تباہی کا راستہ اور صراطِ مستقیم

کوئی بھی شخص مسلمانوں کی تیرہ سو سالہ زندگی کو جب تاریخ کے اوراق میں دیکھتا ہے تو دنگ رہ جاتا اور اَپنی اُنگلیاں دانتوں تلے دبانے پر مجبور ہو جاتاہے۔اُسے تاریخ کے اوراق سے معلوم ہوتا ہے کہ جن کو مسلمان کہا جاتا تھا وہ تو عزت و عظمت، شان و شوکت، دبدبہ و حشمت کے تنہا مالک اور اجارہ دار تھے، نہ صرف عالمِ کفر اُن سے کانپتا تھا بلکہ سمندروں کا پانی بھی اُنہیں کے اشارہ ءآبرو کا منتظر تھا اور جنگلوں کے درندے بھی اُن کا حکم ماننے پر مجبور تھے ۔۔۔اور تو اور وہ منظر آج بھی تاریخ کے اَوراق پر روشن ہے کہ جب شہر مدینہ میں زلزلہ آیا تو خلیفہ وقت نے اپنا دُرہ مار کر زمین سے سوال کیا کہ ،تو کیوں ہلتی ہے ،کیا عمر ؓ تم پر اِنصاف نہیں کرتا؟ تو نہ صرف زلزلہ تھمتا ہے بلکہ کئی سو سال بعد بھی شہرِ نبویﷺ پر زمین کو جُنبش کی بھی جرات نہیں ہوئی ۔ لیکن جب وہی شخص موجودہ حالات کا مشاہدہ کرے تو اُسے آج کا مسلمان اِنتہائی ذلت و خواری، اِفلاس و ناداری میں مبتلا نظر آتاہے۔۔۔۔ آج کا مسلمان اُس قوتِ ایمانی سے بھی محروم ہے اور اُن کے سے شان و شوکت سے بھی ،نہ اُن مسلمانوں سا (صحابہ کرام ؓجیسا)زور ِ قوت ہے نہ باہمی اخوت و اُلفت۔ ۔۔آج کے مسلمانو ں کی نہ عادات اچھی ہیں نہ اخلاق ۔۔۔نہ اعمال اچھے ہیں نہ کردار ۔ ۔۔ہر برائی ہم میں موجود اور ہر بھلائی سے ہم کوسوں دور ہیں۔۔۔ اَغیار ہماری اس زبوں حالی پر خوش ہیں اور دنیا بھر میں برملا ہماری کمزوری کو اچھالا جارہاہے اور ہمارا مضحکہ اڑایا جارہا ہے۔۔۔ ہمارے مقتدر طبقے کی تو بات ہی نہ کریں کہ اُنہوں نے پرورش ہی گوروں کی گود میں حاصل کی ہے بلکہ خود ہمارے جگر گوشے نئی تہذیب کے دلدادہ نوجوان، اسلام کے مقدس اصولوں کا مذاق اڑاتے ہیں۔۔۔(نعوذ باللہ )بات بات پر تنقید اور شریعت مقدسہ کو ناقابل عمل، لغو اور بیکار گردانتے ہیں،کیونکہ اِنہیں ہماری نام نہاد ماڈریٹ پرائیویٹ اور سرکاری درس گاہوں سے سبق بھی اِسی روشن خیالی کا پڑھایا جاتا ہے ۔ ۔۔المیہ ہے کہ امت نے من حیث المجموعی مغربی تہذیب سے ”ترقی“ کا وہ سبق پڑھ لیا ہے جو سراسر تنزلی اور تباہی کی طرف لے جانے والا ہے۔ اب ہر کسی کا مشن یہ ٹھہرا ہے کہ ان کے بچے اس جدید تعلیم کی اعلیٰ ترین منزلیں طے کریں جسے علامہ اقبال نے ”تعلیم کا تیزاب“ قرار دیاتھا۔ مادیت کی دوڑ میں اخلاق و آداب اور دینی اقدار بہت پیچھے رہ گئی ہیں۔ اعلیٰ تعلیمی ادارے تربیت گاہوں کی بجائے قتل گاہیں بن گئے ہیں۔ اے کاش! کوئی عمر بن خطابؓ،کا پیرو کا ر نظام حکومت اپنے ہاتھ میں لے اور ہماری نوجوان نسلوں کو مغربی تعلیم و تہذیب کے تیزاب سے بچا کر خالص اسلامی تعلیم و تہذیب کے پاکیزہ سانچے میں ڈھالنے کی بنیاد رکھ دے۔۔۔جب ایک دردِ دل رکھنے والا انسان اِن تمام حالات کا جائزہ لیتا ہے تو پھرواقعی عقل ماتم کناں ہو جاتی ہے کہ جس قوم نے دنیا کو سیراب کیا وہ آج تشنہ کیوں ہے؟ ؟؟جس قوم نے دنیا کو تہذیب و تمدن کا سبق پڑھایا وہ آج غیر مہذب اور غیر متمدن کیوں ہے؟؟؟آج سے تقریباً ساڑھے چودہ سو سال قبل جب دنیا کفر و ضلالت اورجہالت و سَفاکیت کی تاریکیوں میں ِگھری ہوئی تھی تب بطحا کی سنگ لاخ چوٹیوں سے رشد و ہدایت کا مہتاب نمودار ہوا ۔۔۔جس نے مشرق و مغرب، شمال و جنوب غرض دنیا کے ہر ہر گوشے کو اپنے نور سے منور کیا اور23سال کے قلیل عرصہ میں بنی نوع انسان کو ترقی کی اُس معراج پر پہنچایا کہ تاریخ عالم اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے ۔۔۔