پیر محمد عنایت احمدؒ نقشبندی

خلیفہ مجاز حضرت کرماں والے ، شیخ طریقت ، ولی کامل
پیر محمد عنایت احمدؒ نقشبندی،مجددی
بارھواں سالانہ عرس 20-21مارچ 2023ء بروز پیر اور منگل بمطابق 28 شعبان 1444
دربار شریف کبوتر پورہ قبرستان ۔اے تھری گلبرگ تھری لاہور میں منعقد ہوگا

گنج عنایت ،پیر کامل ٗ قطب دوراں ٗ منبع رشد وہدایت حضرت محمد عنایت احمدؒ نقشبندی مجددی18 نومبر 1937ء کو وادی کشمیر کے معروف گاؤں " کلسیاں " کے ایک دینی اور روحانی گھرانے میں پیدا ہوئے ۔آپ ؒ کے والد حضرت میاں صحبت علی قادریؒ شرافت ٗ دیانت اور روحانیت کے اعتبار سے پوری وادی میں اپنی الگ پہچان رکھتے تھے ۔حضرت صحبت علی قادری ؒ بٹالہ شریف انڈیا میں بیعت تھے جن کی شہرت پورے ہندوستان میں تھی۔تبلیغ دین اور روحانی فیض کے ساتھ ساتھ آپ ؒ کے والد گرامی کا ذریعہ معاش کھیتی باڑی تھا بلکہ پھلوں کے کچھ باغ بھی آپ ؒ کے خاندان کی ملکیت تھے ۔آپ ؒ کی والدہ ( حضرت قاسم بی بی ) انتہائی نیک سیرت اور پابند صلوۃ خاتون تھیں۔ گھریلو خانہ داری کے ساتھ ساتھ گاؤں کی بچیوں کو قرآن پاک کی تعلیم بھی دیا کرتی تھیں۔ آپؒ کی پیدائش کے کچھ ہی عرصہ بعد معروف روحانی بزرگ حضرت سید ولایت شاہ ؒ مبارک باد دینے کے لیے آپؒ کے گھر تشریف لائے اور آپ ؒ کو گود میں لے کر پیار کرتے ہوئے فرمایا : اﷲ نے اگر چاہا تو یہ بچہ اپنے وقت کا قطب ٗ عالم دین اور منبع رشد و ہدایت ہوگا اور لاکھوں بھٹکے ہوئے انسانوں کو صراط مستقیم پر گامزن کرے گا ۔ اﷲ تعالی نے اس ولی کامل کی زبان سے نکلنے ہوئے الفاظ کی کچھ اس طرح لاج رکھی کہ جب اسی بچے نے منصب ولایت پر فائز ہونے کے بعد خود کو دین الہی کی تبلیغ اور نبی کریم ﷺ کی محبت کو عام کرنے میں کچھ اس طرح وقف کردیا کہ پورے ملک سے لوگ جوق در جوق آپؒ کی زیارت اور فیض حاصل کرنے کے لیے جوق در جوق آتے رہے ۔ رشد و ہدایت کا یہ سلسلہ ان کی زندگی کی آخری سانس تک جاری و ساری رہا۔

چاروں اطراف سے پہاڑوں میں گھیرا ہوا گاؤں " کلسیاں " خوبصورتی اور صحت افزا ماحول کے اعتبار سے اپنی مثال آپ تھا ۔ اس گاؤں میں تو اکثریت مسلمانوں کی تھی لیکن ہندو اور سکھ بھی آباد تھے۔ تمام مساجد کا انتظام و انصرام آپ ؒ کے خاندان کے سپرد تھا ۔گاؤں کے سرکاری سکول میں آپ ؒ نے دنیاوی تعلیم کا باقاعدہ آغاز کیا جبکہ قرآن پاک اپنی والدہ ماجدہ سے پڑھا۔پھر جب حضرت قائداعظم محمد علی جناح ؒ کی عظیم جدوجہد کے نتیجے میں پاکستان دنیا کے نقشے پر وجود میں آیا تو آپ ؒ کا خاندان وادی کشمیر سے ہجرت کرکے گجرات کے نواحی قصبے چک 34 میں آکر آباد ہوگیا ۔یہاں آئے ہوئے ابھی چند ہی سال گزرے تھے کہ آپ ؒ کی والدہ ماجدہ کا انتقال ہوگیا۔ گویا چھ سال کی عمر ہی میں آپ ؒ شفقت مادر سے محروم ہوگئے اور والدہ کی کمی کو آپ ؒ زندگی کے آخری سانس تک شدت سے محسوس کرتے رہے ۔

