گرین پاور ٹریڈنگ کا تصور

چین کا شمار دنیا کے اُن بڑے ممالک میں کیا جاتا ہے جو جدید ذرائع نقل و حمل کے شعبے میں دنیا کی نمایاں طاقت ہیں۔ حالیہ عرصے میں چین نے توانائی کی بچت اور کم کاربن نقل و حمل کو فروغ دینے کی کوششوں میں نمایاں تیزی لائی ہے۔انہی کوششوں کے ثمرات ہیں کہ آج چین نیو انرجی گاڑیوں (این ای وی) کی پیداوار اور فروخت کے لحاظ سے مسلسل کئی سالوں سے دنیا بھر میں پہلے نمبر پر ہے اور اس صنعت نے بھرپور طریقے سے ترقی کی ہے۔ چین ویسے بھی دنیا کی سب سے بڑی آٹو مارکیٹ ہے جس میں سال 2022 کے دوران نیو انرجی گاڑیوں کی فروخت سالانہ بنیادوں پر 60 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔مجموعی طور پر چین نے 2022 میں تقریباً 6.89 ملین نیو انرجی گاڑیاں فروخت کیں ، جس میں سالانہ بنیادوں پر 93.4 فیصد اضافہ ہے۔حیرت انگیز پہلو یہ بھی ہے کہ ملک میں نیو انرجی گاڑیوں کی پیداوار ایک سال قبل کے مقابلے میں 96.9 فیصد اضافے سے تقریباً 7.06 ملین یونٹس ہو چکی ہے۔ مانگ میں زبردست اضافے کی بدولت ، چین میں فعال ملکی اور غیر ملکی نیو انرجی گاڑی سازوں کے لیے بے شمار مواقع سامنے آئے ہیں جبکہ یہ توقع بھی کی جا رہی ہے کہ رواں سال 2023 میں نیو انرجی گاڑیوں کی فروخت ریکارڈ 90 لاکھ یونٹس تک پہنچ جائے گی۔

انہی اہداف کی روشنی میں چین نے توانائی کی تبدیلی کے ساتھ اپنی نیو انرجی گاڑیوں کے انضمام کو تیز کردیا ہے۔اس ضمن میں"گرین پاور ٹریڈنگ" کے ذریعے نئی توانائی اور سبز بجلی کی کھپت کے تناسب میں اضافہ ایک اہم اگلا قدم ہے جس میں تیزی آئے گی۔گرین پاور ٹریڈنگ کی بدولت صارفین کو گرین انرجی میسر آ رہی ہے جو ملک کی کم کاربن منتقلی کی کوششوں میں تیزی کا موجب ہے.اس وقت یہ ٹریڈنگ شان دونگ، سی چھوان اور شانسی سمیت 14 صوبوں میں جاری ہے، جس سے کاربن کے اخراج میں تقریباً 5 ملین ٹن کی کمی آئی ہے۔نیو انرجی گاڑیوں کے حوالے سے وسیع پیمانے پر منظم اور دو طرفہ چارجنگ کی سہولیات کو نمایاں فروغ دیا گیا ہے۔اس خاطر ملک میں فروری 2023 کے آخر تک 111000 چارجنگ اسٹیشن اور 5.59 ملین چارجنگ پائلز تعمیر کیے جا چکے ہیں، اس طرح این ای وی اور توانائی کی صنعتوں کی ترقی کو مربوط کیا جا رہا ہے۔

ماہرین پُراعتماد ہیں کہ نیو انرجی گاڑیاں درمیانی سے طویل مدت میں کاربن اخراج کو کم کرنے میں ایک بڑی طاقت بن جائیں گی۔خالص الیکٹرک گاڑیاں کاربن اخراج کو تقریباً 40 فیصد تک کم کرسکتی ہیں اور مستقبل میں بجلی میں غیر فوسل توانائی کے تناسب میں اضافے اور کارکردگی کے ساتھ ان کی افادیت اور بھی بڑھ جائے گی۔اسی طرح آرٹیفیشل انٹیلی جنٹ ٹیکنالوجی کے عمدہ اطلاق کی بدولت انٹیلی جنٹ گاڑیاں چین میں کاربن اخراج کو کم کرنے کے لئے ایک نئی ڈرائیونگ فورس بنتی چلی جا رہی ہیں ۔محفوظ اور موثر خودکار ڈرائیونگ ، سفر کی کارکردگی کو 20 سے 30 فیصد تک بہتر بناسکتی ہے جبکہ کاربن کے اخراج کو بھی مزید کم کیا جا سکتا ہے.چین نے 2021 سے اب تک 16 شہروں میں انٹیلی جنٹ گاڑیوں کے پائلٹ پروگرام چلا کر اسمارٹ شہروں کے ساتھ ان گاڑیوں کو مربوط کیا ہے۔ ان شہروں نے 2000 سے زیادہ اہم چوراہوں پر بصری ریڈار اور انٹرایکشن سہولیات سمیت دیگر سینسنگ سہولیات قائم کی ہیں۔اس خاطر ملک نے دو لاکھ چالیس ہزار 5 جی بیس اسٹیشن تعمیر کیے ہیں اور 1700 خودکار گاڑیاں تعینات کی ہیں جن کا مجموعی ٹیسٹ نیٹ ورک 27.3 ملین کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے۔

چین 2025 تک نئی گاڑیوں کی فروخت کے تناسب کو 20 فیصد تک بڑھانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ یہ ہدف 2020 میں مقرر کیا گیا تھا، اور اس وقت مارکیٹ کے اندرونی ذرائع کا خیال ہے کہ ملک مقررہ وقت سے پہلے ہدف حاصل کر لے گا۔ تاحال چین نے نیو انرجی سے چلنے والی گاڑیوں کی ترقی کے لیے ساٹھ سے زائد پالیسیز متعارف کروائی ہیں اور 150 سے زائد معیارات مرتب کرتے ہوئے اُن پرعمل درآمد کیا ہے۔ نیو انرجی سے چلنے والی گاڑیوں کے فروغ اور حمایت کے لیے ملک نے پالیسی سازی کے لحاظ سے دنیا میں اپنی نوعیت کا جامع ترین نظام قائم کیا ہے۔یوں چین میں نیو انرجی سے چلنے والی ماحول دوست گاڑیوں کی صنعت وسیع پیمانے پر اعلیٰ معیاری اور تیز رفتار ترقی کے نئے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔اس وقت چین میں نیو انرجی سے چلنے والی گاڑیوں کی کلیدی ٹیکنالوجی کا معیار بہتر ہوتا جا رہا ہے اور صنعتی چین بھی مکمل اور مستحکم ہو رہی ہے۔ٹیکنالوجی کی اختراعی صلاحیت نیو انرجی سے چلنے والی گاڑیوں کی صنعت کی تیزرفتار ترقی میں بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔دوسری جانب یہ امر بھی خوش آئند ہے کہ ملک کی نیو انرجی گاڑیوں کی برآمدات نے ترقی کی رفتار کو برقرار رکھا ہے ، یوں چین کے ماحول دوست اقدامات عالمی سطح پر بھی تخفیف کاربن میں نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں۔

 

Shahid Afraz Khan
About the Author: Shahid Afraz Khan Read More Articles by Shahid Afraz Khan: 1285 Articles with 577421 views Working as a Broadcast Journalist with China Media Group , Beijing .. View More