نمازِ اشراق

نصف النہار کی تعیین کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے یہ دیکھ لیا جائے کہ صبح صادق کتنے بجے ہوتی ہے اور سورج کتنے بجے غروب ہوتا ہے، اس کے درمیان کے گھنٹوں کا حساب کرکے ان کا آدھا لے لیا جائے۔
نمازِ اشراق کا وقت طلوعِ آفتاب سے 20 منٹ بعد شروع ہوتا ہے۔ اسے نمازِ فجر اور صبح کے وظائف پڑھ کر اٹھنے سے پہلے اسی مقام پر ادا کرنا چاہیے۔ نماز اشراقِ کی رکعات کم از کم دو (2) اور زیادہ سے زیادہ چھ (6) ہیں۔
حدیث مبارکہ میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص صبح کی نماز باجماعت پڑھ کر طلوع آفتاب تک بیٹھا اللہ کا ذکر کرتا رہا پھر دو رکعت نماز (اشراق) ادا کی اس کے لئے کامل (و مقبول) حج و عمرہ کا ثواب ہے حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لفظ تامۃ ’’کامل‘‘ تین مرتبہ فرمایا۔
میں تم وقت نکالو، میں دن کے آخری لمحے میں تمہاری حاجت روائی کر کے ذہنی اطمینان دونگا"
"تحفۃ الأحوذی" (2/478)
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن کے مطابق
اشراق کی نماز طلوع آفتاب کے کم از کم دس منٹ بعد ، کم سے کم دو رکعت ہیں، جیسے عام نماز ادا کی جاتی ہے، اشراق کی نماز کا بھی وہی طریقہ ہے، دل میں نفل نماز کی نیت ہو، اشراق کا لفظ کہنا ضروری نہیں ہے، اگر اشراق کے وقت کے نفل کی نیت کی تو بھی درست ہے۔

اگر سورج طلوع ہونے کے پندرہ منٹ بعد پڑھی جائے تو زیادہ بہتر ہے، اور بعض علماء نے احتیاطاً سورج طلوع ہونے کے بیس منٹ بعد پڑھنے کو زیادہ بہتر کہاہے۔ اور اس کا مدار وہ روایت ہے جس میں سورج طلوع ہوجانے کے بعد ایک یا دو نیزے بلند ہونے کا ذکر ہے، اور سورج طلوع ہوکر تقریباً دس منٹ میں ایک نیزہ بلند ہوجاتاہے، اور بیس منٹ میں دو نیزہ کی مقدار، لہٰذا جن اہلِ علم نے دس منٹ مقدار لکھی ہے وہ کم سے کم وقت ہے، اور جنہوں نے بیس منٹ لکھا انہوں نے دو نیزے کی مقدار لے کر احتیاط والا قول لیا ہے۔

جیسا کہ حدیث شریف میں آتا ہے:

سنن الترمذي ت بشار (1/ 727):

"عن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من صلى الغداة في جماعة ثم قعد يذكر الله حتى تطلع الشمس، ثم صلى ركعتين كانت له كأجر حجة وعمرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: تامة تامة تامة".

یعنی جو شخص فجر کی نماز جماعت سے ادا کرے پھر اپنی جگہ بیٹھ کر اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتا رہے یہاں تک کہ سورج طلوع ہوجائے، پھر اس کے بعد دو رکعت پڑھے تو اس کو کامل حج و عمرہ کا ثواب ملے گا۔
4- ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: (نمازِ اشراق کی صرف اوّاب[رجوع کرنے والا، توبہ کرنے والا] ہی پابندی کرتا ہے اور یہی صلاۃ الاوّابین ہے) ابن خزیمہ نے اسے روایت کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے اسے "صحيح الترغيب والترهيب" (1/164)

5- انس بن مالک نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: (جس شخص نے فجر کی نماز با جماعت ادا کی، پھر سورج طلوع ہونے تک ذکر الہی میں مشغول رہا، پھر اس نے دو رکعتیں پڑھیں، تو یہ اس کے لیے مکمل، مکمل، مکمل حج اور عمرے کے اجر کے برابر ہونگی) ترمذی: (586) البانی رحمہ اللہ نے اسے "صحیح سنن ترمذی " میں حسن کہا ہے ۔

