ابو ہمارے کھلونے کب لائیں گے٬ بلوچستان کانسٹیبلری حملے میں شہید ہونے والے محمد حیات جن کے بچے آج بھی ان کا انتظار کر رہے ہیں

image
 
’میرے بھائی کے کمسن بچوں کو یہ معلوم نہیں کہ ان کے والد اس دنیا میں نہیں رہے، اس لیے وہ بار بار پوچھتے ہیں کہ ابو کب ہمارے کھلونے لائیں گے۔‘
 
یہ کہنا تھا بلوچستان کے ضلع مستونگ سے تعلق رکھنے والے محمد اکبر کا جن کے بھائی محمد حیات ضلع کچھی میں ہونے والے خود کش حملے میں ہلاک ہوئے۔
 
محمد اکبر کہتے ہیں کہ ’میرے بھائی نے سبی سے اپنے بچوں سے بات کی تھی اور یہ بتایا تھا کہ انھوں نے بچوں کے لیے کھلونے خریدے ہیں جس کی وجہ سے بچے والد کے انتظار میں ہیں۔‘
 
محمد حیات کا تعلق پولیس ونگ بلوچستان کانسٹیبلری کے روایتی رقص پیش کرنے والی پلٹون سے تھا، جو مختلف تقاریب میں روایتی رقص پیش کرتے ہیں۔
 
یاد رہے کہ بلوچستان کانسٹیبلری کی ایک گاڑی کو موٹر سائیکل پر سوار خود کش حملہ آور نے چھ مارچ کو ضلع کچھی کے علاقے بولان میں کمبڑی پل پر نشانہ بنایا تھا۔
 
اس واقعے میں بلوچستان کانسٹیبلری کے نو اہلکار ہلاک اور دس زخمی ہوئے تھے۔ یہ اہلکار سبی میلے میں سیکورٹی اور دیگر فرائض انجام دینے سبی گئے تھے۔
 
بلوچستان کانسٹیبلری کے کمانڈنٹ سلمان چوہدری نے ان اہلکاروں کی ہلاکت کو فورس کے لیے ایک بڑا نقصان قرار دیا ہے۔
 
image
 
محمد حیات کون تھے؟
محمد حیات کا تعلق کوئٹہ سے متصل بلوچستان کے ضلع مستونگ کے علاقے درینگڑھ سے تھا۔ ان کے بڑے بھائی محمد اکبر نے بتایا کہ محمد حیات 15 سال قبل بلوچستان کانسٹیبلری میں بھرتی ہوئے۔
 
محمد حیات کے چار کمسن بچے ہیں جن میں ایک بیٹا اور تین بیٹیاں شامل ہیں۔
 
محمد اکبر کا کہنا تھا کہ ان کے بچوں میں بیٹی سب بڑی ہے جس کی عمر چھ سال جبکہ سب سے چھوٹی بیٹی کی عمر ایک برس ہے۔
 
محمد اکبر نے بتایا کہ محمد حیات نے سبی سے روانگی سے پہلے اپنے گھر فون کیا تھا اور یہ بتایا تھا کہ وہ پیر کے روز دو بجے تک گھر پہنچیں گے۔
 
ان کا کہنا تھا کہ بھائی نے اپنے چھوٹے بچوں سے بھی بات کی تھی اور یہ بتایا تھا کہ انھوں نے ان کے لیے میلے سے کھلونے خریدے ہیں اور وہ ان کو لا رہے ہیں۔
 
’انھوں نے اپنی بڑی بیٹی کو بتایا تھا کہ ان کے لیے گڑیا خریدی ہے جس پر ان کی بڑی بیٹی اور دیگر بچے بہت خوش تھے۔‘
 
محمد اکبر کا کہنا تھا کہ چونکہ بھائی کے بچے چھوٹے ہیں اس لیے ان کو پتا نہیں کہ ان کے ابو اس دنیا میں نہیں جس کی وجہ سے وہ بار بار پوچھ رہے ہیں کہ ابو کب ہمارے کھلونے لائیں گے۔
 