جب آپ ؒ نے کچھ ہوش سنبھالا تو والد گرامی نے آپ ؒ کو علاقے کی معروف دینی شخصیت اور شیخ القرآن ٗ علامہ حضرت مولانا غلام علی قادری اشرفی کے مدرسے میں داخل کروادیا۔کچھ عرصہ تو دینی تعلیم کا سلسلہ چک 34 میں ہی جاری رہا پھر جب استاد العلما حضرت مولانا غلام علی قادری اشرفی نے اوکاڑہ شہر میں ایک بڑے دینی مدرسے " اشرف المدارس "کی بنیاد رکھی تو آپ ؒ بھی والد گرامی کے حکم پر حصول تعلیم کے لیے اوکاڑہ تشریف لے آئے اور سالہا سال تک یہاں تعلیمی مدارج طے کرتے رہے ۔

ایک رات آپ ؒ نے خواب میں اپنی والدہ کو سردی سے کانپتے ہوئے دیکھا۔آپؒ نے یہ واقعہ مجھے سناتے ہوئے فرمایا کہ ان دنوں میرے پاس بھی سردی سے بچنے کے لیے کوئی مناسب انتظام نہیں تھا۔ چند دن پہلے ہی چار روپے کی ایک گرم چادر خریدی تھی جو سردیوں میں ٗ میرا جسم ڈھانپتی تھی۔ خواب کی حالت میں جب والدہ کو سردی کے عالم میں کانپتے ہوئے دیکھا تو سخت پریشان ہوگیا۔ آپ ؒ فرماتے ہیں کہ میں نے یہ بات اپنے استاد مکرم مولانا محمد علی اوکاڑی کے گوش گزار کی، تو انہوں نے فرمایا کہ اﷲ اپنے نیک بندوں کو خواب کے ذریعے ہی پیغام رسانی کرتا ہے اگر والدہ کو سردی میں کانپتے ہوئے دیکھا ہے تو بہتر ہوگا آپ کوئی گرم کمبل ٗ رضائی یا گرم چادر کسی ایسے غریب اور لاچار انسان کو دے دو بات سن کر آپ ؒ مدرسے سے نکلے تو آپ کو کچھ ہی فاصلے پر فٹ پاتھ پر انتہائی سردی سے کانپتی ہوئی ایک بڑھیا نظر آئی ۔آپ نے اپنے جسم پر لپٹی ہوئی واحدگرم چادر اتار کر اس بڑھیا پر ڈال دی جس سے وہ دعائیں دینے لگی ۔آپؒ فرماتے ہیں کہ میں سردی سے کانپتا ہوا مدرسے واپس آگیا۔اگلی رات خواب میں وہی چادر ( جو بڑھیا کو سردی سے بچانے کےلیے دے آیا تھا) میں نے اپنی والدہ کو اوڑھے ہوئے دیکھاجو سردی سے محفوظ خوش و خرم دکھائی دیں ۔یہ دیکھ کر میرا ایمان پختہ ہوگیا کہ مرنے والوں سے رشتے کبھی کمزور نہیں ہوتے۔

یہاں یہ عرض کرتا چلوں کہ اوکاڑہ شہر سے شمال مشرق کی طرف حضرت کرماں والا کا ایک چھوٹا سا قصبہ موجود ہے جبکہ اسی نام سے ریلوے اسٹیشن بھی انگریزوں نے بنایا تھا ۔جیسا کہ نام سے ہی پتہ چلتا ہے کہ یہ قصبہ ایک ولی کامل اور عظیم درویش صفت ہستی، حضرت سید اسمعیل شاہ بخاری ؒ کا مسکن ہے۔جب تکحضرت مولانا محمد عنایت احمد ؒنقشبندی مجدوی اشرف المدارس اوکاڑہ میں زیر تعلیم رہے۔ پیر ان پیر حضرت سید اسمعیل شاہ بخاری ؒ المعروف حضرت کرماں والوں سے والہانہ محبت کا رشتہ بھی استوار ہوتا رہا۔کئی ایک بار آپ ؒ شیخ القرآن حضر ت مولانا غلام علی اوکاڑی ؒ کے ہمراہ آستانہ کرماں والا گئے ۔پھر آپ ؒکے دل میں روحانیت کی منزلیں طے کرنے کا ایسا جنون طاری ہوا کہ ہردوسری تیسری شام اکیلے ہی پیدل چلتے ہوئے اوکاڑہ سے پانچ کلومیٹر دور حضرت کرماں والا تشریف لے جانے لگے ۔ اس کے باوجود کہ ابھی آپ ؒ کی عمر زیادہ نہ تھی پھر بھی آپ ؒکی روحانیت کی جانب بڑھتی ہوئی دلچسپی دیکھ کر حضرت سید اسمعیل شاہ بخاری ؒ المعروف کرماں والوں نے آپ ؒ کو خصوصی محبت سے نوازا۔