رشد و ہدایت کے اس اکمل پیکر نے، صلاح و فلاح کی وہ مشعل مسلمانوں کے ہاتھ میں دی جس کی روشنی میں اپنی زندگی بتانے والے ہمیشہ شاہراہ ترقی پر گامزن رہے اور دنیا پرصدیوں اس شان و شوکت سے حکومت کی کہ ہر مخالف قوت کو پاش پاش ہونا پڑا ۔۔۔یہ تو تھا اُن مسلمانوں کا کرداراور طرزِ زندگی ،جب کہ موجودہ مشاہدات اور واقعات ہمارے آبا و اجداد اور بزرگوں کے کارناموں پر بد نما داغ نظر آتے ہیں۔۔۔اَسلاف جن کی روشن زندگیوں کو ہم نے دیس نکالا دیا ہوا ہے نے آج سے بہت پہلے ہماری اس حالتِ زار کا اندازہ لگایا اور مختلف طریقوں سے ہماری اصلاح کے لئے جدودجہد کی مگر۔۔۔ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ ۔۔آج جب حالت بد سے بدتر ہو چکی اور آنے والا زمانہ سابق سے بھی زیادہ پر خطر اور تاریک نظر آ رہا ہے، قران وسنت کو اپنا مرکز سمجھنے والوں کاخاموش بیٹھنا اور عملی جدوجہد نہ کرنا ایک ناقابل تلافی جرم ہے ،لیکن اس سے پہلے کہ ہم کوئی عملی قدم اٹھائیں ضروری ہے کہ اُن اسباب پر غور کریں جن کے باعث ہم اس ذلت و خواری کے عذاب میں سَرتاپا ڈوبے ہوئے ہیں، ہماری اس پستی اور انحطاط کے مختلف اسباب بیان کئے جاتے ہیں، اور ان کے ازالہ کی متعدد تدابیر اختیار کی گئیں لیکن ہر تدبیر ناموافق و ناکام ثابت ہوئی جس کے باعث آج ہمارے رہبر بھی بد حواس نظر آتے ہیں۔۔۔آج کے درد مند مسلمان کو اِدراک ہونا چاہئے کہ وہ کون سے عوامل تھے اور ہیں کہ جن کی وجہ سے ہمارا ٹھکانہ اَوجِ ثریا سے پستی کی اتھاہ گہرائیوں میں تبدیل ہو چکا ہے۔۔۔میں علمائے حقہ کی جوتیاں سیدھی کرنے والا ادنی سا طالبِ علم دستِ سوال دراز لئے اُن ”علمائے کرائم“ سے گوش گزار ہوں جو سارا سارا دِن اہلِ اِقتدار کی چوکھٹوں کے طواف کرتے نہیں تھکتے ،جو امریکی و مغربی سفارت کاروں کی ”گُڈ بُک “میں اپنا نام لکھوانے کے لئے اپنا دین ایمان تو بیچتے ہیں ہی ،اپنے اُن ہزاروں اَندھے عقیدت مندوں کا ایمان بھی گِروی رکھ آتے ہیں جو اُن کے جُبہ و دستار کے دھوکے میں آتے ہیں۔۔۔میرا سوال اُن مذہبی گروہوں اور جماعتوں سے بھی ہے جنہوں نے کبھی کسی فوجی جرنیل کی خوشامد کرتے کرتے عمر گنوا دی اور کوئی ایسے بھی” توحید پرست“ ہیں جو محض” سینٹ کی ایک سیٹ کے عوض“ قبر کی دیواروں تک سرمایہ داروں اور قبر پرستوں کے ہاتھ پر بعیت ہو چکے ہیں اور شرک جیسے قبیح اور ناقابلِ معافی جُرم کو نہ صرف قبول کیا بلکہ اِن سرمایہ داروں کی حاشیہ برداری کرتے ہوئے اِن کو اخروی نجات کے سرٹیفکیٹ بھی تقسیم کرتے رہے ہیں۔۔۔میرا سوال اُن مذہبی جُغادریوں سے بھی ہے جو جو گزشتہ ساٹھ سال سے قرآن وسنت کو اپنا مرکز اور محور بنانے کی بجائے فرقہ پرستی کی چادر تان کر قوم کو گمراہ اور اُمتِ محمدیہ ﷺ کو تقسیم کرنے کے مغربی ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں۔۔۔ میں اُن سے بھی مخاطب ہوں جو آئے روز بڑے بن ٹھن کر مختلف ٹی وی چینلز پر براجمان ہوتے اور ”بے پردہ عورتوں “کے سوالوں پر بڑے لہک لہک کر جواب دے رہے ہوتے ہیں ۔۔۔ کیا اِن کے علم میں نہیں ہے کہ ہمارے یہی ٹی وی چینلزرات دن مغرب کے ہلاکت آفریں ایجنڈے کے تحت عریانی اور فحاشی اور تہذیبی شر پھیلانے میں لگے ہیں ؟؟؟کیا دین کے نام پر سیاست کرنے والے زعماءاس تہذیبی تباہی سے یکسر بے پروا ہیں؟؟؟کیا ہمارے اِن تمام علمائے کرائم(معذرت کے ساتھ)نے آقائے دو جہاں ﷺ کی یہ حدیث ِ مبارکہ نہیں پڑھی ؟؟؟(ایسا ممکن تو نہیں ہے یہ علماءاِس حدیثِ مبارکہ سے بے خبر ہوں )اگر پڑھی ہے اور یقینا پڑھی ہے تو پھر اپنے اعمال کا محاسبہ کریں کیونکہ اگر اَب بھی اِن علماءحضرات اور دینی جماعتوں نے اپنی روش تبدیل نہ کی تو پھر ہمیں مِن حیث القوم اللہ کے شدید عذاب کا منتظر رہنا چاہیئے۔۔۔

