مسئلہ کشمیر سے دستبرادری کی صورت پاکستان کے لئے ممکنہ نقصانات اور خطرات
(Athar Masud Wani, Rawalpindi)
|
اطہر مسعود وانی
سابق آمر جنرل پرویز مشرف نے عالمی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا ساتھ دینے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس اقدام سے پاکستان نے مسئلہ کشمیر اور ایٹمی پروگرام کو بچا لیا ہے۔ آج یوں محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان انتظامیہ نے اپنی طرف سے مقبوضہ کشمیر کے بدلے پاکستان کو بچا لینے کااقدام کیا ہے۔پاکستان انتظامیہ کی طرف سے چاہے یہ کہا جائے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر سے متعلق بھارت کے5اگست2019کے اقدامات میں پاکستان کی طرف سے مفاہمت شامل نہ تھی لیکن وقت نے ثابت کیا ہے کہ بھارت کے اس بڑے اقدام میں کسی ردعمل کا مظاہرہ نہ کرنا ہی پاکستان کی طرف سے بھارت کو سہولت کاری فراہم کیا جانا تھا۔
5اگست2019 کے اقدام کے ساتھ ہی بھارت نے اپنی فورسز کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ کرتے ہوئے مقبوضہ جموں وکشمیر میںظلم و جبر پر مبنی اقدامات میں غیر معمولی اضافہ کر دیا۔ مسئلہ کشمیر کے حل کے مطالبے کے ساتھ سیاسی جدوجہد کرنے والوں ہر دہشت گردی کے الزامات کی دفعات بھی عائید کر نے کا سلسلہ شروع کر دیا۔تحریک آزادی کے کارکنوں کو ہائبرڈ دہشت گرد قرار دیتے ہوئے ان کی گرفتاریوں، ہلاکتوں کا سلسلہ تیز کر دیا۔مقبوضہ کشمیر کے میڈیا کو تحریک آزادی کے سیاسی رہنمائوں کی کوریج سے روک دیا گیا۔.آزادی پسندوں کی اکثریت کو بھارت کے مختلف حصوں میں واقع جیلوں میں منتقل کر دیا گیا۔جیلوں میں قید آزادی پسندوں کی جائیدادوں کو ضبط کرنے کی کاروائی بھی شروع کر دی گئی۔غیر قانونی رقومات کے الزامات میں تاجروں، صحافیوں اور مختلف طبقہ ہائے فکر کے کشمیریوں کے خلاف دہشت گردی کی معاونت کے الزامات کے ساتھ بھی گرفتاریوں، قید و دیگر کاروائیاں تیز کر دی گئیں۔ایک نئے نافذ کرد قانون کے ذریعے کشمیریوں کی گھروں، جائیدادوں کو تحریک آزادی میں استعمال کرنے کے الزامات کے ساتھ مستقل طور پر سرکاری تحویل میں لینے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔بڑی تعداد میں سرکاری ملازمین کو تحریک آزادی کی معاونت کے الزامات میں ملازمتوں سے نکال دیاگیا۔
کشمیریوں کو دبانے ، ان کو سزایاب کرنے کے لئے ان تمام کاروائیوں کے ساتھ ہی مقبوضہ جموں وکشمیر میں ڈیمو گرافک تبدیلی کے منصوبے پر عملدرآمد کی کاروائیاں بھی تیز کر دی گئیں۔ بڑی تعداد میں غیر ریاستی باشندوں کو مقبوضہ جموں و کشمیر کا ڈومیسائل جاری کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا۔اس سلسلے میں کئی قوانین نافذ کرتے ہوئے کشمیریوں کی زمینوں پر قبضے کی مہم وسیع پیمانے پر سرگرمی سے شروع کر دی گئی۔ اس کے پہلے مرحلے میںجنگلوں ،پہاڑوں میں گجر بکروالوں کی مکانیت کو تباہ کردیا گیا اور اس کے بعد کشمیریوں کی زمینوں کو سرکاری آراضی قرار دیتے ہوئے ان پر قبضے کی مہم سرگرمی سے شروع کر دی گئی۔بھار ت کے سرمایہ کاروں کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں کارخانے ودیگر کاروبار شروع کرنے کے نام پہ لینڈ بنک قائم کرتے ہوئے ہزاروں ایکڑ آراضی کو بھی سرکاری تحویل میں لے لیا گیا۔مقبوضہ کشمیر کے سیاحتی مقامات پہ مقامی افراد کو لیز پہ ہوٹل، گیٹ ہائوسز وغیرہ دینے کا سلسلہ ختم کرتے ہوئے ان کی منسوخی بھی شروع کر دی گئی۔گزشتہ چند ہفتوں سے بڑی تعداد میں گھروں،تجارتی عمارات کو سرکاری زمینوں پر تعمیر شدہ قرار دیتے ہوئے انہیں بلڈوزروں کی مدد سے مسمار کرنے کی ایک مہم بھی تیزی سے جاری ہے۔
