میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں کو میرا آداب
میرے یاروں میں نے اپنی گزشتہ ایک تحریر میں یہ بات کہی تھی کہ اللہ رب
العزت کو اپنے بندے کی سب سے زیادہ جو بات پسند ہے جس عمل پر وہ باری تعالی
خوش ہوتا ہے اور نہ صرف خوش ہوتا ہے بلکہ اپنا کرم خاص بھی عنایت فرماتا ہے
تو وہ ہے بندے کا اپنے گناہوں پر نادم ہوکر اس کی بارگاہ میں صدق دل سے
توبہ کرنا توبہ کرنے کا عمل ہمارے رب الکائنات کے نزدیک اپنے بندے کا بہت
بڑا عمل ہے آج ہم ایسے ہی کچھ واقعات پڑھیں گے جن کا تعلق ہمارے تائبین سے
ہے کہ جب انہوں نے اپنے گناہوں کے سبب شرمندہ ہوکر اللہ رب العزت کی بارگاہ
میں حاضر ہوکر توبہ کا دروازہ کھٹکھٹایا تو وہ رب الکائنات کتنا مہربان ہوا
اور ان پر کرم فرماتے ہوئے انہیں کیا مقام عطا فرمایا۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمتہ
اللہ علیہ نے " فوائد السالکین " میں اور حضرت فرید الدین مسعود شکر گنج
رحمتہ اللہ علیہ نے " اسرار الاولیاء " میں یہ نقل کیا ہے کہ ایک عبادت
گزار نوجوان جس کے اللہ تبارک وتعالی کے حضور عجزی کا یہ عالم تھا کہ کام
کاج کرتے کرتے یا گلیوں میں گھومتے پھرتے بس روتا رہتا تھا دن کا وقت ہوتا
تو روزہ رکھتا اور عبادت کرتا اور رات ہوجاتی تو اپنے کمرے کی چھت کے لٹکے
ہوئے رسے کو اپنے گلے میں ڈال لیتا اور اپنے رب کے حضور عرض کرتا کہ " مولی
اب تیرا مجرم تیری بارگاہ میں حاضر ہے جو سلوک کرنا ہے یہیں کرلے آخرت میں
مجھ سے جواب طلبی نہ کرنا "
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں اس طرح وہ جوان ساری رات اللہ تبارک
وتعالی کے حضور سجدہ ریز رہتا اور روتا رہتا حضرت قطب الدین بختیار کاکی
فرماتے ہیں یہ جوان اپنی پوری زندگی اس معمول پر کاربند رہا ہجروفراق نے
اسے کمزور کردیا تھا جوانی میں ہی اس کا بڑھاپا نمودار ہوگیا تھا جب موت کا
وقت قریب آگیا تو اس نے اپنی ماں کو بلایا اور کہنے لگا میرے موت کا وقت
قریب آگیا ہے امی جان میں بڑا گناہ گار ہوں اور اللہ تبارک وتعالی کا مجرم
ہوں میں زندگی کو احکامات الہی کے مطابق بسر نہیں کرسکا اور اس کی بندگی کا
حق ادا نہیں کرسکا اس لئے میں آپ سے تین درخواستیں کرتا ہوں آپ وعدہ کیجیئے
کہ آپ پورا کریں گی اس کی امی جان نے حامی بھر لی ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں اس نے کہا
1 ۔ جب میری روح پرواز کرجائے تو میرے گلے میں رسی ڈال کر گھر کے چاروں طرف
میری لاش کو گھسیٹنا اور کہتی جانا کہ اللہ کے نافرمانوں کا یہی حال ہوتا
ہے ۔
2 ۔ میرا جنازا رات کے اندھیرے میں اٹھانا تاکہ میری میت کو دیکھکر کوئی
تمہیں یہ نہ کہے کہ دیکھو خدا کا نافرمان جارہا ہے ۔
3 ۔ جب لوگ مجھے دفن کرکے چلے جائیں تو آپ رک جانا ہوسکتا ہے جب فرشتے سوال
و جواب کے لئے آئیں تو ماں کے قدموں کی برکت سے وہ عذاب نہ دیں۔
اس کے بعد اس کی روح پرواز کرگئی ماں نے بیٹے سے کئے ہوئے وعدے کے مطابق بہ
