مشاہدے میں آتا ہے کہ کوئی بھی شادی شدہ نوجوان بچی یا
میچیور خاتون اپنے میکے آنے جانے کا ذکر کچھ ان الفاظ میں کرتی ہے کہ امی
کے گھر جانا ہے یا میں امی کی طرف گئی ہوئی تھی امی کے گھر میں ایسے ہوتا
ہے امی کے ہاں ویسے ۔ ۔ ۔ آپ نے کبھی نہیں سنا ہو گا کہ میں ابو کے گھر جا
رہی ہوں یا میں ابو کی طرف گئی ہوئی تھی ابو کے گھر میں ایسے ابو کے ہاں
ویسے ۔ ۔ ۔ بعینہ بچے بھی اپنی ننھیال کا ذکر ہمیشہ نانی کا گھر کہہ کر
کرتے ہیں ۔ شاذ و نادر ہی کوئی بچہ نانا کا گھر کہتا ہؤا نظر آئے گا ۔ کیا
وجہ ہے کہ مرد گھر کا مالک اور کفیل ہونے کے باوجود گھر کا ذکر اس سے منسوب
نہیں ہوتا کیوں وہ ہمیشہ اس کی بیوی کے نام سے پکارا اور پہچانا جاتا ہے
بیٹیوں کی اولادوں میں؟ کیونکہ ہر عورت اپنے ماں باپ کے گھر کو امی کا گھر
کہتی ہے اور بچوں سے بات کرتے ہوئے اسے نانی کا گھر کہتی ہے تو پھر بچے بھی
یہی سیکھ جاتے ہیں ۔ سب بچے اپنی خالہ کے والہ و شیدا ہوتے ہیں مگر یہی
ہستی بحیثیت پھپھو اکثر ہی ایک ناپسندیدہ اور متنازعہ کردار ہوتی ہے اور اس
میں بھی ہاتھ بچے کی ماں کا ہی ہوتا ہے خواہ حق پر یا ناحق ۔
خیر بچے اپنی نانی کے گھر جاتے ہیں تو عموماً وہاں ایک عدد مامی بھی ہوتی
ہے جس کی دو اقسام ہوتی ہیں ۔ پہلی جو ایک کثیر العیال سسرال کی اکلوتی اور
پہلی بہو ہوتی ہے اور صبح سے لے کر رات گئے تک کولہو کے بیل کی طرح سارے
پریوار کی سیوا میں جُتی رہتی ہے ۔ بیماری آزاری تیمار داری اور
مہمانداریاں بھی بھگتاتی ہے ایسے میں نند اپنی چلر پارٹی کے ساتھ نمودار ہو
جاتی ہے تو بیچاری کے اوپر دل ہی دل میں اوس پڑ جاتی ہے مگر اوپر اوپر سے
مسکرا کر مدارات میں مصروف ہو جاتی ہے ۔ اس کے بھی بچے تھوڑے سمجھدار ہوں
تو دیکھتے ہیں کہ پھپھو ہل کر پانی بھی نہیں پی رہی مہارانی بنی بیٹھی ہے
اور ان کی ماں ماسی بنی ہوئی ہے تو پھر انہیں سکھانے پڑھانے کی بھی ضرورت
نہیں ہوتی ۔ خاص طور پر جب پھپھو بند کمرے میں دادا دادی کے ساتھ مذاکرات
میں مصروف ہو اور ان کے باہر برآمد ہونے کے بعد گھر کے ماحول میں بے وجہ ہی
تناؤ کے آثار پیدا ہو جائیں ۔ پھپھو کا اپنے ماں باپ کو پڑھایا ہؤا سبق
بچوں کو بھی بہت کچھ سکھا دیتا ہے ۔
دوسری قسم کی بہو تھوڑی دبنگ ہوتی ہے وہ جب مرضی منہ اٹھائے نازل ہو جانے
والی نند کو زیادہ منہ نہیں لگاتی اور اپنا منہ ایسا بنا لیتی ہے کہ وہ
اپنا سا منہ لے کر رہ جاتی ہے ۔ پھر نند اور ساس دونوں کو کچن میں آ کر بہو
کا پورا پورا ہاتھ بٹانا پڑتا ہے ۔ ایک بیچاری بہو مہینوں تک اپنے میکے
نہیں جاتی تھی سال بھر میں بمشکل دو چار بار ہی کسی موقع پر دو چار گھنٹوں
کے لئے جاتی تھی ۔ کیونکہ وہاں جو اس کی بھابھی تھی اس کا فرمان تھا کہ
رکنے کے لئے آؤ تو اپنی ذمہ داری پر ۔ اپنا ناشتہ کھانا خود بنانا ہو گا
کچن سمیٹنے سمیت گھر کا اور کام بھی کرنا ہو گا مثلاً صفائی لانڈری وغیرہ
اور اپنے بچوں کو لگام دے کر رکھنا ہو گا ۔اب اگر سسرال میں ہلکان ہوئی بہو
میکے جا کر بھی ساری ذمہ داری ویسے ہی پوری کرے تو پھر وہاں جانے کا فائدہ
کیا؟ اور یہ کوئی مذاق کی بات نہیں ہے ایک حقیقی قصہ ہے جس کے مطابق وہاں
ماں باپ بھی موجود تھے گھر بھی انہی کا تھا بیٹے کا نہیں پھر بھی بہو کے
سامنے بےبس تھے ۔ اور ایسی سرکش منہ زور مہیلائیں جب خود اپنے میکے جاتی
ہیں تو خود ان کے اپنے قاعدے قانون ان پر لاگو نہیں ہوتے ۔ یہ وہاں موجود ،
بھائی کی بیوی کو اپنی باندی سمجھتی ہیں اور ان کے بچوں کو بھی ممانی اپنی
نوکرانی لگتی ہے وقت بے وقت جب مرضی کچھ بھی فرمائش کر دی اور اپنی شرارتوں
بدتمیزیوں سے سارا گھر اکھاڑہ بنا کر رکھ دیا وہاں موجود بچوں سے بھی اِن
کی نہیں بنتی اور اِنہیں مہمان ہونے کا ایڈوانٹیج ملا رہتا ہے خواہ ننھیال
میں ڈیرے ڈلے رہتے ہوں ۔ دیسی سماج میں کہیں ایک ہی گھر بیٹی اور اس کے
بچوں کے لئے جنت جیسا ہوتا ہے اور وہی گھر بہو اور اس کے بچوں کے لئے کسی
جہنم سے کم نہیں ہوتا ۔ |