عطائے سخن

ایک دنیا دار عالم، اپنے علم پر نازاں، ایک حوض کے کنارے انتہائی شاہانہ انداز میں بڑے کروفر کے ساتھ اپنے شاگردوں کو پڑھا رہا تھا۔ لیکچر ختم ہوا تو وہ وہاں سے اٹھ کر کہیں جانے لگا۔ اتنے میں ایک خستہ حال فقیر ،پھٹے پرانے کپڑے، گرد آلود ننگے پاؤں، الجھے بال ، چہرے پر دھول لئے، وہاں پہنچا۔ عالم کی کتابوں کو دیکھ کر اس سے پوچھنے لگا کہ یہ کیا ہے۔ عالم نے بڑے روکھے انداز میں جواب دیا،’’’ چیزیست کہ تو نمی دانی،(یہ وہ ایک چیزہے کہ جسے تم نہیں جانتے)‘‘۔ یہ کہہ کر عالم وہاں سے چلا گیا۔تھوڑی دیر میں عالم واپس آیا تو کیا دیکھتا ہے کہ اس فقیر نے اس کی کتابیں حوض میں پھینک دی ہیں عالم نے ناراضی کا اظہار کیا تو فقیر نے ہاتھ بڑھایا اور وہ کتامیں نکال کر حوض کے کنارے بنی منڈیر پر رکھ دیں۔ کتابیں بالکل سوکھی ہوئی تھیں۔عالم نے پریشان ہو کر پوچھا کہ یہ کیا ہے۔ فقیر نے مسکرا کر کہا ، ’ ’ چیزیست کہ تو نمی دانی،(یہ وہ ایک چیزہے کہ جسے تم نہیں جانتے)‘‘۔عالم کو یاد آیا کہ کچھ عرصہ پہلے اسے ایک خواب میں بشارت ہوئی تھی کہ کسی نے ان سے کہا کہ تم نے دینی اور دنیاوی علوم تو سیکھ لئے ، یقیناً یہ قابل تعریف ہے مگر تمہارا ا علم ابھی ادھورا ہے جسے مکمل کرنے کے لئے تمہیں معرفت کی منزلیں طے کرنی ہوں گیروحانی علم جاننا ہو گا۔تمہاری تربیت اور اس علم کو سکھانے اور روحانی تربیت کرنے کے لئے ایک ایسا شخص تمہارے پاس آئے گاجسے معرفت میں کمال حاصل ہے۔ وہ ہمارا پسندیدہ بندہ ہے اور اس کا نام شمش تبریز ہے۔

عالم نے خستہ حال فقیر کی طرف دیکھا اور پوچھا، آپ شاہ شمش تبریز تو نہیں ، جواب ملا ہاں میں شمش ہوں بس یہی وہ لمحہ تھا کہ ایک دنیادار عالم کی کایا پلٹ گئی ۔ شاہ شمش تبریز کی عطائے سخن کی بدولت وہ ایک عام عالم، ایک عام استاد، ایک بہت بڑا استاد بن گیا اور مثنوی معنوی کو وجود میں لانے اور بہت سی چیزوں کانظم کی صورت میں خدائی اظہارکرنے لگا۔وہ عالم آج مولانا جلال الدین رومی کے نام سے جانے جاتے ہیں۔کہتے ہیں کہ اس سے پہلے حضرت شمش تبریز نے ایک دن رب سے دعا کی کہ اے میرے رب تو نے مجھے جو علم عطا کیا ہے ، وہ میں آگے کسی ایسے انسان کو دینا چاہتا ہوں جسے تو پسند کرتا ہے۔ وہ دعا قبول ہوئی اور غیب سے آواز آئی،’’ایسا شخص تجھے یہاں نہیں مل سکتا، تجھے اسے تلاش کرنے قونیہ جانا پڑے گا‘‘۔

