اگر ہے جذبہ تعمیر زندہ تو پھر کس چیز کی ہم میں کمی ہے،
جہاں سے پھول ٹوٹا تھا وہاں سے کلی سی اک نمایاں ہو رہی ہے۔۔
آج سے تقریباً ۸۳(تراسی ) سال قبل تیئس مارچ ۱۹۴۰ کو لاہور میں اک جلسہ
منعقد ہوا جسے قرارداد پاکستان کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ اس دن برِ صغیر
کے مسلمانوں نے اپنے مستقبل کا فیصلہ کیا اور اس میں مسلمانوں کی اکثریت
والے علاقوں پر مشتمل علیحدہ وطن کا مطالبہ بھی شامل تھا۔ ۱۸۵۷ سے ۱۹۴۰ تک
مسلمانان برصغیر نے ایک نظریہ کی خاطر اپنی جان ، مال اور اولاد کی قربانی
دی لیکن اس مطالبے ، مشن اور ابدی اصولوں کو نہ چھوڑا۔۱۹۳۰ کے اس اجلاس میں
تصور پاکستان، شاعرِ مشرق حضرت علامہ اقبال(ﷲ انھیں جزائے خیر عطا فرمائے)
نے ایک عظیم خطاب کیا جسے خطبہ آلہ آباد بھی کہا جاتا ہے ۔ اس خطاب میں
انھوں نے الگ وطن کا صرف مطالبہ نہیں کیا بلکہ ان وجوہات کو بھی زیر بحث
لائے جن کی بنا پر مسلمانانِ برصغیر کے لیے الگ وطن ہونا چاہیے۔ اس کے پورے
۱۰ سال بعد قراداد پاکستان منظور ہوئی۔ ایک خواب کو تعبیر میں ڈھلتے ہوئے
دیکھا گیا ۔ اک امید، اک آس اور ایک یقین کو مکمل ہوتے ہوئے دیکھا گیا۔ اس
قرداد کے سات سال بعد اسلامی جمہوریہ، اسلام کا قلعہ پاکستان معرض وجود میں
آیا۔ اان سات سالوں کے دوران ہونے والی قربانیاں، قتل و غارت، معاشی طور پر
غیر مستحکم، مسلمانوں کی جان کو خطرات اور ان سب پر صبر کرنا ایک ایسی محنت
ہے جسکا ثمر پاکستان کی صورت میں ہمیں حاصل ہوا۔ قائد محترم، عزیزِ مکرم
محمد علی جناح نے ﷲ تعالیٰ کی مدد اور کرم سے ڈاکٹر صاحب کے پاکستان بنانے
کے خواب کو حقیقت میں بدلنے کی بھر پور کوشش کی اور میں یہ فخر سے کہہ سکتی
ہوں کہ وہ مرد مجاہد اس میں کامیاب رہا۔ انھیں رب تعالیٰ کی طرف سے فتح
نصیب ہوئی۔ انتھک کاوشوں کا ثمر ایک حسین، دلکش، خوبصورت اور جان سے بڑھ کر
عزیز پاکستان کی صورت میں ملا۔ پاکستان بنانے کا سب سے بڑا اور اولین مقصد
یہی تھا کہ مسلمان اپنی زندگیاں بغیر خوف و ڈر کے قرآن و سنت کے مطابق بسر
کر سکیں۔ چودہ اگست کو پاکستان وجود میں آیا۔ قائد ملت فقط ایک سال ہی اس
ملک میں زندہ رہے اور اسی میں اپنی جان بھی ملت کے لیے وقف کر دی۔ اس کے
بعد سے لے کر اب تک جو بھی حکمران بنا ہے، اس نے قائداعظم کی اس لاڈلی ملت
کو اتنا ہی رسوا کیا ہے جتنا وہ ناز نخرے والی تھی۔ مجھے افسوس سے کہنا پڑ
رہا ہے کہ قائد کے بعد ملت کا شیرازہ بکھر گیا ۔ پچھلے ۷۵ سالوں سے لے کر
اب تک قائد کے ملک کو تبا ہ برباد ہوتے دیکھا گیا ،چور ، لُٹیرے، قاتل شہر
کے چوکیدار بنے دکھائی دے رہے ہیں، نیا پاکستان بنانے کی آڑ میں قوم کو
رسوا ہوتے دیکھا ۔۔مزید یہ کہ جس کو جتنا اختیار ملا اس نے اتنا لوٹا،
غریبوں کی بستیاں جلی اور امیروں کے بنگلے بڑھے، اس پاک وطن کے ماتھے پر
دہشت گردی کی تختیاں تک آویزاں ہو چکی ہیں۔ پھر ملکِ عزیز میں اک نیا دور
آیا میرے ملک کے باسی دس کلو کے آٹے کے تھیلے کے لیے خوار ہوئے۔ میں اس کو
حکومت کی بد انتظامی، نا اہلی اور سازش کہوں یا اپنا مقدر اور نصیب۔۔۔ کبھی
آٹے کا بحران اور کبھی چینی کا۔۔ ان تمام حکمرانوں نے اپنی اولاد اور سات
پشتوں کی خاطر اس ملک کی عوام کا جو حال کیا ہے۔ اس پر مجھے افسوس ہے۔۔۔ اے
حکمرانوں! تمہیں کوئی خوف نہیں ہے بروز قیامت نبی ﷺ کے سامنے شرمندہ ہونے
کے بارے میں ؟ تمہیں کوئی جھجھک محسوس نہیں ہوتی یہ سوچتے ہوئے کہ اگر یوم
حشر تمہیں سرکار دو عالمﷺ کی شفاعت سے محروم رکھا گیا تو کیا کرو گے؟ اور
سب سے بڑھ کر یہ کہ رب تعالیٰ کے سامنے کیسے جاؤ گے؟ کچھ تو خدا کا خوف کرو۔۔۔۔
پاکستانی عوام کو سمجھ لینا چاہیے کہ یہ حکمران اب ان کے لیے کچھ حیثیت
نہیں رکھتے ہیں۔ان حکمرانوں کا ہونا نہ ہونا برابر ہے،لہذا آپس میں بھائی
چارہ، مساوات، اخوت اور اتحاد سے کام لیں۔ دینِ محمدیہﷺ کو ہمیشہ اپنے دلوں
میں زندہ رکھیں۔ اور اپنے درمیان موجود ان فوارق و اختلافات کو مٹا دیں۔
تاکہ ایک یکجان پاکستان بن سکے۔
ﷲ رب العزت وطنِ عزیز پر اپنی بیش بہا نعمتیں نازل فرمائے۔ اور اسب کو اپنے
حفظ وامان میں رکھے آمین۔۔۔
یہ نفرت بُری ہے، نہ پالو اسےدلوں میں خلش ہے، نکالو اسے،نہ سندھی، بلوچی،
پنجابی، پٹھان ۔یہ سب کا وطن ہے، بچالو اسے۔۔
یومِ پاکستان مبارک۔
|