امر مجبوری میں اس کے گلے میں رسی ڈال کر ابھی گھسیٹنے ہی والی تھی کہ ہاتف
غیبی سے آواز آئی کہ اے خاتون اس جوان کو چھوڑ دے ، تمہیں کیا معلوم کہ یہ
تو اللہ تبارک وتعالی کا محبوب بندہ ہے اب ایک دوست اپنے ایک دوست کے پاس
پہنچ چکا ہے کیا کوئی اپنے کسی دوست کے ساتھ ایسا کرتا ہے ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں اپنے گناہوں سے سچی توبہ کرنے کا جو انعام
رب الکائنات نے عطا کیا وہ آپ نے پڑھ لیا ایک عام اور گناہ گار انسان کو
توبہ کرنے کے عوض اپنا محبوب یعنی خاص بندہ بنا لے تو پھر اور کیا چاہیئے
وہ دنیا اور آخرت دونوں میں کامیاب ہوگیا اس لئے کہا گیا کہ جب تک سانس ہے
اللہ تبارک وتعالی کے حضور اپنے گناہوں سے سچی توبہ کرلیں اور ائندہ گناہ
نہ کرنے کا ارادہ کرلیں ۔
میرے یاروں حضرت ابو حفض حداد علیہ رحمہ اپنے وقت کے بہت کامل اور عظیم
المرتبت بزرگ گزرے ہیں عہد شباب میں آپ کو ایک خوبصورت کنیز سے عشق ہوگیا
لیکن وہ کسی طور شادی کے لئے رضامند نہیں ہورہی تھی بعض تذکرہ نگاروں نے اس
کنیز کو ایک یہودی دوشیزہ لکھا ہے اس مقصد کے حصول کے لئے آپ علیہ رحمہ ایک
میشاپور کے مشہور جادوگر سے ملے اور اس سے اپنا مقصد بیان کیا جادوگر ایک
کافر شخص تھا اس نے کہا کہ چالیس دن کا چلہ کرنا پڑے گا ان چالیس دنوں میں
ساری عبادات تو چھوڑنی ہی ہوگی بلکہ کوئی ایک بھی نیک کام سرزرد نہ ہونے
پائے پھر کوئی بھی میرے جادو کو پورے ہوتے نہیں روک سکتا آپ علیہ رحمہ نے
چالیس روز کا چلہ پورا کرلیا مگر مراد بر نہ آئی ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں آپ علیہ رحمہ دوبارہ جادوگر کے پاس پہنچ
گئے جادوگر حیران ہوگیا کہ اس کا جادو تو کبھی ناکام نہیں ہوا اس نے کہا تم
غور کرو کہیں تم سے کوئی نیکی کا کام تو سرزرد نہیں ہوا یا کوئی عبادت کرلی
ہو بہت سوچ بچار کے بعد انہوں نے فرمایا کہ ہاں ایک کام ہوا ہے شاید تم اسے
نیکی شمار کرسکو تو جادوگر نے پوچھا کون سا کام ؟ تو آپ علیہ رحمہ نے
فرمایا کہ ایک دفعہ راستے میں پڑا ایک پتھر میں نے اس نیت سے اٹھا کر دور
کردیا کہ اس سے ٹھوکر نہ کھائے یہ سن کر جادوگر نہ کہا کہ کتنے افسوس کی
بات ہے آپ علیہ رحمہ اپنے ایسے خدا کی عبادت سے گریزاں ہیں اور اس کی
مخالفت میں دلیر ہیں جس نے باوجود تمہارے برائی میں ملوث ہونے کے ایک
معمولی نیکی کو بھی رائیگاں نہیں جانے دیا اور اسے قبولیت کا درجہ عطا کرتے
ہوئے تجھے غلط کام سے روکنے کی غرض سے میرا سارا جادو ناکام کردیا بس یہ
سننا تھا کہ آپ علیہ رحمہ پر ایک کیفیت برپا ہوگئی اس کے بعد آپ علیہ رحمہ
نے اپنے رب العزت کے حضور سچی توبہ کی اور پھر بعد میں تقوی میں وہ مقام
حاصل کیا کہ راہ طریقت میں آپ کا شمار ان ممتاز مشائخ میں سے ہوا جو اہل
کشف و کرامت ہوئے۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں حضرت حبیب عجمی رحمتہ اللہ علیہ اپنے
ابتدائی دور میں لوگوں کو سود پر رقم دیا کرتے تھے اور جب قرض خواہ کسی
مجبوری کی وجہ سے قرض وقت پر ادا نہ کرسکے تو خود اس کے گھر پہنچ جاتے بلکہ
زیادہ دن گزرجانے کی وجہ سے سود کے ساتھ جرمانہ بھی وصول کرتے اور سود پر
جو رقم ملتی تو اس سے گھر کا گزارا کرتے تھے ایک دفعہ ایک مقروض کے گھر سے
بھیڑ کا سر بطور سود گھر لے آئے اور بیوی کو پکانے کا کہا جب سالن تیار
ہوگیا اور کھانے کے لئے نکالنا چاہا تو کیا دیکھا کہ وہ سارا خون کی شکل
اختیار کرچکا تھا ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں بیوی نے جب یہ منظر دیکھا تو غصے میں خوف
خدا یاد کراتے ہوئے کہنے لگی دیکھو یہ تمہاری سود کی رقم اور تمہاری کنجوسی
کا نتیجہ یہ نظارا دیکھکر آپ علیہ رحمہ حیرت میں رہ گئے اور عبرت بھی ہوئی
اور وعدہ کیا کہ آئندہ ایسے کاموں سے تائب ہوتا ہوں گویا آپ علیہ رحمہ حضرت
خواجہ حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ کے دست اقدس پر تائب ہونے کے لئے روانہ
ہوگئے راستے میں کھیل میں مصروف بچوں نے دیکھا تو کہنے لگے ہٹ جائو حبیب
سود خور آرہا ہے کہیں اس کے قدموں کی خاک ہم پر نہ پڑ جائے اور ہم اس جیسے
بدبخت نہ بن جائیں ۔
میرے مژترم اور معزز پڑھنے والوں آپ علیہ رحمہ خواجہ حسن بصری علیہ رحمہ کی
خدمت میں حاضر ہوئے اور ان کی نگاہ فیض سے بہت کچھ حاصل کرکے اللہ تبارک
وتعالی کے حضور سچے دل سے توبہ کی اور پھر جب واپس ہوئے تو آپ علیہ رحمہ کا
یہ عالم تھا کہ راستے میں کھیلتے ہوئے بچوں نے کہا کہ ہٹ جائو حبیب تائب
ہوکر ارہے ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارے قدموں کی خاک ان پر پڑ جائے اور
اللہ تبارک وتعالی کے یہاں ہمارا نام گناہ گاروں کی لسٹ میں شامل ہوجائیں
پھر آپ علیہ رحمہ نے اعلان کیا کہ جو شخص ان کا مقروض ہے وہ سود کی رقم
واپس لے جائے یوں اپنی ساری دولت راہ خدا میں لٹادی زیادہ تر وقت آپ علیہ
رحمہ حضرت خواجہ حسن بصری علیہ رحمہ کے پاس گزارتے اور مشغول عبادت رہتے
چونکہ قران مجید کی تلاوت آپ علیہ رحمہ صحیح تلفظ کے ساتھ ادا نہیں کرسکتے
تھے اس لئے آپ علیہ رحمہ کو عجمی کا خطاب دیا گیا ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں سود پر گزارا کرنے والے ایسے شخص توکل کے
اس عالم مقام پر تھے کہ بیوی بچوں کے اصرار پر محنت مزدوری کے لئے گھر سے
باہر نکل گئے سارا دن عبادت میں گزارنے کے بعد شام کو جب گھر پہنچے تو بیوی
نے مزدوری کے بارے میں پوچھا تو فرمایا کہ میں جس مالک کے پاس نوکری کرتا
ہوں وہ بڑا کرم والا ہے اس کی کرم نوازی سے مجھے شرمندگی ہوئی کہ میں اس سے
مزدوری مانگوں وہ بہت جلد ہماری ضروریات پوری کرے گا اس بات کو یوں ہی دس
دن گزر گئے ایک دن شام کو جب گھر کی طرف ارہے تھے تو پریشانی میں یہ خیال
آیا کہ بھوک سے پریشان گھر والوں کو آج کیا جواب دوں گا ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں جب آپ علیہ رحمہ گھر پہنچے تو اہل خانہ کو
