں اس پاکستان کے لئے۔ اپنا
ایمان بچا لو۔
پاکستان زندہ آباد
جیو اور جینے دو
|