ایک شام بیعت ہونے کا شوق دل میں موجزن ہوا تو آپ ؒ وقت اور موسم کی نزاکت کااحساس کئے بغیر پیدل ہی حضرت کرماںؒ والا جا پہنچے ۔حسن اتفاق سے اس وقت مغرب کی نماز ہوچکی تھی اور نماز کے بعد حضرت سید اسمعیل شاہ بخاری ؒ گوشہ خاص میں وضائف میں مشغول تھے ۔وہاں کسی کو جانے کی اجازت نہ تھی لیکن آپ ؒ کسی نہ کسی طرح گوشہ خاص میں داخل ہوگئے ۔جب حضرت سید اسمعیل شاہ بخاری ؒ کی نظر کرم آپ ؒ پر پڑی تو انہوں نے آنے کی وجہ پوچھی ۔ آپ ؒ نے کہا میں آپ ؒ کا مرید ہونے آیا ہوں۔ یہ سن کر حضرت سید اسمعیل شاہ بخاری ؒ نے فرمایا کہ تم تو ازل سے ہی میرے مرید ہو..پھر تہجد اور درود شریف کے متعلق ارشاد فرمایا اور اپنا دست شفقت پیر محمد عنایت احمد ؒ کے سینے پر پھیرا اور فرمایا جاؤ ہم تمہیں جملہ علوم حاصل ہونگے تم عالم باعمل اور صالح مرد بنوگئے اور تمہارا سینہ روشن ہو گا۔حضرت سید اسمعیل شاہ بخاری ؒ کے یہ الفاظ سن کر آپ کے بے قرار دل کو سکون حاصل ہوا ۔پھرزندگی بھر کبھی پیرخانے سے رشتہ کمزورنہ ہوا ۔بعد ازاں آپ ؒ پاکپتن شریف میں شیخ الحدیث مولانا منظور احمد صاحب کے ہاں بھی چند ماہ قیام پذیر رہے لیکن انہوں نے آپ ؒ کو قصور شہر جانے کامشورہ دیا۔قصور شہر میں آپ ؒ استاد العلما حضرت محمد عبداﷲ ؒکے مدرسے میں آٹھ سال تعلیمی مدارج طے کرتے رہے ۔یہ 1969 کا زمانہ تھا آپ ؒنے اے تھری گلبرگ تھرڈ لاہور میں مسجد کی امامت سنبھالی تو یہ مسجد انتہائی خستہ حال تھی ،اسے از سر نو تعمیر کرنے کا آپ ؒ نے عزم کیا اور 1971ء میں اپنے دست مبارک سے اس مسجد کا سنگ بنیاد رکھا جس کا نام آپ ؒ نے مسجد طہ رکھا ۔ابتدا میں جب آپ ؒ نے نماز جمعہ کااہتمام کیا تو نمازیوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی لیکن چند ہی سالوں میں عاشقان رسول ﷺ کا رخ مسجد طہ کی جانب ہونے لگا اور ہر نماز کے بعد درس و تدریس کا سلسلہ شروع ہوگیا اور ہزاروں لوگوں نے آپ ؒ کے دست مبارک پر اسلام قبول کیا۔لاہور اومنی بس ورکشاپ میں آپ ؒ مسلسل14 سال تک درس قرآن پاک دیتے رہے۔اسی دوران حضرت سید ظہیر الحسن شاہ ؒ کراچی سے لاہور تشریف لائے جب آپ ؒان سے ملاقات کے لیے گئے تو انہوں نے پہلی ہی ملاقات میں آپ ؒ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ میرے پاس آپ ؒ کی ایک امانت ہے جو میں خلافت کی صورت میں آپ ؒ کو دینا چاہتا ہوں اس طرح ہچکچاہٹ کے باوجود آپ ؒ کو ایک بڑے دینی گھرانے سے باقاعدہ خلافت مل چکی تھی اور چاروں سلسلوں میں مرید کرنے کی اجازت بھی ۔جب یہ خبر عقیدت مندوں تک پہنچی تو لوگ جوق در جوق آپ ؒ کے دست مبارک پر بیعت کرنے کے لیے مسجد طہ کا رخ کرنے لگے ۔ اس سے پہلے دیول شریف والوں نے بھی آپ ؒ کو تحریری خلافت عطا کررکھی تھی۔جب یہ بازگشت استاد گرامی شیخ الحدیث حضرت محمد عبداﷲ قادری اشرفی ؒ تک پہنچی تو انہوں نے پہلی تمام خلافتوں کی توثیق کرتے ہوئے اپنی جانب سے بھی خلافت عطا کر دی۔ اسی طرح ایک مرتبہ شیخ القرآن حضرت غلام علی اوکاڑوی ؒ جن کے شاگردوں میں ہزاروں مفتی ٗ عالم اور ولی بھی شامل ہیں ٗ جامع مسجد طہ تشریف لائے تو انہوں نے اپنے خطاب کے دوران سب کے روبرو فرمایا کہ جب روز محشر خدا مجھ سے پوچھے گا کہ اے غلام علی تو دنیا سے میرے لیے کیا لایا تو میں انتہائی ادب و احترام سے عرض کروں گا کہ پروردگار میں تیرا ایک نیک متقی اور پرہیز گار بندہ " محمد عنایت احمد "لایا ہوں۔یہ کہتے ہوئے آـپ ؒ نے فرمایا کہ میرے پاس جو کچھ بھی ہے وہ میں" محمد عنایت احمد" کو عطا کرتا ہوں۔شیخ المشائخ پیر طریقت حضرت سیدمحفوظ حسین شاہ ؒ ( گدی نشین مکان شریف )نے بھی آپ ؒ کو سلسلہ نقشبندیہ میں خلافت عطا فرمائی ۔ ایک مرتبہ باباجی پیر سید محمد علی شاہ بخاری ؒ لاہور میں اپنے پیارے مرید جنید اشرف بٹ صاحب کے گھر تشریف لائے جن کی رہائش فردوس مارکیٹ گلبرگ تھرڈ میں تھی ۔باباجی ؒ نے پوچھا بٹ صاحب آپ جمعہ کی نماز کہاں پڑھتے ہیں انہوں نے کہا مقامی مسجد میں ۔تو باباجی سرکارؒ نے فرمایا آپ کبوترپورہ شریف میں مولانا محمد عنایت احمد صاحب کی مسجد میں جمعہ پڑھا کریں ۔یہ قبلہ باباجی سرکارؒ کی خاص مہربانی اورنگاہ کرم تھی ۔پھر فرمایا ہمارا جو مرید حضرت کرماں والا نہ آسکے وہ گلبرگ تھرڈ لاہور کی مسجد طہ میں "محمد عنایت احمد کے پاس چلاجائے۔ وہاں بھی وہی فیض ملے گا جو حضرت کرماں والا آنے والوں کو ملتا ہے ۔

