نمازِ اوابین

نمازِ مغرب کے فرض پڑھ کر چھ رکعتیں پڑھنا مستحب ہیں، ان کو صلوٰۃ الاوابین اور نماز اوابین بھی کہتے ہیں خواہ ایک سلام سے پڑھے یا دو سے یا تین سے اور تین سلام سے پڑھنا یعنی ہر دو رکعت پر سلام پھیر نا افضل ہے اور اگر ایک ہی نیت سے چھ رکعتیں پڑھیں تو ان میں پہلی دو سنت موکدہ ہوں گی۔ باقی چار نفل۔
عام طور پر مغرب کے فرض اور سنتوں کے بعد جو نوافل پڑھے جاتے ہیں، انہیں ’’صلاۃ الاوابین‘‘ کہتے ہیں، ان کی کم از کم تعداد چھ اور زیادہ سے زیادہ بیس ہے۔ یہ نماز مستحب ہے۔
مفتی بہ قول کے مطابق یہ چھ رکعات مغرب کے بعد کی دو رکعات سنتِ مؤکدہ کے علاوہ ہیں۔ البتہ بعض فقہاء فرماتے ہیں کہ سنتِ مؤکدہ کو ملا کر چھ رکعات ادا کرنے سے بھی یہ فضیلت حاصل ہوجائے گی۔
اوابین کی نماز کا طریقہ وہی طریقہ ہے جو عام نوافل کا ہے، اور اوابین کی چھ رکعات ، دو ،دو رکعات کرکے پڑھنا زیادہ بہتر ہے۔
جناب رسول اللہ ا کا ارشاد مبارک ہے کہ: ’’جو شخص نماز مغرب کے بعد چھ رکعات (اوابین کی نماز) پڑھے گا، اور ان کے درمیان کوئی غلط بات زبان سے نہ نکالے گا تو یہ چھ رکعات ثواب میں اس کے لیے بارہ سال کی عبادت کے برابر قرار پائیں گے۔
تاہم صحیح احادیث میں رسول اللہ ﷺ نے چاشت کی نماز کو اوابین کی نماز فرمایا ہے، بلکہ ایک حدیث میں سورج گرم ہوجانے کے بعد چاشت پڑھنے والوں کی نماز کو ’’صلاۃ الاوابین‘‘ فرمایا ہے، ارشاد ہے: ’’صلاة الأوابین حین ترمض الفصال‘‘. (صحيح مسلم) یعنی اللہ کی طرف رجوع کرنے والوں کی نماز اس وقت ہے جب سورج کی تمازت سے اونٹ کے بچے کے پیر جلنے لگیں۔
چناں چہ فقہاءِ کرام فرماتے ہیں کہ چاشت کی نماز کا افضل وقت، اس کے مکمل وقت کا آخری چوتھائی ہے، یعنی سورج طلوع ہو کر جب ایک نیزہ بلند ہوجائے تو چاشت کا وقت شروع ہوجاتاہے، اور زوال تک چاشت کا وقت رہتاہے، اس مکمل وقت کو چار حصوں میں تقسیم کیا جائے تو آخری چوتھائی وقت جس میں سورج کی تمازت بڑھ جاتی ہے، اس وقت اوابین کی نماز کا وقت ہے، اور اس وقت میں چاشت کی نماز کی فضیلت زیادہ ہے۔اور چاشت کی نماز کم سے کم دو رکعت ہے، بہتر چار رکعات ہیں، رسول اللہ ﷺ سے آٹھ رکعات تک ادا کرنا منقول ہے۔
بعض صحیح احادیث میں چاشت کی نماز کو سورج چڑھنے کے بعد یعنی جب سورج میں تمازت آجائے اس وقت، پڑھنے کو "اوابین کی نماز" کہا گیا ہے، اور احادیث میں چاشت کے بہت فضائل وارد ہوئے ہیں، مثلًا ایک حدیث میں ہے جو چاشت کے وقت بارہ رکعت ادا کرے تو اللہ تعالیٰ اسے سونے کا محل عطا فرمائیں گے،
فتوی نمبر : 144108201086
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