مبارکپوری رحمہ اللہ "تحفة الأحوذی بشرح جامع الترمذی" (3/158) میں کہتے ہیں:

"نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا فرمان : " پھر اس نے دو رکعتیں پڑھیں " یعنی سورج طلوع ہونے کے بعد۔
طیبی کہتے ہیں: مطلب یہ ہے کہ : نیزے کے برابر سورج طلوع ہونے کے بعد جب مکروہ وقت ختم ہو گیا تو دو رکعت ادا کیں، اس نماز کو نماز اشراق کہا جاتا ہے، جو نماز ضحی کی ابتدائی صورت ہے"

عن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من صلى الغداة في جماعة ثم قعد يذكر الله حتى تطلع الشمس، ثم صلى ركعتين كانت له كأجر حجة وعمرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: تامة تامة تامة".

ترجمہ:
جو شخص فجر کی نماز جماعت سے ادا کرے پھر اپنی جگہ بیٹھ کر اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتا رہے،یہاں تک کہ سورج طلوع ہوجائے، پھر اس کے بعد دو رکعت پڑھے تو اس کو کامل حج و عمرہ کا ثواب ملے گا۔
اشراق کی نماز کی حدیثِ مبارک میں بڑی فضیلت وارد ہوئی ہے:

حضرت انس رضي الله تعالي عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص فجر کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھے اور پھر اپنی جگہ بیٹھا رہے؛ یہاں تک کہ اشراق کا وقت ہو جائے اور پھر اٹھ کر (کم از کم) دو رکعات اشراق کی نماز پڑھ لے تو اس کو ایک حج اور ایک عمرے کا ثواب ملتا ہے۔

حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ : جو شخص صبح کی نماز پڑھنے کے بعد اپنی نماز کی جگہ پر بیٹھا رہے یہاں تک کہ سورج طلوع ہونے اور روشن ہونے کے بعد دو رکعت پڑھے اور اس دوران صرف خیر ہی کہے تو اس کے گناہ معاف کردیے جائیں گے اگرچہ وہ گناہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہوں۔

اور اشراق کی نماز کی مذکورہ مخصوص فضیلت اور مکمل ثواب کا مستحق وہ شخص ہے جو فجر کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کرے یا عذر کی وجہ سے گھر میں ادا کرکے وہیں ذکر و اَذکار میں مشغول رہے، اور اس درمیان کسی دنیاوی کام میں مصروف نہ ہو، یہاں تک کہ اشراق کا وقت ہوجائے تو اشراق کی نماز ادا کرلے۔

نیز اشراق کی نماز کی فضیلت حاصل کرنے کے لیے فجر کی نماز کے بعد اسی جگہ بیٹھے رہنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اسی جگہ ذکر واذکار اور نیک کاموں میں مشغول رہے، خواہ کھڑے ہوکر، یا بیٹھ کر یا لیٹ کر، البتہ بیٹھ کر ذکر کرتے رہنا زیادہ افضل ہے، الا یہ کہ وہ کسی اور دینی کام کے لیے وہاں سے کھڑا ہو مثلًا بیت اللہ کے طواف کے لیے، یا جنازہ کی نماز کے لیے، یا قرآن وحدیث کے درس وغیرہ میں حاضر ہونے کے لیے۔

ملحوظ رہے کہ اشراق کی نماز کے ایک تو وہ فضائل ہیں جو مخصوص طور پر وارد ہیں، اور ایک وہ فضائل ہیں جو عمومی طور پر وارد ہیں؛ لہٰذا اگر کوئی شخص فجر کے بعد کسی دنیاوی کام میں مشغول ہوگیا ہو تو اسے بھی اشراق کی نماز کی فضیلت مل جائے گی، گو مخصوص فضیلت کا وعدہ نہیں ہے۔

 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 558193 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More