زندگی ﷲ رب العزت کی عطا کردہ بیش بہا نعمتوں میں سے ایک
نعمت ہے، حیات حق تعالیٰ کی امانت ہے اور یہ ایک بہترین تحفہ بھی ہے ۔
زندگی کا معنیٰ و مفہوم سمجھتے سمجھتے ہم اس نعمت سے محروم ہو جاتے ہیں ۔
بعض لوگوں کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ "زندگی نے تھکا دیا ہے"۔ لیکن ایسا نہیں
ہوتا ، زندگی تو خود بڑی خوبصورت شے ہے وہ بھلا کیسے تھکا سکتی ہے ۔۔۔ ہم
تھکتے ضرور ہیں لیکن اس کا باعث زندگی نہیں بنتی، اس تھکاوٹ کا ذریعہ بنتی
ہیں ہماری بےجا خواہشات، ہماری ترجیحات، ہمارے مقاصد ۔ کبھی سوچا ہے کہ
ہمیں کیوں بھیجا گیا ہے؟ ہمیں کیوں زندگی جیسی اک عظیم نعمت سے نوازا گیا
ہے؟ یقیناً آپ کا جواب "نہیں " ہو گا۔ رب تعالیٰ نے ہمیں اپنی عبادت کے لیے
بھیجا ہے۔ ہمیں آخرت کی تیاری کے لیے یہ زندگی عطا کی گئی ہے جسے ہم عیش و
عشرت اور آرام و سکون میں صرف کر رہے ہیں۔ بروزِ قیامت جس طرح نماز کے
متعلق پوچھا جائے گا، اسی طرح زندگی کے متعلق بھی پوچھا جائے گا کہ اے
انسان تو نے دنیا میں ساٹھ سال زندگی گزاری بتا اسے کہاں صرف کیا، حتیٰ کہ
ہمارے جسم کے ہر اعضاء کے متعلق یہی سوال کیا جائے گا، ادھر کیا جواب دینا
ہے ہم نے ہمیں کچھ معلوم نہیں۔ ناجانے ہم کیوں مغربی دنیا کی رنگینیوں میں
گم ہو کر اپنا دین اور اپنی پہچان بھول چکے ہیں اپنی اس زندگی کا مقصد تک
بھول چکے ہیں۔ اس زندگی کی مثال امتحان کی تیاری کے لیے میسر وقت کی سی ہے۔
اور بروزِ حشر امتحان ہے۔اب کے دور میں ہم اس امتحان کا مقابلہ اپنے تعلیمی
امتحان سے نہیں کر سکتے کیونکہ ہم نے تعلیمی امتحانات کے لیے پڑھائی صرف
امتحان سے قبل ایک دن تک محدود کر رکھی ہے لیکن تعلیمی امتحان کے لیے اک دن
مقرر ہوتا ہے پر زندگی کے اس عظیم امتحان کے لیے کوئی دن مقرر نہیں اور نہ
ہی ہمیں اس کے متعلق کچھ آگاہی ہے۔ پھر کیوں ہم بے فکر گھومتے پھرتے دکھائی
دیتے ہیں۔ ہمارے پاس تو آنکھ جھپکنے کی بھی ضمانت نہیں ہے۔ کیوں ہم رب کے
حضور توبہ نہیں کرتے ؟ کیوں ہم رب تعالیٰ کی طرف نہیں لوٹتے؟ سب جانتے ہوئے
بھی کیوں ناواقف بنے بیٹھے ہیں؟ نماز میں کوتاہی ہم کرتے ہیں، زکوٰۃ ادا
کرتے وقت ہمیں کچھ ہوتا ہے، روزے ہم سے پورے نہیں رکھے جاتے، لوگ حج کرنے
کی استطاعت رکھتے ہوئے بھی حج نہیں کرتے ، یہ پانچ ارکان ہیں دینِ اسلام کے
، یہی ہم سے ادا نہیں ہو رہے اور پھر نا شکری ہم کرتے ہیں ۔ کیا یہ مقصد ہے
ہماری زندگی کا؟ نہیں نا ۔۔۔۔۔ پھر کیوں بھٹک رہے ہو ، لوٹ آؤ اس رب کی طرف
جو دونوں جہانوں کا پالنے والا ہے، وہ سب کی خطائیں معاف فرما دیتا ہے۔
اپنی خواہشات کو قابو میں رکھو اور صرف اپنی ضروریات پوری کرو۔ زندگی کا
مقصد سمجھ میں آ جائے گا۔ میں نے زندگی کا خاکہ کچھ یوں کھنچا ہے کہ زندگی
فقط اک کھیل ہے، جو خواہشات میں بند اک جیل ہے، یہ خواہشات پوری نہ ہوں گی
کبھی، چاہیں نکل جائیں سانسیں سب ہی۔۔۔۔۔ |