کامیابی اور ناکامی اسلام کی نظر میں

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں کو میرا آداب ہمیں یہ بات ہمیشہ ذہن نشین رکھنا چاہئے کہ انتھک محنت اور جدوجہد کے بعد جو کامیابی اور اس کے عوض جو مقام و مرتبہ ہمیں دنیا میں حاصل ہوتا ہے اس کا تعلق صرف دنیا کی حد تک ہے لیکن اگر ہم دنیا اور آخرت دونوں میں کامیابی چاہتے ہیں تو ہماری روزمرہ زندگی کے معمولات میں کئی معاملات ایسے ہیں جن پر عمل کرلینے سے بھی ہمیں کامیابی مل سکتی ہے مگر بدقسمتی سے ہمارہ اس طرف نہ دھیان ہے نہ نظر اور یہ سب کچھ ہماری دین سے دوری کا نتیجہ ہے ان معمولی مگر ضروری معاملات کا ذکر کرنے کے لئے ایک بزرگ کا واقعہ پڑھیئے بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا اب دیکھیں ایک بزرگ تھے جو اللہ تبارک وتعالی کے بڑے برگزیدہ بندوں میں سے تھے اپ کے گھر میں چوہے بہت تھے ایک دفعہ کچھ لوگ آپ سے ملنے آئے اور دیکھا کہ یہاں تو بہت سارے چوہے ہیں کوئی ایک طرف جارہا ہے تو کوئی دوسری طرف تو پوچھا کہ اتنے چوہے ؟ تو فرمایا کہ ہاں کوشش کرتا ہوں آگے رب الکائنات کی مرضی تو آئے ہوئے لوگوں میں ایک نے عرض کیا کہ آپ فکر نہ کریں میں ایک پالتو بلی آپ کو لادوں گا تو آپ نے فرمایا کہ وہ کیا کرے گی تو عرض کیا کہ وہ بلی کچھ چوہے کھاجائے گی اور کچھ چوہے بلی کے ڈر سے بھاگ جائیں گے ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں یہ سن کر ان بزرگ نے پوچھا کہ جو بھاگ جائیں گے وہ کہاں جائیں گے تو عرض کیا کہ وہ پھر یہاں سے پڑوس کے مکانوں میں چلے جائیں گے تو بزرگ نے فرمایا کہ نہیں پھر رہنے دیجئے میں نہیں چاہتا کہ میری وجہ سے کسی پڑوسی کو تکلیف پہنچے ۔ جناب بات تو یہ بہت معمولی لگتی ہے لیکن اچھے پڑوسی ہونے میں کیا کامیابی ہے اور اگر پڑوسی ہم سے ناراض ہے اور اس کا ناراض ہونا جائز ہے تو ہم پر کیاعذاب ہے اس کا ہمیں اندازہ تک نہیں لیکن اس کا اندازہ آپ ایک حدیث سے لگائیے کہ ایک دفع حضور صلی اللہ علیہ والیہ وسلم صحابئہ کرام علیہم الرضوان کے ساتھ تشریف فرما تھے جس میں سرکار صلی اللہ علیہ والیہ وسلم نے فرمایا کہ " اللہ کی قسم وہ مومن نہیں ہو سکتا " پھر آپ صلی اللہ علیہ والیہ وسلم نے دوسری مرتبہ یہ ہی کہا کہ " اللہ کی قسم وہ مومن نہیں ہوسکتا " اور جب آپ نے تیسری مرتبہ یہ بات دہرائی تو صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کیا کہ اگر آپ قسم نہ بھی کھاتے تو ہمیں آپ صلی اللہ علیہ والیہ وسلم کی بات پر پورا یقین تھا پھر تجسس بھرے لہجے میں عرض کیا حضور صلی اللہ علیہ والیہ وسلم اخر وہ کون ہے جس کے لئے آپ صلی اللہ علیہ والیہ وسلم نے تین مرتبہ اللہ کی قسم کھائی ؟ تو فرمایا کہ وہ شخص جس کے کسی کام یا عادت سے اس کا پڑوسی اس سے خوش نہ ہو اور پریشان ہو ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں مطلب یہ ہوا کہ جس بات کو ہم اکثر اہمیت نہیں دیتے اس میں کامیابی اور عذاب کا کتنا عمل دخل ہے ہمیں اندازہ ہی نہیں اگر اتنی سی بات کا بھی ہم خیال رکھنا شروع کردیں تو ہم رب العزت کے سامنے کامیاب ہوجائیں گے جیسے یہ بزرگ جن کا ہم نے ذکر کیا کہ پڑوسی کے تکلیف ہونے کے پیش نظر چوہوں کو گھر میں برداشت کیا ۔دراصل فی زمانہ ہم جہاں اپنی زندگی گزاررہے ہیں یہاں ہم نے کامیابی کا مفہوم یہ نکالا ہے کہ مال و دولت جمع کرنا جائدادیں بنانا کئی مختلف بینکوں میں اکائونٹس ہوں اور بہت سارا پیسہ ہو کیوں کہ ہہ ہماری خوشگوار زندگی کے لئے ضروری ہے لیکن ہمیں یہ سوچنا چاہئے کہ اصل کامیاب انسان وہ ہے جسے قران نے کامیاب کہا جس نے قران اتارا وہ کامیاب کہے اور جس پر قران اترا وہ کامیاب مانے ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں سب سے پہلے ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ اللہ رب العزت نے دنیا اور آخرت میں نقصانات اور کامیابی کے کیا اصول وضوابط وضع کیئے ہیں اس کو سمجھنے کے لئے ہم قران کی جانب چلتے ہیں قران مجید فرقان حمید کی سورہ العصر میں اللہ تبارک و تعالی نے صاف طور پر فرمایا کہ ترجمہ کنزالایمان " زمانئہ محبوب کی قسم بیشک انسان نقصان میں ہے مگر جو ایمان لائے اور اچھے کام کئے اور ایک دوسرے کو حق کی تاکید کی اور ایک دوسرے کو صبر کی وصیت کی " ۔اس آیت مبارکہ کو حضرت امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ نے قران مجید فرقان حمید کا خلاصہ قرار دیا ہے آپ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جس نے اس سورہ العصر کو ایک بار ترجمہ اور تفسیر کے ساتھ پڑھ لیا اور سمجھ لیا گویا اس نے پورے قران کو سمجھ لیا ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں اللہ تبارک وتعالی نے اس سورہ مبارکہ میں ناکامی اور کامیابی دونوں کے اصول وضع کرکے ہمیں بتادیئے امام اہلسنت مجدد دین و ملت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمتہ اللہ تعالی علیہ بڑے خوبصورت اور مستند طریقے سے اس سورہ مبارکہ کا ترجمہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اللہ رب العزت نے اپنے حبیب کریم صلی اللہ علیہ والیہ وسلم کے زمانے کی قسم کھائی اور فرمایا کہ بیشک انسان نقصان میں ہے یعنی وہ لوگ جنہوں نے اپنی اس عارضی اور مختصر زندگی کو صرف دولت کمانے جائدادیں بنانے اور اپنے آپ کو یہاں کوئی مقام حاصل کرنے میں گزرا دی اور اپنے رب کی نافرمانی کی تو وہ بڑے گھاٹے میں ہیں اور بروز محشر ان کے لئے بڑا عذاب تیار ہے ۔یہاں تک ان لوگوں کا ذکر ہے جو بظاہر دنیا میں بہت کامیاب انسان کہلاتے ہیں لیکن اللہ رب العزت اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ والیہ وسلم کے نزدیک دراصل وہ ناکام انسانوں میں شامل ہیں ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں اس سورہ مبارکہ میں آگے خوشخبری دیتے ہوئے اللہ تبارک وتعالی فرماتا ہے کہ مگر وہ جو ایمان لائے اور اچھے کام کئے یعنی جنہوں نے اپنی عمر اللہ تبارک وتعالی کی فرمانبرداری میں گزاری نیک اعمال کئے لوگوں کو اللہ تبارک