|
|
اسی کی دہائی سے تعلق رکھنے والے افراد کے لیے جنید
جمشید اور دل دل پاکستان ایک ایسی یاد ہے جن کو ایک دوسرے سے جدا کرنا قطعی
ممکن نہیں ہے۔ وائٹل سائن کا یہ ملی نغمہ ہر دل کی آواز بن گیا۔ خاص طور پر
جنید جمشید وہ نوجوان تھے جن کو دیکھ کر بہت ساری دھڑکنیں بے ربط ہو جاتی
تھیں۔ |
|
جنید جمشید
کی زندگی |
بنیادی طور پر جنید جمشید میوزک کے شعبے میں
آنے سے قبل ایک انجینئير تھے اور کئی کانٹریکٹرز اور پاکستان ائیر فورس کے
لیے خدمات انجام دیتے تھے مگر اپنی بے چین فطرت کے سبب انہوں نے وائٹل سائن
نامی میوزیکل بینڈ بنایا اور یہاں پر بھی عزت دولت اور شہرت کے عروج کو چھو
لیا- |
|
سال 1987 میں دل دل پاکستان سے لے کر 1999
تک کے کیرئير کے دوران جنید جمشید نے بارہ سال کے قلیل عرصے میں وہ سب کچھ
حاصل کر لیا جس کے حصول کے لیے لوگوں کو پوری عمر لگ جاتی ہے- |
|
عروج کے بعد زوال |
جس طرح ہر عروج کو زوال ہوتا ہے ویسے ہی 1999 کے بعد کا وقت جنید جمشید کی زندگی کا
مشکل ترین وقت قرار دیا جاتا ہے جس میں انہوں نے پے در پے دو سولو البم ریلیز کیں
جو ناکامی سے دوچار ہوئيں، جنید جمشید نے اپنا ایک فیشن ڈيزائنر اسٹوڈیو بنایا اس
کو بھی کوئی خاص کامیابی نہیں مل سکی- |
|
|
|
جس کے بعد جنید نے دوبارہ سے انجنئيرنگ کو اپنانے کا
فیصلہ کیا مگر نوکری حاصل کرنے میں ناکامی کے بعد بنک کرپٹ تک ہونے کی نوبت
سے بھی دوچار ہوئے۔ ان کے قریبی حلقوں کا یہ کہنا تھا کہ اپنی زندگی کے اس
مشکل ترین دور میں جنید جمشید میں بہت تیزی سے تبدیلی آنا شروع ہو گئی- |
|
انہوں نے میوزک سے کنارہ کشی اختیار کر لی اور باقاعدگی
سے نماز پڑھنی شروع کر دی یہاں تک کہ سال 2004 میں جنید جمشید نے باقاعدہ
طور پر میوزک کو حرام قرار دیتے ہوئے اس کو چھوڑنے کا اعلان کر دیا۔ |
|
زندگی کا سب سے مشکل وقت
|
جنید جمشید کی زندگی نرم اور گرم حالات کا ایک
مجموعہ تھی ایک انسان کے لیے اس سے برا وقت کوئی نہیں ہو سکتا ہے کہ وہ بنک
کرپٹ ہو جائے اور اس کی جائیداد نیلام ہو جائے- مگر جب ایک انٹرویو میں
جنید جمشید سے یہ سوال پوچھا گیا کہ ان کی زندگی کا سب سے مشکل وقت کون سا
تھا تو اس کے جواب میں جو انہوں نے بتایا وہ ہم سب مسلمانوں کے لیے ایک
لمحہ فکریہ ہے کہ ہماری کوئی معمولی بات کسی کو اس حد تک تکلیف دے سکتی ہے
کہ وہ اس کو کبھی فراموش ہی نہ کر سکے- |
|
یا اللہ مجھ سے
میری یہ پہچان واپس لے لے |
ایک انٹرویو میں جنید جمشید سے جب ان کی زندگی
کے مشکل ترین وقت کے بارے میں دریافت کیا گیا تو ان کا جواب میں کہنا تھا
کہ جب انہوں نے شروع شروع میں میوزک کو چھوڑ کر تبلیغی جماعت میں وقت لگانا
شروع کیا تو ایک دفعہ ان کی تشکیل ایک ایسی جماعت میں ہوئی جس میں بڑے بڑے
علما شامل تھے یہ جماعت ایک گاؤں میں تبلیغ کے لیے گئی- |
|
اس موقع پر ان کو دیکھ کر ایک عالم نے بہت برا سا منہ بناتے ہوئے کہا کہ اب یہ وقت
بھی آگیا ہے کہ گانے بجانے والے بھی اللہ کا پیغام دیں گے- |
|
جنید جمشید کا یہ کہنا تھا کہ ان کی یہ بات سن کر ان کا بہت دل دکھا وہ وہاں سے اٹھ
کر مسجد میں ہی موجود ایک کمرے میں تنہا چلے گئے اور اکیلے بیٹھ کر کافی دیر تک
روتے رہے- |
|
|
|
اس کے بعد ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے دو رکعت
نفل نماز ادا کی اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ یااللہ مجھ سے میری یہ پہچان
چھین لے اور مجھے ایک نئی پہچان دے۔ مجھے ایسی پہچان دے کہ میرا تعارف تیرے
دین کی تبلیغ ہو لوگ مجھے تمھارے نام سے پہچانیں۔ |
|
دعا کی قبولیت |
اللہ تعالیٰ بہت رحیم و کریم ہے اور انسان کی
دل سے نکلی ہوئی آواز سنتا ہے اس دعا کی قبولیت کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ
دسمبر 2016 میں جب جنید جمشید چترال سے واپسی پر جہاز حادثے میں اپنے خالق
حقیقی سے جا ملے تو میڈیا پر ان کی موت کی خبریں اس سرخی کے ساتھ چلائی
گئیں کہ معروف نعت خواں اور اسلامی اسکالر جنید جمشید طیارہ حادثے میں شہید- |
|
یہ واقعہ ہم سب لوگوں کے لیے ایک سبق ہے جو خود
کو اللہ کے بہت قریب سمجھتے ہیں اور دوسرے افراد پر تنقید کرتے ہیں جب کہ
اللہ تعالیٰ کے معاملے وہی بہتر سمجھ سکتا ہے ہمیں چاہیے کہ اپنی طرف سے
نیک عمل کرتے رہیں اور صلہ اللہ کی بارگاہ میں چھوڑ دیں- |