ان تمام اقدامات سے بھارت نے مقبوضہ جموں وکشمیر میں آزادی کی سیاسی مزاحمت کو ختم کر کے رکھ دیا ہے اور مسلح مزاحمت بھی محض علامتی طور پر ہی جاری ہے۔مسلح مزاحمت کا بھی عالم یہ ہے کہ خود مقبوضہ کشمیر کے بھارت نواز رہنمائوں کے مطابق بھارتی فورسز کشمیری نوجوانوں کو گرفتا ر کرنے کے بعد جعلی مقابلوں میں قتل کرنے کے بعد اعلان کرتی ہیں کہ انہیں مقابلے میں ہلاک کیا گیا ہے۔دو عشرے پہلے ہی خود بھارت میں ایسی رپورٹس شائع ہوئیں کہ جن میں بتایا گیا کہ مقبوضہ جموں وکشمیر بھارتی فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے لئے غیر معمولی مفادات کے حصول کا ایک ذریعہ بنا ہوا ہے اور اس کے لئے بھارتی فوج اور ایجنسیاں دہشت گری کی موجودگی ظاہر کرنے کے اقدامات میں بھی خود ہی ملوث ہیں تاکہ بھارتی فوج اور ایجنسیوں کے لئے غیر معمولی مفادات کے حصول کا سلسلہ بدستور جاری رہے۔اسی صورتحال کے تناظر میں مقبوضہ کشمیر میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ بھی نمایاں ہوا جس میں غیر مقامی افراد اور پنڈت سرکای ملازمین کو نشانہ بنانے کی متعدد کاروائیاں ہوئیں۔مقبوضہ کشمیر میں لاکھوں کی تعداد میں حالت جنگ کی طرح متعین فوج ، دیگر فورسز اور تقریبا پچیس انٹیلی جنس ایجنسیوں کی بدولت یہ ممکن نظر نہیں آتا کہ وہاں کسی بھی قسم کی عسکری کاروائیاں ہو سکیں،یوں ان تمام واقعات میں خود بھارتی فورسز اور ایجنسیوں کا کردار ہونے کے اشارے ملتے ہیں تاکہ مقبوضہ جموں وکشمیر میں کشمیریوں کے خلاف دست ستم کی غیر معمولی کاروائیوں کا سلسلہ جاری رکھا جا سکے۔
مقبوضہ کشمیر کی صورتحال سے پاکستان کی عملی لاتعلقی تو صاف ظاہر ہے تاہم سرکاری سطح پہ کشمیر سے متعلق بیانات کا سلسلہ ختم نہیں کیا گیا ہے۔البتہ مسئلہ کشمیر سے متعلق پاکستان کی سفارتی سرگرمیاں ، جو پہلے ہی ناکافی تھیں، مزید کمزور اور پسپائی کی صورتحال ظاہر کر رہی ہیں۔اس مرتبہ بھی5فروی کا دن پاکستان میں سرکاری سطح پہ منایا گیا، وزرت خارجہ کی طرف سے کشمیر سے متعلق بیانات بھی جاری ہوتے رہتے ہیں لیکن کشمیر کاز سے پسپائی اور لاتعلقی کاپاکستان انتظامیہ کا رجحان اب عوام کو بھی واضح طور پر محسوس ہو رہا ہے۔پاکستان میں سرکاری اور سیاسی سطح پہ دیئے جانے والے بیانات میںعالمی برادری سے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، مسئلہ کشمیر کا سختی سے نوٹس لئے جانے کی بات بار بار دہرائی جاتی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ عالمی برادری، عالمی ادارے مسئلہ کشمیر کا نوٹس اسی وقت لے سکتے ہیں کہ جب خود پاکستا ن اس معاملے پہ سختی سے سٹینڈ لے، کشمیر میں بھارتی چیلنج کا سامنا کرے لیکن جب خود پاکستان مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے المناک انسانیت سوز مظالم پہ بیانات کی حد تک محدود ہو جائے تو عالمی برادری اور اداروں کے لئے اس مسئلے پہ کسی سرگرمی کی توقع کو خود فریبی کے سوا کوئی دوسرا نام نہیں دیا جاسکتا۔
پاکستان کے اعلی حلقوں سے اس طرح کی باتیں بھی سننے میں آتی ہیں کہ پاکستان کو اپنی صورتحال کے تناظر میں مسئلہ کشمیر سے قطع نظر بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کے اقدامات کرنے چاہئیں۔اس تمام صورتحال میں اس بات کا جائزہ لینا بہت اہم ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت کے جارحانہ اقدامات اور پاکستان کی طرف سے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال اورکشمیر کاز میں پسپائی ، کمزوری کے کھلے مظاہرے اور دستبرادری سے مملکت پاکستان کو کیا کیا نقصانات کا سامنا ہو سکتا ہے۔بھارت کی' بی جے پی ' حکومت آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان پر قبضے کے اعلانات کو بھار ت کے آئندہ عام انتخابات کے حوالے سے ایک نعرے کے طور پراستعمال کر رہی ہے اور بھارتی فوجی عہدیدار اس معاملے میں خود کو تیارقرار دیتے ہوئے اس بارے میں حکومت کی طرف سے ہدایت دیئے جانے کے بیانات دے رہے ہیں۔انہی دنوں سوشل میڈیا پہ ایسے وڈیو کلپ رائرل ہوئے ہیں جن میں دکھایا گیا ہے کہ بھارتی فوجیوں نے آزاد کشمیر کی حدود میں آخر سفید جھنڈے نصب کر دیئے تاہم آزاد کشمیر کے نہتے مقامی باشندوں کی طرف سے انہیں مزاحمت کا سامنا کرناپڑا ۔پاکستان میں مجموعی انحطاط پذیری کی صورتحال میں عمومی طو ر پر یہ سمجھا جانے لگا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ پاکستان کے ہمسائے کے ایک علاقے کا معاملہ ہے۔ کشمیر کاز کا معاملہ پاکستان کی سلامتی اور بقاء سے مربوط ہونے کے ادراک، اس کا احساس بہت کمزور اور ناتوانی کا شکار ہو چکا ہے۔
مقبوضہ کشمیر ،مسئلہ کشمیر سے دستبرداری کی صورت پاکستان کو کیا کیا ممکنہ نقصانات اور خطرات درپیش ہو سکتے ہیں، اس بات کا احاطہ کرنا پاکستان کے پالیسی سازوں، تھنک ٹینکس کی سوچ، عنوانات میں کہیں نظر نہیں آتا۔سندھ طاس معاہدے میں بھی پاکستان کے ارباب اختیار کی یہ حکمت عملی مہلک ثابت ہوئی کہ جب ان کی طرف سے مسئلہ کشمیر اور ریاست جموں وکشمیر کے قدرتی وسائل کو الگ الگ تصور کرتے ہوئے بھارت کے ساتھ معاہدہ طے کیا گیا۔مسئلہ کشمیر حل کئے بغیر بھارت کے ساتھ کشمیر کے آبی وسائل کی تقسیم کا مستقل نوعیت کا معاہدہ کرنے سے ہی پاکستان کی طرف سے بالواسطہ طور پر مقبوضہ جموں وکشمیر پر بھارت کے تسلط کو تسلیم کر لیا گیا۔اب سندھ طاس معاہدے ہونے کے ساٹھ سال بعد یہ معاہدہ بھی بھارتی روئیے کی وجہ سے خطرات سے دوچار ہے۔بھارت مقبوضہ جموں وکشمیر کے آبی وسائل کو بھارت کی ترقی کی لئے بھرپور طورپر استعمال کرنے کے لئے، معاہدے کے مطابق پاکستان کے حق کو نظر انداز کرتے ہوئے ، سندھ طاس معاہدے میں ایسی ترامیم کرانا چاہتا ہے کہ جس سے بھارت کو مقبوضہ جموں و کشمیر کے دریائوں پہ پاکستان کے حق کو غصب کرنے کا موقع مل جائے۔یہاں یہ حقیقت بھی واضح ہے کہ کشمیر کاز اور مسئلہ کشمیر سے دستبرادری کی صورت مقبوضہ جموں وکشمیر کے آبی وسائل پہ پاکستان کے حق کا مقدمہ بہت کمزور ہو جاتا ہے۔
جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میںبند کمرے کے ایک اعلی سطح اجلاس میں دی گئی ایک بریفنگ میں بتایا گیا تھا کہ ہم نے ایسے کئی امکانات ختم کر دیئے ہیں جن سے بھارت کے ساتھ جنگ کی نوبت آ سکتی تھی تاہم اب بھی ایک موضوع ایسا ہے جس سے بھارت کے ساتھ جنگ کی نوبت آ سکتی ہے اور وہ پانی کا معاملہ ہے ۔ تاہم اب ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان پانی کے مسئلے پہ بھی بھارت کے ساتھ جنگ کرنے کا خطرہ مول لینے سے دستبرادری اختیار کرنے کی راہ پہ گامزن ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کے ارباب اختیار کشمیر کاز ، مسئلہ کشمیر سے دستبرادری اختیار کرتے ہوئے پاکستان سے دستبردار ہونے کی راہ اپنانے پہ آمادہ ہو چکے ہیں؟
اطہر مسعود وانی 03335176429
|