وتعالی کی طرف راغب کیا اس کے عذاب سے ڈرایا حق گوئی یعنی سچ بولنے کی تلقین کرتے رہے اور دین کے کاموں میں آنے والی تکلیفوں اور مشقتوں پر صبر کرنے کی وصیت کی بیشک وہ لوگ دنیا میں بھی کامیاب ہیں اور آخرت میں بھی ان کے لئے ایک خاص مقام مقرر ہے اب دیکھیں اگر ایک شخض ایک مخصوص رقم لگا کر کوئی کاروبار شروع کرتا ہے تو وہ رقم جو اس نے لگائی اسے کاروباری زبان میں موڑی کہتے ہیں اور اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس موڑی سے وہ اپنا منافع کمائے اس کی کوشش یہ ہی ہوتی ہے کہ موڑی خرچ نہ ہو اگر موڑی خرچ کرنے کا وقت آجائے تو وہ سمجھ جاتا ہے کہ اب وہ نقصان میں ہے بلکل اسی طرح دنیا کی زندگی ہمیں عطا کی گئی مخصوص رقم کی طرح مختصر اب ہم اگلی زندگی (ہمیشہ رہنے والی) کے لئے کتنا منافع کماتے ہیں کیا ہم لوگوں کو حق کی تلقین کرتے ہیں؟ کیا ہم لوگوں تک اللہ رب العزت کا پیغام پہنچاتے ہیں ؟ نیکی کی دعوت عام کرتے ہیں ؟ لوگوں کو آنے والی پریشانیوں اور تکلیفوں پر صبر کی وصیت کرتے ہیں ؟ بس اب یہ سب کچھ ہمارے اوپر منحصر ہے ہم اپنی اس عارضی زندگی کو کس طرح گزارتے ہیں ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں صاحبہ کرام علیہم الرضوان جب بھی کسی کاروباری معاملے کے لئے اکٹھے ہوتے تو آخر میں کوئی بھی ایک صحابی سورہ العصر کی تلاوت کرتے اور جب تلاوت مکمل ہوجاتی تو پھر تمام صحابہ وہاں سے منتشر ہوجاتے یعنی اپنے نقصان اور نفع کو سمجھتے ہوئے اپنے کاروبار کی طرف روانہ ہوجاتے ۔دراصل یہ انسان کی فطرت ہے کہ وہ دنیا میں ایک خوشگوار اور آسائشوں سے مزین ایک کامیاب انسان کے روپ میں اپنی زندگی گزارنے کا خوہشمند ہوتا ہے وہ جو منصوبے بناتا ہے اس میں اسے کامیابی ملے وہ اپنے جس مقصد کے لئے جس منزل تک پہنچنا چاہتا ہے وہ مقصد بھی اسے حاصل ہو اور اس منزل تک بھی پہنچ جائے پھر اگر وہ اپنا مقصد اور منزل پا لیتا ہے تو اپنے آپ کو کامیاب انسان سمجھتا ہے اور اگر اس کے خواب ادھورے رہ جاتے ہیں تو وہ اپنے آپ کو دنیا کا ناکام انسان سمجھنے لگتا ہے ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں یہ بھی ایک انسانی فطرت ہے کہ اگر وہ دنیا میں اپنے مقاصد میں کامیاب ہوجاتا ہے تو اس کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ اس کی کامیابی اور منصب کبھی ختم نہ ہو اور وہ ہمیشہ رہے پھر نسل در نسل وہ کامیابی آگے بڑھتی رہے لیکن ہمارے پاس کامیابی اور ناکامی کے دو راستے ہیں ایک کی منزل دنیا کی حد تک محدود ہے جبکہ دوسرے کی منزل ہمیشہ کے لئے ہے ایک راستہ وہ ہے جس کی کامیابی پر گھر والے عزیزواقارب اور دنیا کے لوگوں کی نظر میں آپ ایک کامیاب انسان بن جاتے ہو جبکہ دوسرا راستہ وہ ہے جس میں اللہ رب العزت اور حضور صلی اللہ علیہ والیہ وسلم کی نظر میں آپ کامیاب بن جاتے ہو ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں وہ کامیابی اور ناکامی جن سے ہمارا تعلق لوگوں سے نہیں بلکہ اللہ تبارک وتعالی اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ والیہ وسلم سے ہے وہ ہمیشہ رہنے والی آخرت کی زندگی ہے آخرت یعنی ہمیشہ قائم رہنے والی زندگی میں کامیابی اور ناکامی کا ذکر قران مجید میں رب الکائنات نے کئی سورہ میں کیا ہے جیسے سورہ المومنین کی آیت نمبر 102 سے 104 تک میں رب العالمین فرماتا ہے کہ ترجمہ کنزالایمان " جن کی تولیں ہلکی پڑیں وہی ہیں جنہوں نے اپنی جانیں گھاٹے میں ڈالیں ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے ان کے منہ پر آگ لپٹ مارے گی اور وہ اس میں منہ چرائے ہوں گے " ۔یعنی بروز محشر جن کی نیکیوں کے پلڑے بھاری ہوں گے وہ فلاح پائیں گے اور جن کے ہلکے ہوں گے تو یہ وہ ہوں گے کہ جنہوں نے اپنے آپ کو گھاٹے میں ڈالا وہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے آگ انکی خال چاٹ جائے گی اور ان کے جبڑے باہر نکل جائیں گے ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں اسلام میں حقیقی کامیابی یہ ہے کہ جب انسان کے نامئہ اعمال تولیں جائیں تو نیکیوں کی وجہ سے پلڑا بھاری ہوجائے اور اسےجنت کا مستحق قرار دے دیا جائے تو وہ کامیاب ہے اور جس کا پلڑا اس کے گناہوں کی وجہ سے ہلکا ہوگا تو اسے جہنم کا مستحق قرار دیا جائے تو وہ اسلام کے نزدیک ناکام اور خسارے میں رہنے والا ہے اخرت میں جن لوگوں کو کامیاب قرار دیا جائے گا اور جنت میں ان کو جن جن نعمتوں سے نوازہ جائے گا جبکہ جن لوگوں کو ناکام قرار دیا جائے گا اور جہنم میں کیا کیا عذابات نازل ہوں گے ان تمام باتوں کا ذکر قران مجید میں کئی مقامات پر آیا ہے ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں ہمیں یہ بات تسلیم کرنا ہوگی کہ دنیا کی زندگی ایک عارضی اور مختصر زندگی ہے اور اس مختصر وقت میں ہم جو عمل کریں گے اس کا پھل ہمیں ہمیشہ رہنے والی اخرت کی زندگی میں ملے گا قابل مبارک باد ہیں وہ لوگ جو دنیا کی عارضی کامیابی پر خوش ہونے کی بجائے آخرت کی زندگی کو اپنے پیش نظر رکھیں اس کے لئے تیاری کریں اور وہاں کامیابی حاصل کرنے کے لئے قران مجید میں جن اوصاف کا تذکرہ کیا ہے اسے اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کریں اللہ تبارک وتعالی کے نزدیک کامیابی پر حضرت ڈاکٹر علامہ محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
" خردمندوں سے کیا پوچھوں کہ میری ابتدا کیا ہے
کہ میں اس فکر میں رہتا ہوں میری انتہا کیا ہے
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

اللہ تبارک وتعالی سے دعا ہے کہ اللہ رب العزت ہم سے دنیا میں وہ کام لے جس کا پھل ہمیں بھی جنت کی شکل میں ملے اور بروز محشر ہم بھی رب الکائنات اور سرکار صلی اللہ علیہ والیہ وسلم کی نظر میں کامیاب ہوں آمین آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ والیہ وسلم ۔
 

محمد یوسف راہی
About the Author: محمد یوسف راہی Read More Articles by محمد یوسف راہی: 166 Articles with 133693 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.