تم 21 دن تک باقاعدگی سے نماز پڑھو گے٬ سکھ جج نے کس بات پر مسلمان ملزم کو یہ حکم دیا؟

image
 
انڈیا کی ریاست مہاراشٹر کے مالیگاؤں کی ایک عدالت نے مار پیٹ اور جھگڑا کرنے پر سزا کے طور پر حکم دیا ہے کہ وہ ملزم اگلے 21 دنوں تک باقاعدگی سے پانچوں وقت نماز ادا کرے گا۔
 
مجسٹریٹ تیجونت سنگھ سندھو نے اپنے فیصلے میں 30 برس کے ملزم رؤف عمر خان سے یہ بھی کہا ہے کہ وہ قریبی مسجد میں اپنے اعمال کے کفارہ کے طور پر دو پودے لگائیں گے اور پھر اس کی دیکھ بھال کریں گے۔
 
مجسٹریٹ نے اس شخص کو سڑک پر لڑائی کے معاملے میں ایک شخص کو زخمی کرنے کی پاداش میں یہ سزا سنائی۔
 
مجسٹریٹ نے حکم دیا کہ ضلع کے ایک زرعی افسر عدالت کے حکم کی تعمیل کی نگرانی کریں گے اور اجازت دی کہ اگر انھیں حکم نافذ کرنے کی صورت میں ضرورت ہوئی تو وہ پولیس فورس کا استعمال کر سکتے ہیں۔
 
عدالتی حکم کے مطابق ملزم نے عدالت کو بتایا کہ وہ ایک غریب آدمی ہیں اور ان پر خاندان کی روزی روٹی کی ذمہ داری ہے۔
 
’پروبیشن فار آفینڈرز ایکٹ‘ عدالت کو مجرم کو نصیحت یا مناسب تنبیہ کے بعد رہا کرنے کی اجازت دیتا ہے تاکہ ملزم دوبارہ جرم نہ کرے۔
 
اس حکم میں مجسٹریٹ نے مشاہدہ کیا ہے کہ ’میرے مطابق مناسب وارننگ دینے کا مطلب ہے کہ یہ سمجھنا کہ جرم کیا گیا ہے، ملزم کا جرم ثابت ہو چکا ہے اور وہ اسے یاد رکھے تاکہ وہ دوبارہ جرم نہ دہرائے۔‘
 
عدالت نے مزید کہا کہ ملزم نے اعتراف کیا ہے کہ وہ ایک دیندار مسلمان ہیں اور ان پر نماز پڑھنا فرض ہے لیکن وقت کی کمی کی وجہ سے وہ نماز نہیں ادا کر پاتے۔
 
اس تناظر میں مجسٹریٹ نے کہا کہ ’ان کو اس شرط پر چھوڑنا مناسب ہوگا کہ وہ کل سے 21 دنوں تک مسلسل فجر، ظہر، عصر، مغرب اور عشا کی پانچ وقت نمازیں پڑھے۔‘
 
image
 
جھگڑے اور مار پیٹ کا یہ واقعہ اپریل 2010 میں پیش آیا تھا جب رؤف خان کا آٹورکشہ ایک کھڑی موٹر سائیکل سے ٹکرا گیا، جس کے بعد ان کی موٹر سائیکل مالک سے بحث ہوئی۔ پولیس نے الزام لگایا کہ رؤف خان نے شکایت کنندہ کے ساتھ بدسلوکی کی اور انھیں مارا پیٹا، جس سے وہ زخمی بھی ہوئے۔
 
مالیگاؤں کے رہائشی رؤف خان کے خلاف تعزیرات ہند کی دفعہ 323 (جان بوجھ کر چوٹ پہنچانے کی سزا)، 325 (شدید چوٹ پہنچانا)، 504 (جان بوجھ کر توہین) 506 (مجرمانہ دھمکی) کے الزامات کے تحت مقدمہ درج کیا تھا۔ لیکن انھیں دفعہ 323 کے علاوہ اور سارے الزامات میں رہا کر دیا گیا۔
 
اس مقدمے میں پبلک پراسیکیوٹر نسرین میمن نے کہا کہ ان کے خیال میں جج نے ملزم کے اصلاح کے نظریے سے یہ فیصلہ سنایا ہے۔
 
انھوں نے کہا کہ ’مجھے ایسا لگتا ہے کہ جج ملزم کی (معاشی) حالت دیکھتے ہیں، جج صاحب کا نظریہ تھا کہ اگر اتنے معمولی جرم کے لیے انھیں جیل بھیجا جاتا ہے تو وہ شاید بڑے مجرم بن جائیں گے۔‘
 
وہ کہتی ہیں کہ شاید اس امید کے ساتھ یہ فیصلہ دیا گیا ہے کہ ’وہ اس (اصلاحی فیصلے) کے بعد کی غلط حرکت نہ کریں، سدھر جائیں۔ میرے حساب سے یہ فیصلہ ان کی اصلاح کے لیے سنایا گیا ہے۔‘
 
Partner Content: BBC Urdu
YOU MAY ALSO LIKE: