فجر کی نماز اور ہم

پس جس کی عقل اُسے نماز فجر کے ضائع ہونے سے نہیں روکتی، اللہ رب العزت کے فرمان کی رو سے وہ عقل والوں میں شمار نہیں ہو گا۔
بہت تعجب خیز اور ملال انگیز صورت حال ہے کہ مساجد میں فجر کے وقت بہت کم لوگ آتے ہیں۔ ان میں بھی زیادہ تر جھکی ہوئی کمر والے، بوڑھے لوگ ہوتے ہیں، نوجوان خال خال ہی دکھائی دیتے ہیں۔
اکثر لوگ رات بھر فضول باتیں کرتے ہیں‘ لچر فلمیں اور ڈرامے دیکھتے ہیں‘ طرح طرح کے گناہ کرتے ہیں۔ اور اللہ رب العزت کی نافرمانی میں مشغول رہتے ہیں۔ان وجوہ سے وہ فجر کے وقت بڑی غفلت اور غلبے کی نیند سوتے ہیں‘ یوں وہ نماز فجر جیسی عظیم الشان دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔

مساجد نمازیوں کی قلت کی وجہ سے نوحہ خواں ہیں۔ اگر مساجد بول سکتیں تو لوگ ان کی اپنے رب کے حضور شکایت اور آہ و زاری ضرور سنتے۔
حضرت سلمان فارسی رَضِیَ اللہ عنہ سے روایت ہے،اللہ پاک کے آخری نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عبرت نشان ہے:جو صبح کی نماز کو گیا،ایمان کے جھنڈے کے ساتھ گیا اور جو صبح بازار کو گیا،ابلیس(یعنی شیطان)کے جھنڈے کے ساتھ گیا۔
پانچ نمازوں میں سے سب سے اہم نماز فجر کی ہے، اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ اللہ تعالی فجر کی وقت کی قسم اٹھاتے ہیں ۔ اور فرماتے ہیں:
’’قسم ہے فجر کی، اور دس راتوں کی، اور جفت اور طاق کی، اور رات کی جب وہ چلنے لگے، یقیناً ان میں عقلمند کے لیے بڑی قسم ہے۔‘‘ (الفجر)
نمازِ فجر یا نمازِ صبح اسلام کے رکن نماز کے مطابق یومیہ نماز ہے جو روزانہ صبح طلوع آفتاب سے قبل اداء کی جاتی ہے۔ فجر اسلام کی پانچ فرض نمازوں میں سے پہلی نماز ہے۔ بالاختلاف اِس کے اوقات میں فقہاء کے نزدیک اختلاف پایا جاتا ہے مگر طلوع فجر اور طلوع آفتاب کے درمیانی وقت میں اداء کرنا لازم ہے۔
نماز فجر طلوع فجر سے طلوع آفتاب کے درمیانی وقت میں اداء کرنا لازم ہے۔طلوعِ فجر کو ہی صبح صادق کہا جاتا ہے جس سے مراد وہ وقت ہوتا ہے جب سفید رنگ کی روشنی آسمان پر نظر آنے لگتی ہے، جو صبح کاذب کے بعد آسمان دنیاء پر پھیلتی چلی جاتی ہے۔ یہ وقت رات ختم ہونے کی نشانی ہوتا ہے۔ طلوعِ فجر کا وقت ہی نمازِ فجر کے اداء کرنے کا ابتدائی اور وقتِ فضیلت ہے۔ بعض شرعی احکام کے موضوع جیسے کہ ماہِ رمضان کے روزے بھی طلوع فجر سے ہی متعلقہ ہے۔ نماز فجر کی فضیلت کا وقت صبح صادق کے شروع (یعنی نماز فجر کی اذان) سے لے کر مشرق کی جانب طلوع سے قبل شفق (یعنی سرخی) ظاہر ہونے تک ہے۔
نمازِ فجر کے وقت کے متعلق قرآن کریم کی موجود ہے:
أَقِمِ الصَّلاَةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ إِلَى غَسَقِ اللَّيْلِ وَقُرْآنَ الْفَجْرِ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا ۔