تیرھویں صدی کے اس عظیم استاد ، مفکر، شاعر اور صوفی کو ہم سے بچھڑے سات سو سال سے زیادہ ہو چکے مگر آپ کی تعلیمات جاری و ساری ہیں۔جلال الدین محمد بلخی ، جو بعد میں جلال الدین محمد رومی جانے گئے ، کا تعلق عظیم ایران کے علاقے خراسان کے شہر بلخ سے تھا۔آپ 30 ستمبر1207 کو بلخ میں پیدا ہوئے اور 17 دسمبر کو قونیہ میں وفات پائی اور وہیں دفن ہوئے۔ ہر سال 17دسمبر کو قونیہ میں درویشوں کے رقص اور سماع کی بے پناہ محفلیں ہوتی اور دنیا بھر سے اتنی بڑی تعداد میں لوگ شرکت کرتے ہیں کہ جگہ ملنی مشکل ہوتی ہے۔مولانا استاد کو کہا جاتا ہے۔ ترکی کا علاقہ اناطولیہ کبھی روم کا حصہ تھا اور رومیوں کے بعد بھی اس علاقے کو روم ہی کہا جاتا رہا۔چنانچہ اس حوالے سے آپ کو روم کا استاد یا مولانا رومی کہا جاتا ہے۔آپ کا تعلق حنفی فقہ سے تھا اور آپ فلسفہ اسلام اور صوفی ازم کے سب سے بڑے مفسر مانے جاتے ہیں ۔ فارسی زبان میں چھ جلدوں اور 27000 لائنوں پر مشتمل تصنیف’’ مثنوی معنوی‘‘ آپ کا شاہکار ہے۔اس کتاب کو ’’ فارسی کا قران ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ حال ہی میں اس کا انگریزی ترجمہ امریکہ میں سب سے زیادہ بکنے والی شاعری کی کتاب قرار دی گئی ہے۔ آپ کی زیادہ تر تصانیف فارسی زبان میں ہیں مگر آپ نے ترکی، عربی اور یونانی میں بھی کافی چیزیں تحریر کی ہیں۔’’فیہ ما فیہ‘‘ آپ کے اکہتر (71) مختلف خطبوں پر مشتمل کتاب ہے جو آپ نے مختلف مسائل پر اپنے شاگردوں کودئیے۔مجالس سبعہ آپ کے قران اور حدیث کے بارے سات مختلف خطبوں پر مشتمل کتاب ہے جو آپ نے مختلف اجتماحات میں دئیے۔اس کے علاوہ آپ کی کتاب مکتوبات جو آپ کے خطوں پر مشتمل ہے، شاعری کی کتاب دیوان شمش تبریز جو آپ کی مرتب کردہ اور بہت سی دوسری کتابیں ہیں۔آپ کی کہی ہوئی کچھ باتیں جو انسان اور انسانیت کے لئے عظیم پیغام ہیں کچھ یوں ہیں:
1۔ماں باپ کے ساتھ سلوک ایسی کہانی ہے جو لکھتے آپ ہیں لیکن آپ کی اولاد آپ کو پڑھ کر سناتی ہے۔
2۔خبر دار بہت سے شیطان انسانوں کی صورت میں ہیں۔ بس ہر شخص کے ہاتھ میں ہاتھ نہیں دینا چائیے۔
3۔ اگر تو بیکار پتھر ہے تو صاحب علم لوگوں میں بیٹھ، گوہر بن جائے گا۔
4۔ ایک ہزاعر قابل انسانوں کے مر جانے سے اتنا نقصان نہیں ہوتا جتنا ایک احمق کے صاحب اختیار ہونے سے ہوتا ہے۔
5۔ درویشوں کے علاوہ دنیا کے باقی لوگ بچوں کی مانند ہیں جو کھیل میں مگن ہیں۔
6۔ اس دنیا میں کوئی خزانہ سانپ کے بغیر، کوئی پھول کانٹے کے بغیر اور کوئی خوشی غم کے بغیر نہیں ہے۔
7۔ اپنی آواز کی بجائے اپنی دلیل کو بلند کرو ۔ پھول بال کے گرجنے سے نہیں برسنے سے اگتے ہیں۔
8۔ خدا تک پہنچنے کے بہت سے راستے ہیں مگر میں نے خدا کا پسندیدہ تریں راستہ مخلوق سے محبت چنا۔
9۔ جب دنیا والے آپ کو گھٹنے ٹیکنے پر مضبور کر دیں تو وہی سجدہ کرنے کا بہترین وقت ہے۔
10 ۔ اگر میرا علم مجھے انسانوں سے محبت کرنا نہیں سکھاتا تو ایک جائل مجھ سے ہزار درجے بہتر ہے۔
11۔ اکیلا رہنا بری صحبت میں رہنے سے بہتر ہے۔
12۔ گفتگو سے سمجھ بوجھ میں اضافہ ہوتا ہے مگر تنہائی وہ مدرسہ ہے جہاں عظیم ذہن پیدا ہوتے ہیں۔
13۔ میں نے بہت سے انسان دیکھے ہیں جن کے بدن پر لباس نہیں ہوتا اور بہت سے لباس دیکھے ہیں جن کے اندر انسان نہیں ہوتا۔
14۔ پر سکون وہ ہے جسے کم یا زیادہ کی فکر نہیں۔
15 ۔ دشمنوں سے زیادہ ہمارے وہ دوست خطرناک ہیں جو منافقانہ انداز میں ہمارے جذبات سے کھیلتے ہیں۔

تنویر صادق
 

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 582 Articles with 500243 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More