بڑا خوش و خرم دیکھا اندر سے کی بہت لذیذ خوشبو آرہی تھی بیوی نے کہا کہ تم
سہی کہتے تھے تمہارا مالک تو واقعی بڑا کرم والا ہے اس نے ایک بوری آٹا
،ایک ذبح شدہ بکری ، گھی ،شہد اور تین سو درہم بھجوائے ہیں اور ساتھ میں یہ
پیغام بھی بھجوایا ہے کہ حبیب سے کہنا کہ ہم اس کی مزدوری سے خوش ہیں اگر
وہ اپنے کام میں اور محنت کر ے گا تو ہم مزدوری بھی بڑھ کر دیں گے۔اللہ رب
العزت کی اس عنایت کے سبب اپ علیہ رحمہ پر ایک عجیب گریہ و بقا کی کیفیت
طاری ہوگئی اور اپنے رب کی عبادت میں بہت اعلی مقام تک جاپہنچے
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں ایک مرتبہ نماز مغرب کا وقت تھا حضرت
خواجہ حسن بصری علیہ رحمہ آپ کے یہاں تشریف لائے تو دیکھا کہ آپ علیہ رحمہ
نماز کی نیت باندھ کر کھڑے ہوچکے تھے حضرت خواجہ حسن بصری علیہ رحمہ نے
دیکھا کہ آپ علیہ رحمہ سورہ الفاتحہ کی تلاوت صحیح نہیں کررہے تو آپ علیہ
رحمہ نے ان کی اقتداء میں نماز پڑھنے کی بجائے اپنی نماز علیحدہ ادا کی اور
پھر واپس آگئے اسی رات حضرت خواجہ حسن بصری علیہ رحمہ کو خواب میں اللہ
تبارک و تعالی کا دیدار نصیب ہوا (جیسا ان کے شان کے لائق تھا ) آپ علیہ
رحمہ نے عرض کیا کہ اے اللہ میں کس طرح تیری رضا حاصل کروں تو فرمایا کہ
میری رضا تو تمہارے بہت قریب تھی اگر تم حبیب عجمی کی اقتدا میں نماز ادا
کرلیتے تو میری رضا مل جاتی اور وہ تمہاری ساری نمازوں سے بہتر تھا تو نے
حبیب کی عبادت کے ظاہر کو دیکھا لیکن اس کی نیت پر غور نہیں کیا جو اس کی
روح میں کارفرما تھی بلاشبہ عمل کا دارومدار نیت پر ہے۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں کہاں وقت کے مشہور حبیب سود خور اور کہاں
حضرت حبیب عجمی رحمتہ اللہ علیہ اخلاص کی ایک توبہ نے آپ علیہ رحمہ کی کایا
ہی پلٹ دی جب بھی آپ علیہ رحمہ کے سامنے قران مجید کی تلاوت ہوتی تو آپ
زارو قطار روتے اور بے قرار ہوکر آہ و فغاں کرنے لگتے اور عرض کرتے کہ
کیاہوا اگر حبیب کی زبان عجمی ہے لیکن قلب تو عربی ہے آپ علیہ رحمہ کا شمار
صدق و صفا پر عمل پیرا ہونے والے صاحب یقین اور گوشہ نشیں بزرگوں میں ہوتا
ہے (یہ تحریر منحاج بکس میں موجود تائبین کے واقعات اور موضوع توبہ و
استغفار سے لی گئی ہے)
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں ان واقعات سے ہمیں کیا سبق ملتا ہے کہ
انسان کتنا ہی بڑا گناہ گار ہو خطاکار ہو سیاح کار ہو لیکن جب صدق دل سے
توبہ کرتا ہے تو اللہ رب العزت اس کے توبہ کے عمل کو پسند کرتے ہوئے اسے
بےشمار نعمتوں سے نوازتا ہے اور اسے اپنے خاص اور محبوب بندوں میں شامل
کرلیتا ہے آج ہم نے چند ایسے واقعات کا مطالعہ کیا ہے جس سے ہمیں بہت کچھ
سیکھنے کو ملا اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیں ایسے واقعات پڑھکر اس پر
عمل کرنے اور دوسروں کو بھی اس کی تلقین کرنے کی توفیق عطا کرے ۔آمین آمین
بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم
|