نمازِ چاشت

پہر دن چڑھے کا وقت جبکہ آفتاب بلند ہوتا ہے (تقریباً 9 بجے)، طلوع اور دوپہر کے وسط کی ساعت،وہ نماز جو دن چڑھے ادا کی جاتی ہے۔
نماز چاشت کا وقت آفتاب کے خوب طلوع ہو جانے پر شروع ہوتا ہے۔ جب طلوعِ آفتاب اور آغازِ ظہرکے درمیان کل وقت کا آدھا حصہ گزر جائے تو یہ چاشت کے لیے افضل وقت ہے۔ نماز چاشت کی کم از کم چار (4) اور زیادہ سے زیادہ بارہ (12) رکعات ہیں۔
اُم المؤمنین حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چاشت کی چار رکعت پڑھتے تھے اور اﷲ تعالیٰ جس قدر زیادہ چاہتا اتنی پڑھ لیتے تھے۔
مسلم، الصحيح، کتاب صلاة)
اس کا وقت آفتاب بلند ہونے سے زوال یعنی نصف النہار شرعی تک ہے اور بہتر یہ ہے کہ چوتھائی دن چڑھے پڑھے۔

حدیث شریف میں ہے کہ

” جو چاشت کی دو رکعتوں پر محافظت کرے اس کے (صغیرہ) گناہ بخش دئیے جائیں گے اگر چہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہوں ۔
“عن أبي ذر عن النبي صلى الله عليه وسلم، أنه قال: «يصبح على كل سلامى من أحدكم صدقة، فكل تسبيحة صدقة، وكل تحميدة صدقة، وكل تهليلة صدقة، وكل تكبيرة صدقة، وأمر بالمعروف صدقة، ونهي عن المنكر صدقة، ويجزئ من ذلك ركعتان يركعهما من الضحى»."صحيح مسلم (1/ 498):
حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے ہر شخص کے ذمہ اس کے جسم کے ایک ایک جوڑ کے شکرانے میں روزانہ ایک صدقہ ہے، ہر بار سبحان اللہ کہنا ایک صدقہ ہے، ہر بار الحمد للہ کہنا ایک صدقہ ہے، ہر بار لا الہ الا اللہ کہنا صدقہ ہے، ہر بار اللہ اکبر کہنا صدقہ ہے، بھلائی کا حکم کرنا صدقہ ہے اور برائی سے روکنا ایک صدقہ ہے اور ہر جوڑ کے شکر کی ادائیگی کے لیے چاشت کے وقت دو رکعت پڑھنا کافی ہو جاتا ہے۔
چاشت کی نماز کے مختلف فضائل ہیں، من جملہ ان میں سے ایک یہ ہے: حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے ہر شخص کے ذمہ اس کے جسم کے ایک ایک جوڑ کے شکرانے میں روزانہ ایک صدقہ ہے، ہر بار سبحان اللہ کہنا ایک صدقہ ہے، ہر بار الحمد للہ کہنا ایک صدقہ ہے، ہر بار لا الہ الا اللہ کہنا صدقہ ہے، ہر بار اللہ اکبر کہنا صدقہ ہے، بھلائی کا حکم کرنا صدقہ ہے اور برائی سے روکنا ایک صدقہ ہے اور ہر جوڑ کے شکر کی ادائیگی کے لیے چاشت کے وقت دو رکعت پڑھنا کافی ہو جاتا ہے۔
شیخ ابن باز رحمہ اللہ "مجموع الفتاوى" (11/389) میں کہتے ہیں کہ:
"چاشت کی نماز سنت مؤکدہ ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی یہ نماز پڑھی ہے، اور صحابہ کرام کو بھی اس کی ترغیب دلائی "
صحيح مسلم (1/ 498):
ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں:سورج کے نیزے کے برابر بلند ہونے کے بعد سے سورج کے زائل ہونے سے پہلے تک نماز چاشت کا وقت ہوتا ہے اور گرمی کی شدت کے بعد (یعنی زوال سے پہلے آخری وقت میں) پڑھنا افضل ہے۔ مجموع الفتاویٰ (11/ 396)
ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:سورج کے ایک نیزہ کے برابر بلند ہونے یعنی تقریبا سورج نکلنے کے پندرہ یا بیس منٹ کے بعد سے زوال کے تھوڑا پہلے یعنی دس پندرہ منٹ پہلے تک۔ مجموع الفتاویٰ (14/ 306)
ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں:چاشت کی نماز کم سے کم دو رکعت اور اگر کوئی آدمی حسب سہولت چار، چھ، آٹھ یا اس سے زیادہ رکعتیں پڑھ لے تو کوئی حرج نہیں ہے، اس کی کوئی حد نہیں ہے۔ مجموع الفتاویٰ (11/ 399)
ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:چاشت کی نماز کم سے کم دو رکعت اور زیادہ کی کوئی تحدید نہیں آدمی اپنى نشاط کے مطابق جتنی مرضی پڑھ لے۔ مجموع الفتاویٰ (14/ 305)
چاشت کی نماز کم سے کم دو رکعت اور زیادہ کی کوئی تحدید نہیں لیکن افضل ہے کہ آٹھ رکعت سے زیادہ نا پڑھا جائے، دو دو رکعت پہ سلام پھیرا جائے اور پوری نماز ایک ہی سلام سے پڑھنا مناسب نہیں۔ اللجنۃ الدائمۃ (6/145)
ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں:جی ہاں چاشت کی نماز روزآنہ پڑھنا مسنون ہے۔ مجموع الفتاویٰ (30- 59)
ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:بظاہر چاشت کی نماز ہمیشہ کے لئے ایک مطلق سنت ہے۔ الشرح الممتع (4 -83)
جب اونٹ كا بچہ ريت گرم ہونے سے اپنے پاؤں اٹھائے اس وقت نماز چاشت کا افضل وقت ہوتا ہے اور یہ وقت زوال سے پہلے کا وقت ہے جب کہ سورج شدت اختیار کر جائے۔اللجنۃ الدائمۃ(6/148)
ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:چاشت کا وقت نکل جانے کے بعد چاشت کی نماز ختم ہو جاتی ہے کیوں کہ چاشت کی نماز اسی وقت کے ساتھ مقید ہے اسے قضا نہیں کیا جائے گا۔ مجموع الفتاویٰ (14/ 305)
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 461932 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More