فجر کی نماز میں چار رکعات پڑھی جاتی ہیں۔

سنت مؤکدہ - 2
فرض - 2
مرد حضرات پر واجب ہے کہ وہ باجماعت نماز میں سورہ فاتحہ کے بعد کسی دوسری سورت کی قرأت باآوازِ بلند کریں۔
خواتین باآوازِ بلند قرأت نہیں کرسکتیں بلکہ دھیمی آواز میں قرأت کریں۔
کسی بھی طرح جائز نہیں ہے۔ (صحیح مسلم)
عَنْ عَائِشَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ : " رَكْعَتَا الْفَجْرِ خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا "(کتَابٌ : الْمَسَاجِدُ وَمَوَاضِعُ الصَّلَاةِ،بَابٌ : اسْتِحْبَابُ رَكْعَتَيْ سُنَّةِ الْفَجْرِ:حدیث نمبر:725)

حضرت انس رَضِیَ اللہ عنہ سے روایت ہے،سرکارِ مدینہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جس نے 40 دن فجر و عشا باجماعت پڑھی،اُس کو اللہ پاک 2 آزادیاں عطا فرمائے گا،ایک نار(یعنی آگ)سے،دوسری نفاق(یعنی منافقت سے)۔
عن جندب بن سفيان البجلي رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: «مَنْ صلَّى الصبحَ فهو في ذِمَّةِ اللهِ، فانظُرْ يا ابنَ آدمَ، لا يَطْلُبَنَّكَ اللهُ مِنْ ذِمَّتِهِ بِشَيء».[صحيح]
جندب بن سفیان البجلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”جس نے فجر پڑھ لی وہ اللہ کی پناہ میں ہوتا ہے۔ اس لیے اے آدم کے بیٹے! اس بات کو دھیان میں رکھ کہ کہیں اللہ تعالیٰ تجھ سے اپنی امان کی بابت کسی قسم کی باز پرس نہ کرے“
پس ان کی باتوں پر صبر کریں اور اپنے پروردگار کی تسبیح اور تعریف بیان کرتے رہیں سورج کے نکلنے سے پہلے اور اس کے ڈوبنے سے پہلے۔‘‘
زندگی کی راہ کٹھن ہو، خطرات اور آزمائشیں منڈ لا رہی ہوں تو اللہ رب العزت بندۂ مومن کے لیے فجر کی نماز میں سکون و اطمینان کا سامان عطا فرماتا ہے۔
صبح کی فضا میں دل پر سکون ہوتا ہے اور زندگی کی راہیں آسان اور کشادہ ہوتی ہیں‘ یہی حالت عصر کے وقت بھی طاری ہوتی ہے۔
نماز فجر کی اس لحاظ سے بڑی اہمیت ہے کہ نبی کریمؐ نے اللہ رب العزت سے اپنی امت کے لیے صبح کے وقت میں برکت عطا کرنے کی دعا فرمائی ہے: ’اللھم بارک لامتی فی بکورھا‘ ’’اے اللہ! میری امت کے صبح کے وقت میں برکت ڈال دے۔‘‘ (صحیح الترغیب: 307/2)
صحیح مسلم میں رسول اللہؐ کا فرمان ہے: ’’جس نے صبح کی نماز (با جماعت) ادا کی، وہ شخص اللہ کے ذمہ (حفاظت) میں آ گیا پس تم میں سے کسی سے اللہ تعالیٰ اپنے ذمے کے بارے میں کسی چیز کا مطالبہ نہ کرے، پس جس شخص سے اس نے اپنے ذمے کے بارے میں کوئی مطالبہ کر دیا تو وہ اس کو پکڑلے گا اور اوندھے منہ جہنم میں پھینک دے گا۔ ‘‘
ایک عربی شاعر نے اس سلسلے میں چند بہترین اشعار کہے ہیں جن کا ترجمہ درج ذیل ہے:
....
پس اے نوجوان! اگر تجھ کو عورتوں کے فتنے میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہے تو تو اپنے دن کا آغاز فجر کی نماز سے کر۔ اللہ تیرا نگہبان و محافظ بن جائے گا۔
....
گھر سے نکلتے ہوئے، اگر تیرا دل ظالم کی ملاقات سے لرزاں ہے تو اپنے دن کا آغاز فجر کی با جماعت نماز کی ادائیگی سے کر۔ اللہ تعالیٰ تیرا محافظ اور ساتھی بن جائے گا۔
....
اگر تیرا دل سفر کے خطرات اور اس کی وحشتوں سے گھبراتا اور لرزتا ہے تو تجھ کو چاہیے کہ اپنے دن کا آغاز فجر کی نماز سے کر تو اللہ کی حفاظت اور اس کی پناہ میں آ جائے گا۔
....
تو اپنی اولاد کے آگ (جہنم) میں جھونکے جانے کے خوف میں مبتلا ہے تو تجھے چاہیے کہ فجر کی نماز وقت پر ادا کر اور اپنے اہل خانہ کو بھی اس کا حکم دے اور اس بات پر استقامت اختیار کر۔ تو اور تیرے اہل خانہ اللہ تعالیٰ کی حفاظت و نگہبانی میں آ جائیں گے۔
....
صادق و مصدوقؐ نے فرمایا: ’’جو عشاء میں حاضر ہوا گویا اس نے نصف رات قیام کیا اور جو صبح کی نماز میں حاضر ہوا گویا اس نے تمام رات قیام کیا۔‘‘ (مسلم: 1491)
سیدنا عمر فاروقؓ فرمایا کرتے تھے: ’’صبح کی باجماعت نماز ادا کرنا میرے نزدیک تمام رات قیام کرنے سے زیادہ محبوب ہے۔‘‘ (مؤطا امام مالک: 126/1
ہمارے اسلاف عشاء اور فجر کی نمازیں باجماعت پڑھتے تھے، حالانکہ رات کا قیام بھی ان کا معمول تھا، لیکن یہ قیام لیل ان کی ہمتوں کو کبھی پست نہیں کرتا تھا۔
صحیح مسلم اور مسند أحمد میں روایت ہے کہ رسولِ کریمؐ نے فرمایا: ’’طلوع شمس سے پہلے اور غروب شمس سے پہلے نماز ادا کرنے والا جہنم میں ہرگز داخل نہیں ہو گا۔‘‘ (مسلم بشرح النووي، کتاب المساجد، مسند أحمد: 136/4)
گویا فجر اور عصر کی با جماعت نماز کی ادائیگی جہنم کی آگ سے بچاتی ہے۔ یہ ہمارے نبیؐ کا فرمان ہے۔ اُن کے فرمان سے بڑھ کر سچا اور راحت بخش فرمان اور کس شخص کا ہو سکتا ہے۔۔۔ ؟
صحیح بخاری میں روایت ہے کہ نبی کریمؐ نے فرمایا: ’من صلی البردین دخل الجنۃ‘ ’’جس نے بردین (دو ٹھنڈک والی) نمازیں ادا کیں وہ جنت میں جائے گا۔‘‘ (صحیح البخاری: 574)
بردین سے مراد فجر اور عصر کی نماز ہے۔ برد سے مراد ٹھنڈک ہے۔ ان دو نمازوں کو بردین اس وجہ سے کہا گیا ہے کہ جس وقت ان کی ادائیگی ہوتی ہے اس وقت دن ٹھنڈا ہو جاتا ہے اور سورج کی حرارت کم ہو جاتی ہے.
رسول کریمؐ نے فرمایا: ’’فجر کی دو رکعتیں تمام دنیا سے زیادہ بہتر ہیں۔‘‘
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ نبی کریمؐ نے فجر کی نماز سے پہلے کی دو رکعتوں کے بارے میں فرمایا: ’’یعنی یہ رکعتیں مجھے دنیا کی ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں۔‘‘
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 875 Articles with 457824 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More