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے محمد اکبر اپنے بھائی اور ان کے بچوں کی باتوں کو دہراتے ہوئے کئی مرتبہ آبدیدہ ہوئے۔
 
image
 
محمد اکبر کا خود بھی تعلق پولیس سے ہے اور وہ بھی سبی میلے پر گئے تھے۔
 
ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ میں چھٹی پر تھا لیکن میلہ دیکھنے سبی گیا تھا، جہاں بھائی سے ملاقات ہوئی تھی اور اسے اگلے روز گھر آنا تھا۔
 
انھوں نے اپنے موبائل پر وہ گروپ فوٹو بھی دکھائی جو ان کے بھائی اور دیگر ساتھیوں نے سبی میلے کے موقع پر لی تھی۔
 
انھوں نے بتایا کہ وہ ان کے ساتھ آنے کی بجائے ڈھاڈر اپنے سسرال چلے گئے اور وہاں انھیں بھتیجے کا فون آیا کہ چچا کے بارے معلومات حاصل کریں کیونکہ ان کی گاڑی پر حملہ ہوا ہے۔
 
ان کا کہنا تھا کہ اس اطلاع کے بعد انھوں نے محمد حیات کو فون کیا تو ان کا نمبر بند جا رہا تھا۔
 
’مجھے علم ہوا کہ وہ زخمی ہے، جس پر میں سبی گیا لیکن وہاں معلوم ہوا کہ بھائی زخموں کی تاب نہ لا کر چل بسے ہیں۔‘
 
’محمد حیات کو کسی کو ناراض کرتے نہیں دیکھا‘
 
image
 
محمد ابراہیم کا تعلق بھی بلوچستان کانسٹیبلری کی روایتی رقص پیش کرنے والے پلٹون سے ہے اور وہ محمد حیات کے ساتھ اس گاڑی میں سفر کر رہے تھے جو خود کش حملے کا نشانہ بنی
 
وہ خود بھی دھماکے میں زخمی ہوئے اور اس وقت ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔
 
فون پر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ کوئٹہ سے دو مارچ کو سبی میلے میں روایتی رقص پیش کرنے گئے تھے۔
 
وہ بتاتے ہیں کہ ’چھ مارچ کو گاڑی میں بیٹھتے وقت ہم سب خوش تھے کیونکہ ہم اچھا پرفارم کر کے واپس کوئٹہ جا رہے تھے جبکہ حیات کی بچوں سے ملنے کی خوشی دیدنی تھی۔‘
 
انھوں نے بتایا کہ دوران سفر سب گپ شپ میں مصروف تھے کہ اچانک ایک زرودار دھماکہ ہوا اور اس کے بعد کچھ پتا نہیں چلا۔ جب ہوش میں آیا تو پتہ چلا کہ محمد حیات سمیت ہمارے کئی ساتھی اس دنیا میں نہیں رہے۔‘
 
بولان خودکش حملے سے ہلاک اور زخمی ہونے والے تمام اہلکار روایتی رقص والی پلٹون سے ہی تھے۔
 
محمد ابراہیم نے بتایا کہ ہماری یہ کوشش ہوتی تھی کہ مختلف تقاریب میں جا کر لوگوں کے چہروں پر خوشیاں بکھیریں اس لیے جتنی بھی بڑی تقاریب ہوتی ہیں تو اس میں ہمارے ساتھی زبردست پرفارم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
 
وہ کہتے ہیں کہ ویسے تو پلٹون کے سب ساتھی ہی دوست تھے لیکن محمد حیات کے ساتھ یارانہ کچھ زیادہ تھا۔محمد حیات ایک اچھے انسان تھے اور وہ دوستوں کا بہت خیال رکھتے تھے۔
 
وہ بتاتے ہیں کہ محمد حیات کی یہ کوشش ہوتی تھی کہ تمام دوستوں کو خوش رکھے اور میں نے رفاقت کے دوران انھیں کسی کو ناراض کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔
 
Partner Content: BBC Urdu
YOU MAY ALSO LIKE: