نمازِ عصر

رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ار شاد فرمایا:وہ شخض دوزخ میں نہیں جائے گا جو سورج نکلنے سے پہلے( یعنی فجر)اور سورج ڈوبنے سے پہلے (یعنی عصر) نماز پڑھے گا۔(نسائی ، 1،حدیث: 474)
عصر اسلام کی پانچ فرض نمازوں میں سے تیسری نماز ہے جو سہ پہر کے وقت ادا کی جاتی ہے۔
نماز عصر کا وقت ظہر کا وقت ختم ہونے سے لے کر آفتاب کے ڈوبنے تک ہے بہتر یہ ہے کہ دھوپ کا رنگ زرد ہونے سے پہلے نماز ادا کرلی جائے کیونکہ دھوپ کے زرد ہونے پر وقت مکروہ ہو جاتا ہے اگرچہ نماز ہو جائے گی۔ اس لیے بلا کسی شرعی وجہ کے اتنی تاخیر کر کے مکروہ وقت میں نماز پڑھنا حرام ہے۔
عصر کی نماز میں آٹھ رکعات پڑھی جاتی ہیں۔

سنت غیر مؤکدہ - 4
فرض - 4
نمازِ ظہر کے اختتام اور نمازِ عصر کے آغاز کے اوقات کی تعیین میں فقہاء کا اختلاف ہے۔ ابن رُشد فرماتے ہیں:
امام مالک، امام شافعی، اور امام داؤد زہری علیہم الرحمہ کا قول ہے کہ ہر شے کا سایہ اصلی جب اس کے مثل کے برابر ہو جائے تو نماز ظہر کا وقت ختم اور عصر کا شروع ہو جاتا ہے، صاحبین امام ابویوسف اور امام محمد کا بھی یہی مسلک ہے۔ جبکہ امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ علیہ کے مطابق ہر چیز کا سایہ اس کے دومثل ہونے سے عصر کا وقت شروع ہوتا ہے۔
پاکستان میں فقہ حنفی کے پیروکار کثرت میں ہیں، اس لیے وہ فقہ حنفی کے مطابق نماز ادا کرتے ہیں۔ جب کہ عمان میں فقہ شافعی کے ماننے والے ہیں۔ فقہ حنفی کے مطابق نماز ظہر کا وقت زوال آفتاب سے لے کر ہر چیز کا سایہ دو گنا ہونے تک رہتا ہے، اسی لیے نماز ظہر کا وقت زیادہ ہوتا ہے۔ جب کہ فقہ شافعی کے مطابق نماز ظہر کا وقت زوال آفتاب سے لے کر ہر چیز کا سایہ ایک گنا ہونے تک رہتا ہے۔ دونوں صورتیں جائز ہیں۔
قرآن کریم میں یومیہ نمازوں کے ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے، اور نماز عصر بھی انہی نمازوں میں سے ایک ہے۔
حافِظُوا عَلَى الصَّلَواتِ وَ الصَّلاةِ الْوُسْطى‏ وَ قُومُوا لِلَّهِ قانِتينَ۔
نماز مسافر: جو شرعاً مسافر ہے، وہ نماز عصر کو قصر بجا لائے گا.
اگر کوئی نماز ظہر سے پہلے، نماز عصر پڑھنے لگے اور نماز کے درمیان میں، متوجہ ہو جائے، تو ضروری ہے کہ نیت کو نماز ظہر میں تبدیل کر دے.
اگر کوئی بھول کر نماز ظہر اور عصر کو دوسرے کے مخصوص وقت میں پڑھ لے، تو اس کی نماز صحیح ہے.
مردوں اور عورتوں پر واجب ہے کہ نماز عصر میں سورہ حمد اور دوسری سورہ کو آہستہ آواز میں پڑھیں۔
رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نےارشاد فرمایا :تم میں سے کسی کے اہل اور مال میں کمی کردی جائے تو یہ اس کے لیے بہتر ہے کہ اس کی نمازِ عصر فوت ہوجائے۔(مجمع الزوائد ، 2/ 50، حدیث: 145)فرمانِ مصطفٰے صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم :جب مردہ قبر میں داخل ہوتا ہے تو اسے سورج ڈوبتا ہوا معلوم ہوتا ہے، وہ آنکھیں ملتا ہوا اٹھ بیٹھتا اور کہتا ہے:دعونی اصلی ذرا ٹھہرو! مجھے نماز تو پڑھنے دو۔(ابن ماجہ، حدیث:4272:ج 06، ص 503)حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ اس حدیثِ پاک کے اس حصے ”دعوی اصلی(یعنی ذرا ٹھہرو مجھے نماز تو پڑھنے دو)“ کے بارے میں فرماتے ہیں: یعنی اے فرشتو ! سوالات بعد میں کرنا، عصر کا وقت جارہا ہے مجھے نمازِ عصر پڑھ لینے دو۔یہ وہ کہے گا جو دنیا میں نمازِ عصر کا پابند تھا، اللہ پاک نصیب کرے۔مزید فرماتے ہیں:ممکن ہے کہ اس پر سوا ل و جواب ہی نہ ہوں اور ہوں تو نہایت آسان ، کیونکہ اس کی یہ گفتگو تمام سوالوں کا جواب ہوچکی۔(بہار شریعت ج 1:ص 110)
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضور نبیِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں:رات اور دن کے ملائکہ نمازِ فجر و عصر میں جمع ہوتے ہیں، جب وہ جاتے ہیں تو اللہ پاک ان سے فرماتا ہے:کہاں سے آئے؟حالانکہ وہ جانتا ہے،عرض کرتے ہیں:تیرے بندوں کے پاس سے،جب ہم ان کے پاس گئے تو وہ نماز پڑھ رہے تھے اور انہیں نماز پڑھتا چھوڑ کر تیرے پاس حاضر ہوئے۔(مسندامام احمد ، مسند ابی ہر یرہ،حدیث: 7394:ج3: ص 68۔ بہار شریعت ، 3/442)
حضرت فضالہ لیثی رَضِیَ اللہُ عنہ سے روایت ہے،رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے مجھے جو باتیں سکھائیں ان میں یہ بات بھی تھی کہ پانچوں نمازوں پر محافظت کرو۔میں نے کہا: یہ ایسے اوقات ہیں جن میں مجھے بہت کام ہوتے ہیں لہٰذا آپ مجھے ایسا جامع کام کرنے کا حکم دیجیے کہ جب میں اس کو کروں تو وہ مجھے کافی ہوجائے۔آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:عصرین پر محافظت کرو۔ عصرین کا لفظ ہماری زبان میں مروج نہ تھا اس لیے میں نے پوچھا:عصرین کیا ہے؟ آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: دو نماز ایک سورج نکلنے سے پہلے اور ایک سورج ڈوبنے سے پہلے (یعنی فجر اور عصر۔)
جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:

إنَّكم ستُعرَضونَ على ربِّكم فترَونَه كما ترونَ هذا القمرَ لا تُضامونَ في رؤيتِه ، فإن استطعتُم أن لا تُغلَبوا على صلاةٍ قبلَ طُلوعِ الشَّمسِ وصلاةٍ قبل غروبِها فافعَلوا . ثمَّ قرأ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ الْغُرُوبِ(صحيح الترمذي:2551)

ترجمہ:
تم لوگ اپنے رب کے سامنے پیش کئے جاؤ گے اور اسے اسی طرح دیکھو گے جیسے اس چاند کو دیکھ رہے ہو، اسے دیکھنے میں کوئی مزاحمت نہیں ہوگی۔ پس اگر تم ایسا کر سکتے ہو کہ سورج طلوع ہونے سے پہلے والی نماز (فجر) اور سورج غروب ہونے سے پہلے والی نماز (عصر) سے تمہیں کوئی چیز روک نہ سکے تو ایسا ضرور کرو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی ۔ترجمہ: پس اپنے مالک کی حمد و تسبیح کر سورج طلوع ہونے اور غروب ہونے سے پہلے۔
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 461944 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More