طالب علم کے معنی تو لئے جاتے ہیں علم کی طلب یعنی علم کی
خواہش یا علم کی طلب۔ طالب علم وہ شخص پوتا ہے جس کو جاننے کی لگن ہو کہ
آیا یہ کیسے، کیوں اور کب ہوا، کیا اس کا دنیا میں کوئی فائدہ یانقصان ہے،
ہر پہلو کے بارے میں آگاہی حاصل کرنا طالب علم کے لئے ضروری ہے اور اس کا
حق ہے۔
طالب علم بننا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔
آخر کیوں؟
جواب قابل غور اور حیران کن ہے کیونکہ اس میں تضاد موجود ہے۔
طالب علم کا دوسرا نام صبر ہے۔طالب علم بننے کے کچھ اصول طے کئے ہوئے ہیں
جو ان کی پاسداری کرتا ہے وہ فرمانبردار اور صالح کہلاتا ہے، دنیا میں بھی
فلاح پاتا ہے اور آخرت میں اجر سے نوازا جاتا ہے۔وہ اصول درج ذیل ہیں:
*) طالب علم خواہ وہ کسی بھی عمر سے تعلق رکھتا ہو اس پر فرض ہے اپنے
اساتذہ کی بات کو غور سے سنے۔
*) دوران درس بحث و مباحثہ سے گریز کرے۔
*) طالب علم کے ذہن میں جو سوال ابھر رہے ہوں ان کو تعلیمی پہلو سے پوچھے
*) استاد کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کا طالب علم اس سے سوال کرے مگر اسی موضوغ
پر جو جاری ہو۔
*) طالب علم وقت کی پابندی کو اپنی زندگی کا حصہ بناتا ہے اور حافظہ قوی
ہوتا ہے۔
*) طالب علم کو بچپن سے لے کر حال تک ساری باتیں یاد رہتی ہیں۔
*) طالب علم سب کی عزت کرتا ہے اور اور دوسروں کو بھی اس کی تلقین کرتا ہے۔
*) طالب علم برے کام اور بری صحبتوں سے پرہیز کرتا ہے۔
*) طالب علم اپنا کام وقت پر مکمل کرتا ہے۔
*) طالب علم صاف ستھرا رہتا ہے۔
کیا تضاد نظر آیا؟
طالب علم اور استاد کے درمیان جو تعلیمی رشتہ ہے کیا وہ طالب علم کو علم
دینے میں کامیاب ہوتا ہے؟
اگر طالب علم کا رشتہ عالم سے جوڑا جائے کیا وہ روحانی نہج پر جانے میں
کامیاب ہوگا؟
یہ قارعین پر منحصر ہے کہ وہ اتفاق کریں یا نہیں۔
کیونکہ طالب علم کا ذہن تخلیقی ہوتا ہے۔اس کے ذہن میں نئے نئے سوال گردش
کرتے ہیں اور اس کا جواب
عالم کے پاس ہوتا ہے مگر وہ درسی کتابوں سے ہٹ کر ہوتا ہے۔
عالم کے پاس ہر بات کا ہر مسلے کا حل موجود ہوتا ہے کیونکہ وہ طالب علم سے
بڑا ہوتا ہے- جو طلب لئے علم کا دریا اور سمندر کا پانی چکھ چکا ہوتا ہے جس
کی پاس آسمان، زمین، حیوان، پودے، سیارے، خورشید، مہتاب، نجم، آسمانی
کتابیں، روح، محبت، خدا، فرشتے، مذاہب، طاقت کیا کیا نہیں معلوم ہوتا۔
مگر کہاں ہے عالم اور کہاں ہے طالب علم کی جستجو۔جو اس کی پیاس کو سیراب
کرے۔اس بنجر زمین کو زرخیز اور شاداب کرے، اسے سیاہ سے سفید کرے، اسے
انھیرے سے روشن کرے۔
اسے کوئلے سے ہیرا کرے۔
ترقی تو یہاں سے شروع ہے اس خی شخصیت کی اس کے اہل و اعیال کی اس کے قصبے
کی، اس کے شہر کی اس کے گاوں کی، اس کے ملک کی ۔
پر عالم کی جگہ لے لی گئی اور پوفیشنل سیکھے ہوئے اساتذہ پر یہ زمی داری
عائد کردی گئی کہ مطلب کی بات کو اہمت دو اور طالب و علم پر سختی کرو نا اس
کی بات سنو اور نا ہی اسے بولنے دو۔
طالب علم ماحول دیکھ کر سب برادشت کرلیتا ہے کیونکہ طالب علم کا دوسرا نام
صبر ہے۔ |