آن لائن کاروبار

ہر کاروبار کے اپنے اصول اور ضابطے ہوتے ہیں مگر بنیادی قدریں سب کی ایک جیسی ہوتی ہیں۔ایمانداری، محنت، یکسوئی اور اچھا طرز عمل ہر کاروبار کی بنیادی ضرورتیں اور قدریں ہیں۔ان قدروں کو اپنائے بغیر میں نے آج تک کسی کاروباری کو کامیاب ہوتے نہیں دیکھا۔ مگر راتوں رات امیر ہونے کا شوق انسان کو گمراہ کرنے میں دیر نہیں لگاتا۔پاکستان کی ایکسپورٹ مارکیٹ کبھی بہت اچھی تھی۔ لیکن زیادہ منافع کے چکر میں ہمارے ایکسپورٹرز نے وہ وہ گل کھلائے کہ جو پوری قوم کے لئے باعث شرم تھے۔ہم نے چیز کچھ اور دکھائی اور بھیجتے وقت کوئی دوسری چیزیا ویسی انتہائی ہلکی چیز بھیجی جو اصل سے آدھی قیمت کی بھی نہیں تھی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہمیں ایکسپورٹ میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ہمارا اعتبار کھو گیا۔دنیا میں کوئی بھی ہمارے ایکسپورٹرز کو ایڈوانس دینے کو تیار نہیں تھا۔وہ پہلے ہمارا ما ل وصول کرتے ، اس کی کوالٹی دیکھ کر پیمنٹ کرتے۔ دوسری ساری مراعات بھی بند رہیں۔ ایسے ایکسپورٹرز جو صحیح معنوں میں کام کر رہے تھے، دوسروں کی غلطیوں کے سبب انہیں مشکلات کا سامنا رہا۔ایک ایسا وقت بھی تھا جب منشیات کو ایکسپورٹ کی چیزوں میں چھپا کر ان کے ساتھ بھیجا جاتا رہا۔لیکن وہ ساری کنسائنمنٹ پکڑی جاتی تھیں۔ بھیجنے والے کا مال بھی ضبط ہوتا تھا، سزا اور جرمانہ بھی بھگتنا پڑتا اور اس سے ملک کی بدنامی بھی ہوئی اور یہ قدم ملک کی تمام تجارت کی تباہی کا سبب بھی بنا ۔

کووڈ کی آمد کے بعد احتیاطی تدابیر کے سبب کاروبار کا انداز بالکل ہی بدل گیا۔ لوگ دکانوں میں جانے اور عام میل جول رکھنے سے بچنے کی طرف مائل ہوئے چنانچہ ان حالات نے آن لائن کاروبارنے فروغ پایا۔بیچنے والے لوگ اپنی اشیا کے بارے معلومات میڈیا کے ذریعے عام لوگوں تک پہنچا دیتے۔ پرنٹ میڈیا کا استعمال بھی ہوا مگر سب سے زیادہ رول اس سلسلے میں سوشل میڈیا کا رہا۔ لوگ چیز کے بارے جاننے کے بعد اس کا آرڈر کر دیتے ۔ چیز آسانی سے گھر وصول ہو جاتی۔غیر ممالک میں مقیم ہمارے بہت سے دوستوں نے پاکستان سے کوئی چیز منگوانا ہوتی تو ادائیگی کرکے وہیں منگوا لیتے یا اپنے کسی عزیز کو وصول کروا کر اسے بعد میں کسی کے ہاتھ منگوا لیتے۔ یہ کام اب تک کافی ٹھیک جا رہا ہے اور بہت سے لوگ اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔وہ فرمیں جن کے ہر شہر میں کئی کئی شو روم ہیں ،بھی اس ریس میں پیچھے نہیں رہیں۔ انہوں نے شو روموں کے ساتھ ساتھ آن لائن سیل بھی کی اور کووڈ کے مندے حالات میں اپنے کاروبار کو کسی وقت بھی گرنے نہیں دیا۔ پچھلی حکومت کی مرغی معیشت بھی آن لائن کاروبار سے بہت پھلی پھولی۔ فینسی ، قیمتی اور نایاب مرغیاں اور ان سے متعلقہ چیزیں آن لائن ایک شہر سے دوسرے شہر تک بکتی رہیں اور لوگوں نے من چاہی قیمتیں وصول کیں۔ان مرغیوں کے انڈے اور بچے قیمت کے لحاظ سے بلندیوں پر مقیم رہے۔فینسی اور نایاب مرغیوں کے انڈے تین چار سو سے لے کر پندرہ سو تک بکے جب کہ ایک دن کا چوزہ پانچ سو سے لے کر چار ہزار تک لوگوں نے ہنسی خوشی خریدا۔

مرغی معیشت آج کل ڈوب رہی ہے۔ کچھ اس ملک کے حالات ، مہنگائی اور فیڈ کی قیمتوں نے اس کاروبار کو انتہائی نقصان پہنچایا ہے۔ کچھ فراڈیے بھی اب اس کاروبار میں سرگرم ہیں۔میں ریٹائرمنٹ کے بعد گھر میں پودوں اور مرغیوں ہی سے کھیلتا ہوں۔مجھے کچھ انڈے درکار تھے۔ میں نے سوشل میڈیا پر لکھا۔ اس سے پہلے جب بھی ضرورت ہوئی میرے لکھنے پر کوئی نہ کوئی رابطہ کرتا اور میرا مسئلہ حل ہو جاتا۔اس دفعہ آزاد کشمیر سے ایک صاحب نے رابطہ کیا۔کہنے لگے میرے پاس آپ کی پسند کے انڈے تو نہیں ہیں مگر دنیا کی ایک نایاب کالی بطخ، جس کا نام (Cayuga) انہوں نے بتایا، کے انڈے دستیاب ہیں ۔ صرف ایک ہزار روپے فی انڈا دے دوں گا۔ میں نے ہنس کر کہا کہ بھائی ایک تو میں بطخیں نہیں پالتا۔ دوسرا فینسی بطخ کا انڈا چایس پچاس میں مجھے یہاں مل رہا ہے۔ وہ منتیں کرنے لگا کہ بہت مہنگی بطخیں لی ہیں۔ آپ کچھ انڈے لے لیں آپ کی مہربانی ہو گی۔ اس نے بہت ضد کی تو مجھے محسوس ہوا کہ کوئی بیچارہ ضرورت مند ہے۔ میں نے اسے دو ہزار روپے بھیج دئیے کہ چلو جو بھی بھیج دے کم از کم بطخ کا رنگ توکالا ہو گا جو ہماری روائیتی بطخ کے رنگ سے مختلف ہو گا۔ دو دن بعد اس نے مجھے اطلاع دی کہ وہ میری مہربانی کے جواب میں مجھے بیس انڈے بھیج رہا ہے۔تین چار دن بعد میں نے انڈوں کی ایک پیسٹ وصول کی ۔ اس پیسٹ میں سے بڑی مشکل سے پانچ انڈے صحیح سلامت مجھ تک پہنچے۔ انڈے انکوبیٹر میں رکھ دئیے گئے۔ چار بچے نکلے وہ بھی عام بطخ کے۔ کسی کا رنگ کہیں سے بھی کالا نہیں تھا۔ ایسے لوگ دوسروں کے اعتماد اور کاروبار دونوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔

فیس بک پر ایک بڑا اشتہار تھا کہ الیکڑانک کی بیس اشیا اس قیمت میں دستیاب ہیں۔ اشتہار میں ایک زبردست اور خوبصورت ڈبہ بنا ہوا تھاجس کو کھول کر چیزیں دکھائی گئی تھیں۔ مجھے وہ چیزیں اچھی لگیں۔ میں نے ان کا آرڈر دے دیا کہ چلو ایسی چیزیں کچھ نہ کچھ کام آ جاتی ہیں۔ دو دن بعد کورئیر کمپنی کا فون آیا کہ آپ کاایک پیکٹ آیا ہے کل آپ کو پہنچا دیا جائے گا۔پھر وہ کل آ گئی۔ میں گھر پر تھا۔ پیکٹ وصول کرنے لگا تو وہ پیکٹ کی بجائے ایک لفافہ تھاجس کے اندر کوئی نرم سی چیز تھی۔ میں حیران کہ اس میں الیکٹرانک نما کوئی بھی چیز محسوس نہیں ہو رہی تھی۔ میں نے کھولنا چاہا تو لانے والا لڑکا رونے لگا کہ میرے اتنے پیسے کاٹ لیں گے ۔ اس کے مطلوبہ پیسے اسے دے کر لفافہ کھولا تو لنڈے سے خریدا ایک پرانا کوٹ اس میں موجود تھا۔ یہ کوئی مکمل فراڈیا تھا جوا ٓن لائن کے بزنس کو بدنام کرنے کی ناکام سعی کر رہا تھا۔ میں نے وہ لفافہ واپس کر دیا۔ لیکن ایسی چیزیں لانے والی مخصوص کوریئیر کمپنیوں کے خلاف بھی کاروائی ضروری ہے کہ وہ بھیجنے والوں کا مکمل ریکارڈ بھی اپنے پاس نہیں رکھتیں۔

میری دوستوں سے گزارش ہے کہ آن لائن چیزیں ضرور خریدیں مگر ایک تو بہتر ہے چیک کر لیں کہ بھیجنے والی فرم مستند بھی ہے یا نہیں۔دوسرا کبھی بھی ادائیگی ایڈوانس مت کریں۔ چیز آپ کے پاس پہنچے تو پیکٹ کھول کر پوری طرح چیک کر لیں۔اگر کوئی فرق نظر آئے تو چیز بالکل بھی وصول نہ کریں۔غلط چیز کی اطلاع کورئیر کمپنی کو بھی ضرور دیں اور اس سے تقاضا کریں کہ وہ بھیجنے والے کا نام اور پتہ آپ کو مہیا کرے۔

تاکہ اس قسم کا فراڈ کرنے والے کے خلاف آپ قانونی کاروائی کر سکیں۔اگر کورئیرکمپنی آپ کو نام اور پتہ دینے سے انکار کرے تو کمپنی کے خلاف بھی کاروائی کی جا سکتی ہے۔

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 582 Articles with 500510 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More