اواب مبالغہ کا صیغہ ہے جس کے معنی کثرت سے اللہ کی طرف رجوع کرنے والا ، ذکر وتسبیح کرنے والا، گناہوں پر شرمندہ ہونے والا اور توبہ کرنے والا ہے ۔ اوابین اسی اواب کی جمع ہے۔ قرآن میں اواب اور اوابین دونوں استعمال ہوا ہے، اللہ کا فرمان ہے :
هَٰذَا مَا تُوعَدُونَ لِكُلِّ أَوَّابٍ حَفِيظٍ (ق:32)
ترجمہ: یہ ہے جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا ہر اس شخص کے لئے جو رجوع کرنے والا اور پابندی کرنے والا ہو ۔
اللہ کا فرمان ہے: رَّبُّكُمْ أَعْلَمُ بِمَا فِي نُفُوسِكُمْ ۚ إِن تَكُونُوا صَالِحِينَ فَإِنَّهُ كَانَ لِلْأَوَّابِينَ غَفُورًا (الاسراء:25)
ترجمہ:جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے اسے تمہارا رب بخوبی جانتا ہے اگر تم نیک ہو تو وہ تو رجوع کرنے والوں کو بخشنے والا ہے ۔
ایک دوسری جگہ اللہ کا فرمان ہے : وَلَقَدْ آتَيْنَا دَاوُودَ مِنَّا فَضْلًا ۖ يَا جِبَالُ أَوِّبِي مَعَهُ وَالطَّيْرَ ۖ وَأَلَنَّا لَهُ الْحَدِيدَ (سبا:10)
ترجمہ: اور ہم نے داؤد پر اپنا فضل کیا اے پہاڑو! اس کے ساتھ رغبت سے تسبیح پڑھا کرو اور پرندوں کو بھی ( یہی حکم ہے ) اور ہم نے اس کے لئے لوہا نرم کر دیا ۔
قول محمد ﷺ کے سامنے دنیا کے سارے اقوال اور لوگوں کی ساری باتیں مردود ہیں ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
أوصاني خليلي بثلاثٍ لستُ بتاركهنَّ ، أن لا أنامَ إلا على وترٍ ، و أن لا أدَعَ ركعتي الضُّحى ، فإنها صلاةُ الأوّابينَ ، و صيامِ ثلاثةِ أيامٍ من كلِّ شهرٍ۔(صحيح الترغيب:664، صحيح ابن خزيمة:1223)
ترجمہ: مجھے میرے خلیل صلی اللہ علیہ وسلم نے تین چیزوں کی وصیت کی کہ میں انہیں کبھی نہیں چھوڑوں گا۔ بغیر وتر پڑھے نہ سوؤں، چاشت کی دوگانہ نہ چھوڑوں کیونکہ یہی اوابین کی نماز ہے اور ہر ماہ تین روزے نہ ترک کروں۔
٭ اس حدیث کو شیخ البانی نے صحیح الترغیب اور صحیح ابن خزیمہ میں صحیح قرار دیا ہے ۔ (حوالہ سابق)
اس حدیث میں نبی ﷺ نے واضح طور پر بتلا دیا کہ صلاۃ الضحی(چاشت کی نماز) ہی صلاۃ الاوابین (اوابین کی نماز) ہے ۔
في الجنَّة" کہ جو بارہ رکعات (چاشت کی نماز) ادا کرے اللہ اس کے لئے جنت میں ایک گھر بنائے گا ۔ اس حدیث کو شیخ البانی نے ضعیف الترغیب میں (405) میں درج کیا ہے ۔ اور اسی طرح ترمذی میں یہ روایت ہے :" مَن صلَّى الضُّحى ثنتي عشرةَ رَكعةً بنى اللَّهُ لَه قصرًا من ذَهبٍ في الجنَّةِ" یعنی جو چاشت کی بارہ رکعات ادا کرے گا اللہ اس کے لئے جنت میں سونے کا ایک محل تعمیر کرے گا ۔ شیخ البانی نے اس حدیث کو ضعیف الترمذی(473) میں درج کیا ہے ۔


 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 461755 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More