یادرہے کہ پیر محمد عنایت احمد ؒ نے جن بزرگوں اور اساتذہ کرام سے دینی تعلیم حاصل کی ۔ان میں ولی کامل حضرت ابوالبرکات سید محمد احمد قادری ؒ ، حضرت سیدنا طاہر علاؤ الدین القادری الگیلانی ؒ ، شیخ القرآن حضرت مولانا غلام علی اوکاڑوی ؒ ، شیخ الحدیث مولانا محمد عبداﷲ قصوری اشرفی ؒ ، حضرت مولانا منظور احمد ؒ اور حضرت علامہ مولانا محمد عبداﷲ جھنگوی ؒ شامل ہیں ۔

آپ کاؒ 28شعبان بمطابق 31 جولائی 2011ء کو جسمانی وصال ہوا ۔اس اعتبار سے ہراسلامی سال کی 28 شعبان کو آپ کا دو روزہ عرس مبارک عزت و احترام کے ساتھ منایا جاتا ہے ۔اس مرتبہ 20,21مارچ 2023ء کو آپؒ کے سجادہ نشین صاحبزادہ محمد عمر کی نگرانی میں دوروزہ عرس کا انعقاد کیا جارہا ہے ۔ جس میں ملک بھر سے عقیدت مند اور اولیاء اﷲ سے محبت کرنے والے بڑی تعداد میں شریک ہو نگے ۔ان شاء اﷲ

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 663401 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.