ہندوستانی خبر رساں ادارے اے این آئی کے مطابق موہن
بھاگوت نے دارالحکومت نئی دہلی سے ملحق ریاست ہریانہ میں ایک اسپتال کا
افتتاح کرتے ہوئے اپنے خطاب میں یہ دعویٰ کیا کہ ’برطانوی راج سے پہلے
ہمارے ملک کی 70 فیصد آبادی تعلیم یافتہ تھی اور بے روزگاری نہیں تھی جبکہ
انگلینڈ میں صرف 17 فیصد لوگ تعلیم یافتہ تھے۔ انگریزوں نے اپنے تعلیمی
ماڈل کو یہاں نافذ کیا اور ہمارے ماڈل کو اپنے ملک میں نافذ کیا۔ اس لیے
انگلستان میں 70 فیصد لوگ تعلیم یافتہ ہو گئے جبکہ ہندوستان میں اس کی
آبادی کا صرف 17 فیصد تعلیم یافتہ رہ گیا۔‘ تعلیم اور روزگار سے متعلق یہ
بیان عجیب لگتا تو ہے مگر مبنی برحقیقت ہے۔ وطن عزیز میں تعلیم کے حوالے سے
اوریا مقبول جان نے ایک چشم کشا تحقیق میں مندرجہ ذیل حقائق کی تصدیق کرتی
ہے۔ اس کے مطابق اورنگزیب عالمگیر (م 1707ء) کا ہندوستان اپنے دور میں
آباددنیا کی تہذیبوں میں علم و عرفان کا ایسا درخشندہ ستارہ تھاجہاں تعلیم
گاہوں کا جال بچھا ہوا تھا۔ ہندوستان کے عظیم تعلیمی نظام کی پہلی گواہی
کسی اور نے نہیں بلکہ ایک برطانوی پادری ولیم ایڈم نے دی ہے ۔
1818ء میں ہندوستان آکر ایڈم نے یہاں 27 سال گزارے۔ اس وقت کے گورنر جنرل
لارڈ ولیم بینٹک کے حکم پر برصغیر کے تعلیمی نظام میں اصلاحات کی غرض سے
موصوف نےبنگال اور بہار کے تعلیمی نظام کا سروے کیا۔انہوں نے اپنی رپورٹ
میں اعتراف کیا کہ بنگال اور بہار میں تقریبا ایک لاکھ سکول بنیادی تعلیم
فراہم کرتے ہیں۔ ا سکول جانے کے قابل ہر 32لڑکوں کے لیے ایک درسگاہ میسر
ہے۔ ضلع راج شاہی کے قصبے نلتور کی آبادی 129,640 تھی۔ وہاں پر دو قسم
کاتعلیمی نظام رائج تھا۔ ایک میں رسمی انداز سے جدید تعلیم دی جاتی تھی اور
دوسرے گھریلوا سکول تھے۔ اس کے تحت ایک اُستاد یا اتالیق پورے خاندان کو
ایک ساتھ بٹھا کر تعلیم دیتا تھا۔ رسمی تعلیم والے سکول میں داخلے کی
اوسطاً عمر آٹھ سال تھی اور پانچ سال کی تعلیم کے بعدتقریباً 14 سال کی
عمر میں ایک لڑکا فارغ التحصیل ہو جاتا تھا۔نلتور میں جملہ گیارہ اسکول تھے
جو عربی زبان میں تعلیم اور قرآن پڑھانے کے لیے مخصوص تھے، جبکہ دس بنگالی
میں تعلیم دیتے تھے اور چار فارسی میں۔ ہر فرد کو آزادی تھی کہ وہ پرائمری
تعلیم عربی، فارسی یا بنگالی میں سے کسی ایک میں حاصل کرے۔ اوسطاً ایک
اسکول میں دس سے پندرہ طلبہ زیر تعلیم تھے۔
مدراس کے علاقے میں بھی1822 ء سے 1826 ء کے درمیان علاقائی نظام تعلیم کا
جائزہ لیاگیا۔ اس کی رپورٹ کے مطابق اس وہاں پر 12,498 اسکولوں میں
1,88,650 طلبہ زیر تعلیم تھے۔ ایسا ہی سروے بمبئی کے علاقے میں ہوا تو پتہ
چلا کہ ہر 30 طلبا پر ایک ا سکول موجودتھا۔ پنجاب کے بارے میں گورنمنٹ کالج
لاہور کے پہلے پرنسپل گوٹلب ولیم لائٹنزکی ضخیم کتاب میں ہر گاؤں کے اندر
تعینات اساتذہ کے نام، طلبہ کی تعداد، مضامین کی اقسام اور معیار تعلیم کا
تفصیلی تذکرہ موجودہے۔ وہاں بھی رسمی تعلیم گاہوں کے علاوہ دیہاتوں میں
ایسے استاد اور اتالیق کاتقرر کیا جاتا تھا جو گھروں میں جاکر تعلیم دیتے
تاکہ ہر شخص ایک پڑھی لکھی، مہذب دنیا کا فرد بن سکے۔ایڈورڈ تھامسن نامی
برطانوی ادیب اور ناول نگار نے ہندوستان کے بازار کا ماحول نقشہ کھینچا تو
وہ پڑھا لکھا معاشرہ نظر آتا ہے۔ اس کے مطابق ہندوستان کے اسکولی تعلیم سے
محروم رہ جا نے والے غریب لوگ بھی لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔ غیر رسمی حصول کے
ذرائع نےا سکول جانے والوں سے کئی گنا زیادہ پڑھے لکھے افراد پیدا کردئیے
تھے۔ تھامسن نے کئی بنگالی کتابوں کا ترجمہ کیا ۔ وہ لکھتا ہے کہ بنگال کے
بازار وں میں لاکھوں کتابیں فروخت ہوتی تھیں۔اس زمانے میں سرت چندر چٹرجی
کی ’دیوداس‘ صرف بارہ آنے میں بکتی تھی پھر بھی انہیں اس کی بارہ ہزار
روپے رائلٹی ملتی کیونکہ اس ناول کے دو لاکھ نسخے فروخت ہوئےتھے۔
بنیادی تعلیم کے علاوہ کالجوں اور یونیورسٹیوں کا ایک بھی جال بچھا ہوا
تھا۔ 1820 ء سے 1830 ء تک بمبئی صوبے کے نظام تعلیم کا سروے کیا گیا تو پتہ
چلا کہ بمبئی میں 222 بڑے کالج اور یونیورسٹیاں موجود تھیں۔ احمد نگر میں
16 بڑے کالج اور پونا شہر میں 164 کالج اعلیٰ تعلیم کے لئے مخصوص تھے۔
مدراس کے علاقے میں اعلی تعلیم کے لیے 1,101 کالج موجود تھے۔ ان میں سب سے
زیادہ 279 کالج، راج مندر میں تھے جبکہ ترچن لوبائی میں 173، بنگلورمیں 137
اور تنجور میں 109 کالج تھے۔ان کالجوں میں 5431 طلبہ کو قانون، فلکیات،
فلسفہ، شاعری، جہاز رانی، طب، فن تعمیر اور آلاتِ حرب بنانے کے علوم
سکھائے جاتے تھے۔کروشیا کا ادیب ’فراپاولینو دی بارلٹو لومیو‘نے 1798 ء میں
ہندوستانی تعلیمی نظام کواپنے دور کا سب سے بہترین اور اعلی ٰمعیار کا
پایا۔ اس کے مطابق یہاں ایسے تمام فکری، مابعدالطبیعاتی اور سائنسی علوم
پڑھائے جاتے تھے جن کا تصور بھی یورپ میں نہیں ہوتا تھا۔
مسلمان بادشاہوں نےتعلیم برہمنوں اور شاہی خاندانوں کےحدود سے نکال کر عام
لوگوں تک پہنچایاتاکہ ہر رنگ اور نسل کے بچے زیورِ تعلیم سے آراستہ
ہوسکیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب انگریزوں نے بنگال میں ذات پات کے حوالے سے
تعلیمی سروے کیا تو معلوم ہوا کہ وہاں جملہ 1,75,089 ہندو طالب علموں میں
صرف 24 فیصد یعنی 42,502 برہمن تھے، جبکہ 19,669 ویش اور 85,400 شودر تعلیم
حاصل کررہے تھے۔ ٹیپو سلطان کے قائم کردہ ا سکولوں میں 65 فیصد شودر بچے
تعلیم حاصل کرتے تھے۔ انگریزوں نے چونکہ دلّی دربار سے قبل بنگال، بہار،
اڑیسہ، مدراس،میسور، پنجاب وغیرہ میں اپنی حکومت قائم کرلی تھی اس لیے وہاں
پر تعلیمی سروے کروایا گیا لیکن 1857 ء کی جنگ آزادی سے بہت پہلے پورے
ہندوستان میں یہی تعلیم کی یہی صورتحال تھی۔بھاگوت کی یہ بات بھی درست ہے
کہ ہندوستان میں رائج تعلیمی نظام کو انگریزوں نے اپنایا کیونکہ اے ای دوبز
نے 1920 ء میں اس حقیقت کا اعتراف کیا ہےکہ پورے برطانیہ میں اٹھارویں صدی
تک صرف 500 گرامر سکول تھے اوران میں صرف اعلیٰ نسل کے بچوں کو تعلیم دی
جاتی تھی۔ جبکہ سترہویں اور اٹھارویں صدی عیسوی کےمغلیہ ہندوستان میں
سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے اندر ہر کوئی بلاتخصیصِ مذہب، رنگ، نسل
اور ذات پات، اپنے بچوں کو داخل کرا سکتا تھا ۔
برطانیہ کے اندر 1802 ء میں Peel's Act آیا جس کے تحت عام بچوں کے لئے بھی
پڑھنا لکھنا اور حساب سیکھنا لازم قرار دیا گیا۔ جوزف لنکاسٹر اور اینڈریو
بیل نے مغلیہ ہندوستان کے اتالیق سسٹم کےخطوط پر غیر رسمی تعلیمی نظام رائج
کیا۔ 1801 ء کے انگلینڈ میں صرف 3,363 سکول تھے اور طلبا کی تعداد چالیس
ہزار تھی جبکہ ہندوستان میں لاکھوں ا سکول موجودتھے۔ 1818ء کے اندر برطانیہ
میں یہ تعداد بڑھ کر 6,74,883 ہوئی اور1851ء میں وہاں 21,44,377 طلبہ
46,114 اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے لگے۔ انگریزوں کے طرز فکر میں یہ
انقلابی تبدیلی ہندوستان میں رائج نظام تعلیم کو اپنانے کے بعد
آئی۔ہندوستان میں رائج نظام تعلیم دین و دنیا دونوں علوم کا احاطہ کرتا
تھا۔ تفسیر اور حدیث کے ساتھ ساتھ منطق، فلسفہ، علم ریاضی، جیومیٹری ،
الجبرا، علم الہندسہ، طب ،گرامر، ادب اور فن تعمیرات پڑھائے جاتے تھے۔ ان
مدارس سے ایک ایسی نسل برآمد ہوتی تھی جو ہندوستانی سول سروس ،عدلیہ، صحت،
تعلیم اور تعمیرات جیسے تمام شعبوں میں اپنی کارکردگی دکھاتی تھی اور جو
اپنے اپنے مذاہب کے علم سے بھی آراستہ ہوتی تھی۔
اوریا مقبول جان کی تحقیق کے مطابق مغلیہ تعلیمی نظام کی داغ بیل شاہ
عبدالرحیم نے ڈالی تھی ۔انہوں نےاورنگ زیب عالمگیر کی فرمائش پر فتاویٰ
عالمگیری بھی مرتب کی۔ ان کے مدرسہ رحیمیہ کا نصاب سب کے لیے قابل قبول
تھا۔ اس وقت تک دین اور دنیا کی تعلیم میں کوئی امتیاز نہ تھااور نہ علیحدہ
علیحدہ مدارس تھے۔ ایک ہی سکول کالج اور یونیورسٹی دونوں علوم ساتھ ساتھ
پڑھائے جاتے تھے۔عصرِ حاضر کے معروف ماہر تعلیم اور مصنف پروفیسر پروشوتم
اگروال نے بھی موہن بھاگوت سے جزوی اتفاق کرتے ہوئے ان کے اعتراف کو سراہا
۔ اگروال بھی مانتے ہیں کہ برطانوی راج سے پہلے مغل حکومت کا نظام اچھا تھا
۔ بھاگوت کا بیانیہ مغل حکمرانوں کےظالم و جابر ہونے کی نفی کرتا ہے۔اگروال
کے مطابق ہندوستان میں بنیادی تعلیمی نظام کا مضبوط ڈھانچہ موجود تھا
اورایسے مکتب اور مدارس تھے، جن میں مذہبی تعلیم کےعلاوہ سیکولر(فنی) تعلیم
بھی دی جاتی تھی۔یہ ایک حقیقت ہے کہ انگریزوں کی آمدسے قبل اورنگ زیب کی
موت کے وقت ہندوستان کا جی ڈی پی دنیا کے جی ڈی پی کا 24 فیصد تھا جو کہ
برطانوی راج کے اختتام پر کم ہو کر چار فیصد پرآ گیا ۔اس دور میں چونکہ
دنیا بھر کی 25 فیصد پیداوار ہندوستان میں ہوتی تھی اس لیے لوگ بے روزگار
بھی نہیں تھے یعنی بھاگوت کا دوسرا دعویٰ بھی درست ہے۔ یہ کمال احسان
فراموشی ہے کہ موہن بھاگوت تو نام لیے بغیر مسلمانوں کے تعلیمی خدمات کا
اعتراف کرتے ہیں مگر ان کی مہاراشٹر سرکار معمولی سیاسی فائدے کے لیے اورنگ
آباد شہر کا نام تبدیل کردیتی ہے۔ نظامِ تعلیم سے متعلق موہن بھاگوت کے
بیان پر علامہ اقبال کا یہ شعر صادق آتا ہے؎
آہ! جب گلشن کی جمعیت پریشاں ہو گئی
پھول کو بادِ بہاری کا پیام آیا تو کیا
|