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا کہ تم سے پہلی امتوں میں جب کوئی خطا کرتا تو روکنے والا اس کو دھمکاتا اور کہتا کہ خدا سے ڈر، پھر اگلے ہی دن اس کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا، کھاتا پیتا گو یا کل اس کو گناہ کرتے ہوئے دیکھا ہی نہیں۔ جب اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ان کا یہ برتاؤ دیکھا تو بعض کے قلوب کو بعض کے ساتھ خلط کر دیا اور ان کے نبی داود علیہ السلام اور عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کی زبانی ان پر لعنت کی اور یہ اس لئے کہ انہوں نے خدا کی نافرمانی کی اور حد سے تجاوز کیا۔ قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے قبضے میں محمد ﷺکی جان ہے تم ضرور اچھی باتوں کا حکم کرو اور بری باتوں سے منع کرو اور چاہئے کہ بیوقوف نادان کا ہاتھ پکڑو اس کو حق بات پر مجبور کرو، ورنہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ تمہارے قلوب کو بھی خلط ملط کر دیں گے اور پھر تم پر بھی لعنت ہو گی جیسا کہ پہلی امتوں پر لعنت ہوئی۔۔۔۔۔ایک دوسری حدیث مبارکہ بھی پڑھیں جسے صدیقہ کائنات سیدہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بیان کیا ہے آپؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺمیرے پاس تشریف لائے تو میں نے چہرہ انور ﷺ پر ایک خاص اثر دیکھ کر محسوس کیا کہ کوئی اہم بات پیش آئی ہے۔ حضور اقدس ﷺنے کسی سے کوئی بات نہیں کی اور وضو فرما کر مسجد میں تشریف لے گئے۔ میں مسجد کی دیوار سے لگ گئی تاکہ آپ کوئی ارشاد فرمائیں تو میں اس کو سنوں۔ حضور اقدس ﷺمنبر پر جلوہ افروز ہوئے اور حمد و ثناءکے بعد فرمایا، لوگو! اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ بھلی باتوں کا حکم کرو اور بری باتوں سے منع کرو مبادا وہ وقت آ جائے کہ تم دعا مانگو اور میں اس کو قبول نہ کروں اور تم مجھ سے سوال کرو اور میں اس کو پورا نہ کروں اور تم مجھ سے مدد چاہو اور میں تمہاری مدد نہ کروں۔ صدیقہ کائناتؓ فرماتی ہیں کہ حضور اقدس ﷺنے صرف یہ کلمات ارشاد فرمائے اور منبر سے اتر آئے۔۔۔۔آپ ﷺ کے اِن دو اِرشادات کو مدِ نظر رکھیں اور دِل پر ہاتھ رکھ کر کہیں ۔۔۔کیا آج یہی وقت نہیں ہے؟؟؟ کیا ہمارے قلوب زنگ الود نہیں ہو چکے اور کیا ہمارے دلوں میں اسلام کے دشمنوں کے حوالے سے نرمی پیدا نہیں ہو چکی؟؟؟ہمارے حکمران جو اغیار سے بھیک مانگتے اور ہمارے نام نہاد مذہبی لیڈر جن کی کرتوتوں کووکی لیکس نے بھی ننگا کر دیا ہے ”امریکہ بہادر کی گڈبُک“میں آنے کے لئے باولے نہیں ہو رہے؟؟؟اگر یہ سب درست ہے تو پھر اِنتظار کس کا۔۔۔۔
اُٹھو: وگرنہ حشر نا ہو گا پھر کبھی
دوڑو : زمانہ چال قیامت کی چل گیا
khalid shahzad farooqi
About the Author: khalid shahzad farooqi Read More Articles by khalid shahzad farooqi: 44 Articles with 49112 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.