ڈيڑھ سال کے بچے کو ڈبل ڈوز لگا دی، ناتجربہ کار ڈاکٹروں کا ایسا عمل جس نے والدین کو سب سے بڑا دکھ دے ڈالا

image
 
پرائیویٹ ہسپتالوں کے حوالے سے آلٰ دن مختلف شکایات سامنے آتی رہتی ہیں مگر اس کے باوجود ہمارے ارباب اقتدار نہ تو ان ہسپتالوں پر چیک سسٹم بہتر بناتے ہیں اور نہ ہی سرکاری ہسپتالوں کی حالت کو بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں سب سے زيادہ نقصان عوام کو اٹھانا پڑتا ہے-
 
چلڈرن ہسپتال گلشن اقبال میں ہونے والا سانحہ
گزشتہ دن چلڈرن ہسپتال گلشن اقبال میں ڈیڑھ سالہ زوہان نامی بچے کو اس کے والدین رات کے وقت لے کر آئے جو کہ بخار اور الٹی کی شکایت کے ساتھ لايا گیا ایمرجنسی میں موجود ڈاکٹر نے معائنہ کرنے کے بعد اس کو فوری طور پر طبی امداد فراہم کرنی شروع کر دی-
 
اس وقت وہاں پر دو ہاؤس جاب کرنے والی ڈاکٹرز جن کے نام ڈاکٹر غزالہ اور ڈاکٹر ثمبرین بتایا جا رہا ہے انہوں نے زوہان کو طبی امداد دینی شروع کردی-
 
بچے کے لواحقین کے مطابق صرف ایک گھنٹے میں ڈیڑھ سال کے معصوم چھوٹے بچے کو چار بڑی ڈرپس اور دو سے تین چھوٹی ڈرپس لگائے گئيں- لواحقین کے مطابق بچے کی حالت ڈرپس لگنے کے بعد بگڑنی شروع ہو گئی یہاں تک کہ ہسپتال لانے کے ایک سے ڈيڑھ گھنٹے بعد بچے نے وہیں پر دم توڑ دیا-
 
 
لواحقین کا الزام
اس موقع پر لواحقین کا یہ کہنا تھا کہ ان کے بچے کی موت اوور ڈوز لگانے کے سبب ہوئی ہے جو کہ ہاشس جاب کرنے والی ڈاکٹر غزالہ اور ڈاکٹر ثمبرین نے اپنی ناتجربہ کاری کے سبب لگا دی تھیں-
 
لواحقین کا یہ بھی کہنا تھا کہ نسخہ میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ڈاکٹر سے بچے کو صرف 10 ملی گرام رائزک کی ڈرپ لگانے کا نسخے میں لکھا تھا جب کہ انہوں نے اس کو 40 ملی گرام کی ڈرپ ایک گھنٹے میں لگا دی- اسی طرح صرف ڈيڑھ سال کے بچے کو اینٹی بائوٹک کی بھی 1000 ملی گرام کی ڈوز لگائے گئی جو کہ بچے کی عمر کے حوالے سے بہت زيادہ ہے-
 
اس موقع پر رنج و غم میں ڈوبے لواحقین کا یہ کہنا تھا کہ انہوں نے وہاں موجود ڈاکٹروں سے تمام تحریری ثبوت حاصل کر لیے ہیں اور دیکھا جا سکتا ہے کہ صرف ایک گھنٹے کے مختصر عرصے میں بچے کو اتنی زيادہ ڈرپس اور انجکشن لگائے گلٰ جن کو برداشت کرنا بچے کے لیۓ ناممکن تھا اس وجہ سے بچہ جانبر نہ ہو سکا-
 
تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ معصوم زوہان ایک صحت مند بچہ تھا جس کا وزن تقریباً دس کلو تک تھا اور ایسا نہیں تھا کہ وہ بہت کمزور بچہ ہو-
 
image
 
تاہم اس حوالے سے اب تک ہسپتال انتظامیہ کی جانب سے کسی قسم کی وضاحت نہیں دی گئی ہے اور ان کا جواب سامنے نہیں آسکا ہے-
 
یاد رہے کہ پرائیویٹ ہسپتال پیسے بچانے کے لیے ہاؤس جاب کرنے والے ڈاکٹروں کو کم تنخواہ پر ملازمت دے دیتے ہیں اور ایسے ڈاکٹروں کو پریکٹس کرنے کی بھی اجازت دے دیتے ہیں-
 
مگر ایسا کرتے ہوئے وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کے کچھ پیسوں کی لالچ کسی کے جانی نقصان کا بھی سبب بن سکتا ہے اور زوہان جیسے معصوم پھول کھلنے سے قبل ہی مرجھا بھی سکتے ہیں-
 
زوہان کی والدہ جن کو بلک بلک کر روتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے ایک ماں کی آنکھوں سے نکلتے یہ اشک اور اس کے دل سے نکلنے والی آہ سیدھی آسمان پر جاتی ہے۔ اس وجہ سے ارباب اقتدار کو چاہیے کہ معاملے کی تحقیق کر کے حقیقت کا پتہ لگائيں-

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

YOU MAY ALSO LIKE: