وہ خوشی واپس نہیں آ سکتی

یہ لاہور کے باسیوں کا ایک خاص مزاج تھا۔تھوڑی سی سردی آئی تو عورتیں دھوپ دیکھ کر چھت پر پہنچ جاتیں۔ایک دو چارپائیاں بچھا کر دوپہر کا سارا وقت چھت پر ہی گزرتا، وہیں کھانا کھنا، سوئیٹر بننا اور چھوٹے چھوٹے کام کرنا۔ہیٹروں کا فیشن ہی نہیں تھا۔اس لئے دھوپ ہی سردی کا بہترین علاج تھا۔دور دور تک جہاں نظر ڈالو، ہر گھر کی چھت اس کے مکینوں سے بھری نظر آتی۔بچے سکول سے واپس آتے اور آتے ہی ایک گچھی ڈور اور چھوٹی سی پتنگ جسے عرف عام میں ہم گڈی کہتے ان کے ہاتھ میں ہوتی اور وہ دنیا جہاں سے بے خبر چھت پر اسے اڑانے میں مصروف ہوتے۔ماں آوازیں دیتی کہ پہلے کھانا کھا لوپھر پتنگ بازی کرنا۔ مگر بچہ اپنی دہن میں مست اس وقت تک پتنگ اڑاتا کہ جب تک وہ پھٹ نہ جاتی یا کوئی اسے کاٹ نہ دیتا۔پھر وہ جب کھانا کھانے آتا تو اس کے ہاتھ روٹی پر مگر نظریں آسمان پر ہی ہوتیں۔ وہ قوس و قزح جیسے رنگوں بھرے آسمان پر پتنگوں کی آپس کی چھیڑ خانے کا مزہ لے رہا ہوتا۔کوئی پتنگ کٹ جاتی تو وہ سب کچھ چھوڑ کر بھاگتا یہ دیکھنے کے لئے کہ وہ کٹی پتنگ کس کے ہاتھ لگی۔کٹی پتنگ پکڑنے کا بھی اپنا ایک مزہ تھا۔ اچھے کھاتے پیتے لوگ جن کے پاس اپنی خریدی ہوئی سینکڑوں پتنگیں موجود ہوتیں، کٹی پتنگ کے پیچھے بھاگنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے تھے۔

کٹی پتنگ کو پکڑنا بھی ایک آرٹ تھا۔میرا ایک عزیزپتنگ بازی کا بہت شوقین تھا۔ اس کا کمرہ پتنگوں اور گڈیوں سے ہمیشہ بھرا ہوتا تھا مگر پتنگ لوٹنا اس کی کمزوری تھا۔ اس کے پاس ایک پینتیس یا چالیس فٹ کا بانس تھاجس کے سرے پر اس نے پندرہ فٹ لمبی جھاڑی باندھی ہوئی تھی۔ اب کسی پتنگ کی ایسی تیسی کہ اس کے گھر کے قریب سے گزرے اور اس کے قابو نہ آئے۔وہ گڈی اڑا رہا ہوتا تو کٹی پتنگ پر نظر پڑتی جو اس کے خیال میں اس کے قابو آسکتی ہے ،وہ کسی کو اپنی پتنگ پکڑا کر بانس ہاتھ میں پکڑدیوار پر کھڑا ہو جاتا۔اس دیوار کے اندرونی طرف تو چھت تھی مگر بیرونی طرف کوئی تیس پینتس فٹ نیچے بازار تھا۔میں دیوار سے نیچے دیکھتا تواتنے فاصلے کا سوچ کر چکر آجاتا۔ مگر میرا وہ عزیزاس ساڑھے چار انچ کی دیوار پر یوں بھاگتا جیسے ریس میں حصہ لے رہا ہو۔گھر بہت بڑا تھا اور جہاں جہاں سیڑھیاں تھیں وہاں ان سیڑھیوں پر شیلٹر بنے ہوئے تھے جنہیں عام زبان میں منٹی کہتے ہیں۔لمبی دیواروں کے درمیان میں چند منٹیاں بڑی رکاوٹ تھیں مگر وہ اسی انداز سے انہیں عبور کرتا پوری چھت پر گھوم آتا۔ کوئی کسی کی پتنگ کو غلط کاٹتا یا توڑ لیتا تو اینٹ بازی بھی ہو جاتی۔میرا عزیز جہاں رہتا تھا، اس گھر کے آگے پندرہ فٹ کا بازار تھا اور پھر ایک ساٹھ ستر فٹ کا ایک کارخانہ تھا۔اس کے بعد بہت سے گھر تھے۔ کسی جھگڑے کی صورت میں اس کی چلائی ہوئی اینٹ ان گھروں میں آسانی سے پہنچ جاتی۔اینٹ کے بعد گھر میں شکایت بھی پہنچتی اور اس پر ایک آدھ دن پتنگ اڑانے کی پابندی لگتی مگر پھر وہی روٹین۔میرا یہ عزیز شہر کا ایک ماڈل تھا۔ ہر محلے میں ایسے دو چار جانباز آسانی سے نظر آتے تھے۔

سردیوں کی شدت کم ہوتی۔ عورتیں چھت سے غائب ہونے لگتیں تو بسنت کی آمد پر چھتیں پتنگ بازوں سے لد جاتیں۔باقاعدہ تیاری ہوتی۔چھتوں کو سجایا جاتا۔ کھانے کا انتظام کیا جاتا۔ رات کو روشنی سے شہر کو چکا چوند کرنے کا پورا اہتمام ہوتا۔ دور دور سے لوگ اس تہوار میں شرکت کرنے آتے۔ مجھے یاد ہے اخری دو دفعہ، ایک بسنت پر کچھ دوست بھارت سے میرے پاس آئے، انہوں نے بسنت کو بھر پور انجوائے کیا۔ دوسری بسنت پر میں سائنس ایجوکیشن کالج ٹاؤن شپ تھا تو وہاں سٹڈی ٹور پر گورنمنٹ گرلز کالج آف ایجوکیشن کی چالیس کے قریب بچیاں آئی ہوئی تھیں تو اس کالج کے سارے سٹاف اور ان بچیوں نے میرے ساتھ بسنت منائی۔ اتنا خوبصورت، دلکش اور شاندار تہوار تھا کہ آج بھی ان میں سے کوئی ملتا ہے تو ان خوبصورت لمحوں کا ذکر ضرور کرتا ہے۔

پھر یوں ہوا کہ یہ خوبصورت تہوار ہلڑ بازی کی نظر ہونے لگا، کھیل میں ہار اور جیت کی بجائے صرف جیتنے کا غیر فطری جذبہ ابھر آیا۔ خوفناک ڈوریں جن پر مہلک کیمیکل لگے ہوتے، لوگوں کی گردنیں کاٹنے لگیں۔ کمزور حکومتیں ایسے جرائم پیشہ لوگوں کا کچھ سدباب نہ کر سکیں۔میں عامر جب لوکل گورنمنٹ کے سربراہ تھے تو موٹر سائیکلوں پر حفاظتی تار لگائے گئے جن سے گردن زدنی کافی کم ہوئی مگر مشکل یہ ہے کہ لاہور اب لاہوریوں کا نہیں رہا۔ لاہور کے لوگ اب لاہور میں اقلیت میں ہیں اکثریت ان کی ہے جو اب نوآباد لاہوری ہیں۔ بسنت پر پابندی کا ایک زور دار مطالبہ آیا۔ اس مطالبے میں مذہبی جماعتیں بھی شامل تھیں۔ اصل لاہوریوں کی آواز اس شور میں دب کر رہ گئی ۔ چنانچہ حکومت نے حقیقی ذمہ داروں کی بجائے بسنت کو مجرم قرار دے کر ا س پر پابندی لگا دی ۔چھتوں پر بیٹھنے کاتصور بھی ختم ہو چکا۔ اب چھتیں بالکل سونی سونی اور ویران ہوتی ہیں۔ نہ کوئی عورت چھت پر جاتی ہے، نہ چھتوں پر کھانے کا اہتمام ہوتا ہے اور نہ ہی عورتیں سوئیٹر بنتی ہیں۔ نئے بچوں کو پتنگ بازی کا پتہ ہی نہیں۔بدلتا وقت ہر روایت کو ختم کر جاتا ہے۔

آج پھر بہار آئی ہے ۔ یہ رت سردی کے ختم ہونے کی نوید ہے اور اس رت میں آہستہ آہستہ سردی ختم ہوتی جاتی ہے۔ اس موسم میں ہرے ہرے کھیتوں میں آپ کو پیلے پیلے پھول نظر آتے ہیں ۔ پیلا رنگ بسنتی رنگ بھی کہلاتا ہے۔ اس رت یا موسم میں فصلوں کی کٹائی بھی ہوتی ہے اور فصلوں کی کٹائی پر پنجاب بھر میں کسان لوگ جشن مناتے اور میلے ٹھیلوں کا اہتمام کرتے ہیں۔ یہ میلے بسنت میلے کہلاتے ہیں۔کہتے ہیں حضرت نظام الدین اولیا اپنے بھتیجے کی بے وقت موت سے بہت مغموم تھے انہیں خوش کرنے کے لئے حضرت امیر خسرو بسنتی کپڑے پہن کر اور بسنتی پھول لئے رقص کرتے ان کے پاس آئے جس پر حضرت نظام الدین مسکرائے۔ اس واقعے کی یاد میں صدیوں سے ان کے مزار پر ہر سال بسنت میلے کا باقاعدہ انعقاد ہوتا ہے اور اسی دن مزار کے احاطے میں رات کو قوالی کی بزم سجائی جاتی ہے۔ آج بھی لوگ بسنت کا جشن منانا چاہتے ہیں مگر کیسے۔ یہ بسنت رت بھی پچھلے چند سالوں کی طرح روکھی پھیکی گزر جائے گی۔ پنجاب کا کلچرل تہوارکچھ لوگوں کی ہٹ دھرمی کی بھینٹ چڑھ چکا ہے۔ اگلے ماہ نو روز ہے ۔ مارچ کی 21 تاریخ کو ۔ یہ ایرانیوں کا کلچرل تہوار ہے۔اس دن کی ابتدا ایرانیوں کے قبل اسلام کے نبی زرتشت کے عہد میں ہوئی۔ زر تشت کا عہد چلا گیا۔وہ لوگ آتش پرست تھے۔ وہ مسلمان نہیں تھے ۔ لیکن روایات سے پیچھا چھڑایا نہیں جا سکتا، ایرانی آج بھی اسی پرانے کلچر کے اسیر ہیں اس لئے کہ ایران میں کوئی نہیں کہتا کہ یہ دن اسلامی نہیں۔ ایرانی اسے بڑی دھوم دھام سے آج بھی مناتے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک کسی کلچرل تہوار کو مذہب کے نام پر ختم نہیں کیا جا سکتا۔ ایران میں کوئی ایسے مذہبی جنونی نہیں جو بے جاہ الزامات اور نعرے بازیوں سے لوگوں کو ڈرا دھمکا کر ان کی خوشیاں چھین لیں۔ کاش ہمارے رہنما بھی اسی حوالے سے سوچیں اور عوام کو اس کی خوشیاں لوٹا دیں۔
 
Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 582 Articles with 500410 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More